کچھ ذکر نادر شاہ افشار کا!

کچھ ذکر نادر شاہ افشار کا!

تحریر و تصاویر: ابوبکر شیخ

چاہت کا بیج کسی نہ کسی کیفیت میں ہر وجود میں اُگتا ہے۔ کہیں تنکے کی صورت میں تو کہیں جھاڑی کی صورت میں، مگر شاید ہی چاہت کا یہ بیج برگد کے پیڑ کی طرح اُگتا ہو۔ پھر یہ گھنی اور وسیع چاہت اس وجود کو رلا دیتی ہے کہ طلب کا وہ گھنا درخت جس پر تمناؤں کی ہزاروں چڑیائیں بستی ہیں ان کا شور اس کو سکون سے بیٹھنے نہیں دیتا۔

ہم یہاں مثبت اور منفی کی بحث میں نہیں پڑتے کہ اس پر بات کرنے سے طوالت کا اندیشہ ہے۔ بس یہ سمجھ لیں کہ مثبت چاہت ہوگی تو تیر اور تلوار ساتھ میں نہیں ہوگی اور نہ شبِ خون کے ڈر سے جاگنا پڑے گا۔

لیکن اگر یہ چاہت منفی راستے کا انتخاب کرے گی تو اس چاہت سے ’ت‘ نکل جاتا ہے، اور ’زندان‘ اور ’کَن‘ اس کے ساتھ لگ جاتے ہیں۔ گہرا نشیب کبھی مثبت عمل کے لیے استعمال نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا تو ’چاہ زندان‘ کا درد ہمارے سینوں میں کبھی نہیں ابلتا۔

آج کا یہ سفر کچھ زیادہ پرانے وقتوں کا تو نہیں ہے مگر طویل بہت ہے۔ یہ فاصلے ٹھنڈی اور سنگلاخ زمینوں سے شروع ہوتے ہیں اور تپتے اور گرم ریگزاروں تک آ پہنچتے ہیں۔ اگر ہم اس سفر کے راستے کو غور سے دیکھیں گے تو ہمیں بہت سے سنگ میل ملیں گے۔ اب ان کو ہم پڑھ سکتے ہیں یا نہیں وہ ہم پر منحصر ہے۔ مگر تاریخ کے اس کارواں میں سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔

21 مارچ 1739ء بمطابق 10 ذوالحجہ 1152ھ، ہفتے کا دن تھا۔ اسلامی تقویم کے مطابق عیدالاضحیٰ اور ایرانی کیلنڈر کے مطابق نوروز (نئے سال کا پہلا دن) تھا۔ عید کی نماز کے خطبے میں بادشاہ وقت کا نام ’نادر شاہ‘ پڑھا گیا۔ وقت کی بے رحمی اور شامت اعمال دیکھیے کہ سلطنتِ ہندوستان کا اصل مالک اور بادشاہ اس خطبے کو اپنے کانوں سے سن رہا تھا اور اپنی ہی مملکت میں ایک غلام کی حیثیت سے عید کے جلوس میں شامل تھا۔

اگر شمال مغرب سے آیا ہوا طاقت کا یہ غبار ان چوکھٹوں تک رک جاتا تو پھر بھی ایک کڑوے گھونٹ کی طرح حاکم پی لیتا۔ مگر یہ تو ابھی ابتدا تھی۔ شکست وریخت کی ذلتیں تو ابھی آنی باقی تھیں۔ اسی روز ’نوروز‘ کی تقریب بھی منعقد کی گئی۔ شام کے وقت کچھ بیوپاریوں نے یہ افواہ پھیلائی کہ، نادرشاہ قتل کردیا گیا ہے۔ ان افواہوں کی تصدیق نہیں کی گئی اور یہ خبریں دہلی کی گلیوں میں اس طرح پھیلیں جس طرح سوکھی گھاس کو دیا سلائی دکھانے کے بعد آگ پھیلتی ہے۔

نادر شاہ افشار کی پینٹنگ
نادر شاہ افشار کی پینٹنگ

یہ خبر سن کر قزلباش اپنے ہوش و حواس گنوا بیٹھے اور ہتھیار رکھنے والے لوگ نکڑوں پر اکٹھے ہوگئے اور ایک شورش کی شکل اختیار کرلی۔ غبار کسی بھی صورت و شکل میں ہو جب تک ایک لکیر کے دائرے میں رہے گا تب تک قابو میں رہے گا، اور جس پل اس لکیر کو پار کر گیا وہ کسی کے قابو میں نہیں رہتا۔ اس طرح شہر کی تنگ گلیوں میں سے گزرنے والے ایک یا 2 قزلباش، شورش پسندوں کے اچانک حملوں کا نشانہ بن کر قتل ہونے لگے۔

’تاریخ شہادت فرخ سیر‘ کے مصنف محمد بخش آشوب، اس وقت اپنے گھر میں، جو کابلی دروازہ کے قریب تھا کھانا کھا رہے تھے۔ انہوں نے یہ شور سن کر چھت پر جاکر دیکھا کہ سعادت خان کی سپاہ کے لوگ قزلباشوں کو تہ تیغ کر رہے ہیں (سعادت خان اسی دن زہر خورانی کی وجہ سے نادر کی قید میں مرا تھا)۔ سعادت خان کے یہ سپاہی کابل اور پشاور سے آئے تھے اور جنگ کرنال کی شکست کا انتقام لینا چاہتے تھے۔

قزلباشی سپاہی
قزلباشی سپاہی

بہرحال اس جھڑپ میں 3 ہزار ایرانی سپاہیوں کو اپنی جان گنوانی پڑی۔ دوسری صبح جب نادر شاہ ان حالات کا جائزہ لینے کے لیے نکلا تو راستے میں کسی گھر کی بالکونی سے ایک گولی چلی جس میں نادر تو بچ گیا مگر اس کا ایک عہدیدار مارا گیا۔ اس کے بعد کیا ہونا تھا؟ وہ ہی جو تخت اور پروٹوکول کے سحر میں جکڑے ہوئے بادشاہ کرتے ہیں۔ حکم ہوا کہ ’جس علاقہ میں ایک بھی قزلباش سپاہی مارا گیا ہے، وہاں کوئی بھی شہری زندہ نظر نہیں آنا چاہیے‘۔

تاریخ کے اوراق پر جہاں ایرانی سپاہیوں کا خون بہتا نظر آتا ہے، وہاں بدلے میں 3 ہزار کی جگہ 20 ہزار لوگوں کا اس نادری حکم سے بہتا خون بھی ہمیں ان تنگ گلیوں میں بہتا اور سوکھتا نظر آتا ہے۔ اور یہ 20 ہزار سروں کو فقط چند گھنٹوں یعنی صبح سے شام تک باجرے کے سٹوں کی طرح کاٹ دیا گیا۔ جب تک اس قتال کا اختتام نہ ہوا نادر شاہ نے اپنی تلوار نیام میں نہیں ڈالی۔

پھر وقت آیا دہلی سے تاوان لینے کا۔ مختلف تحریروں کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ دہلی کے امرا اور عوام سے زر و جواہر، بیش قیمت اشیا اور نقدی کی صورت میں کم از کم 70 کروڑ روپے حاصل ہوئے اور ساتھ میں طلائی تخت طاؤس اور کوہ نور ہیرا بھی ہاتھ لگا۔ جہاں بادشاہ رنگیلے ہوں، ہر خیال کا مرکز جنس پر آکر رک جائے، سُرور ملے تو نشے کی حالت میں سیدھا کھڑے رہنا معیوب لگے اور ڈگمگاتے قدم غرور بن جائیں وہاں ایسی صورتحال کا ہونا کسی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔

نادر شاہ اور دہلی پر حملے کی منظر کشی
نادر شاہ اور دہلی پر حملے کی منظر کشی

مغل سلطنت کا یہ زمانہ اپنی آخری ہچکیاں لے رہا تھا۔ وسعت جب اپنے پھیلاؤ کی سرحد تک پہنچتی ہے تو اس کا بحال رکھنا کمال ہوتا ہے۔ مگر یہاں تو زوال کی شامیں تھیں تو شام کی ٹھنڈک میں کمال کی بیل کیسے اُگتی؟ اتنا خون بہنے اور اتنی لوٹ مار کے بعد 12 مئی کو ایک ’بڑا دربار‘ منعقد کیا گیا۔ اس دربار کا احوال ہم ’تاریخ نادری‘ کے مرزا مہدی سے سنتے ہیں۔

’اس دربار میں شہنشاہ اور اس کے امرا کو مدعو کیا گیا تھا۔ اس دربار میں نادر شاہ نے اپنے ہاتھوں سے محمد شاہ کے سر پر ہندوستان کا تاج رکھا اور جواہرات سے جڑی ایک تلوار اور بیش قیمت طلائی کمربند عطا کیا۔ شہنشاہ کے امرا کو بھی خلعت فاخرہ پیش کی گئیں۔ شہنشاہ ہند نے اپنی تاجوری کی بحالی پر اظہار تشکر کے طور پر دریائے سندھ کے مغربی کنارے کا تمام علاقہ نادر شاہ کی عملداری میں دینے کی پیشکش کی۔ یہ علاقہ تبت اور کشمیر کی سرحدوں سے لے کر دریائے سندھ کے بحیرہ عرب میں اترنے تک پھیلا ہوا تھا۔ اس میں ٹھٹہ کے اضلاع، بندرگاہیں اور قلعے بھی شامل تھے۔‘

محمد شاہ رنگیلا
محمد شاہ رنگیلا

نادر شاہ اور محمد شاہ رنگیلا
نادر شاہ اور محمد شاہ رنگیلا

گلیوں میں بہائے گئے خون کا خوف محمد شاہ کے رگوں میں بہتا تھا۔ اسے لوگوں کی بے وقت موت کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ خوف تھا تو اپنے تخت و تاج کا۔ تیموری خون میں وہ ابال جس کی وجہ سے وہ ہندوستان پر حکومت کرسکے تھے، سرخ ریشمی رنگوں میں کہیں کھو گیا تھا۔ ان لوگوں کے خون پر کھڑے جب افشار نے اس کے سر پر تاج رکھا تو محمد شاہ رنگیلا نے اسے بڑا اعزاز سمجھا۔ مگر وقت کے قلم نے جو کیفیتیں تحریر کیں وہ شرمندگی، بیوقوفی اور ذلت کے سوا کچھ نہیں۔

16 مئی 1739ء کو بالاخر کوچ کا اعلان ہوا۔ نادر شاہ عراقی گھوڑے پر بیٹھ کر دہلی کی گلیوں سے ہوتا ہوا کابلی دروازے سے نکلا۔ واپسی کا یہ منظر ’آشوب‘ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اب ہمیں سنا رہے ہیں۔ وہ آگے تحریر کرتے ہیں کہ ’نادر نے سر پر ایک سرخ رنگ کی ٹوپی پہن رکھی تھی جس پر قیمتی موتی جڑا تھا۔ ٹوپی کے گرد سفید کشمیری شال لپٹی تھی۔ وہ کڑیل جوان، تنومند اور سیدھی کمر کے ساتھ بیٹھا نظر آ رہا تھا۔ اس کی داڑھی اور موچھوں کو خضاب سے کالا کیا گیا تھا‘۔

نادر شاہ افشار
نادر شاہ افشار

نادر جب چناب اور جہلم سے ہوتا پشاور پہنچا اور درہ خیبر کے راستے 2 دسمبر کو کابل پہنچا تو سندھ کے گورنر میاں نور محمد کو حکم بھیجا کہ وہ اس سے کابل میں آکر ملے۔ مگر کلہوڑا حاکم نے اس کے حکم کی تعمیل نہ کی۔ جس کے بعد شدید سردی میں 50 برس کا نادر 9 دسمبر کو سندھ کے لیے نکل پڑا۔ نادر کو سندھ پہنچتے پہنچتے 2 سے 3 ماہ تو ضرور لگ جائیں گے۔ ہم تب تک کلہوڑا حاکموں کے زمانے میں چل پڑتے ہیں کہ ان دنوں میں یہاں کے سیاسی حالات کیسے تھے۔

کلہوڑا خاندان کی حکومت کی بنیاد ہمیں 1657ء میں پڑتی نظر آتی ہے جب میاں نصیر محمد بن الیاس گدی نشین ہوا۔ میاں کی وفات کے بعد اس کا بڑا بیٹا میاں دین محمد مسند پر بیٹھا جسے اورنگزیب کے پوتے میاں معزالدین نے ملتان میں قتل کردیا۔ اسی زمانے میں اورنگزیب کے آشیرباد سے اس کے بھائی ’یار محمد‘ کو بکھر اور سہیون کی زمینداری کی سند اور ’خدا یار خان‘ کا لقب ملا۔ مرکزی حکومت نے تخت نشینی کے لیے جو شرائط رکھی تھیں ان میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ ’ایران کی خبریں وہ دہلی سرکار کو پہنچاتا رہے گا‘۔

تاریخ کے اوراق ہمیں بتاتے ہیں کہ قندھار مغلوں اور ایرانیوں کے درمیاں مسلسل تنازع کا سبب رہا۔ بابر نے اسے فتح کیا تھا، جب ہمایوں اپنی کھوئی ہوئی حکومت واپس لینے کے لیے سندھ سے ہوتا ہوا مدد لینے کے لیے ایران گیا تھا، تو اسے یہ شرط قبول کرنی پڑی تھی کہ ’قندھار ایران کے حوالے کیا جائے گا‘۔ اکبر نے قندھار پر قبضہ کیا مگر جہانگیر کے زمانے میں یہ پھر مغلوں کے ہاتھوں سے پھسل گیا۔ شاہ جہاں نے اپنی حکومت میں 3 بار قندھار کو حاصل کرنے کی کوشش کی مگر وقت کی بچھی ہوئی بساط پر وہ کامیابی کی کوئی چال نہ چل سکا۔

1694ء میں ’شاہ حسین صفوی‘ ایران کا بادشاہ بنا۔ ایران کے صفوی خاندان کا زوال ان کی پالیسیوں کی وجہ سے ہوا۔ شاہی خاندان کے مرد حرم کی چار دیواری میں محبوس، امورِ سلطنت اور سیاسی بصیرت سے دُور، انہیں نہ امن کے معاملات کا علم ہوتا اور نہ جنگ کے امور سے آگاہی۔ 1720ء میں ترکی کا ایک نمائندہ ’دوری آفندی‘ تہران آیا، 3 ماہ کے بعد جب وہ ترکی لوٹا تو اس نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ سرسبز اور خوشحال ایران اب تیزی سے اپنے انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔

نادر شاہ
نادر شاہ

انہی زمانوں میں ایران کا ساحل اور کرمان کا علاقہ بلوچ حملہ آوروں کی زد میں تھا۔ 1721ء کے اواخر میں قندھار کے ’ملک محمد غلزئی‘ ہمیں ایران پر حملہ کرتے نظر آتے ہیں، اور پھر ایران کے سیاسی منظرنامے میں نادر شاہ نظر آتا ہے۔ جس کے متعلق ’لاک ہارٹ‘ کے الفاظ ہیں کہ ’اگرچہ نادر شاہ کے مظالم اور تباہ کاریوں کو نظر انداز کرنا اور ان کا کوئی جواز پیش کرنا مشکل ہے، لیکن اس کے باوجود یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہ ایک عظیم آدمی تھا۔ اس کا ایک گڈریے سے بادشاہ بن جانا بلاشبہ ایک حیرت انگیز کامیابی تھی۔ لیکن نادر شاہ کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ، اس نے ایران کو طاقتور دشمنوں سے آزاد کروایا‘۔

میاں یار محمد کے خطوط سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دہلی سرکار نے اسے خبریں پہنچانے کی جو ذمہ داری دے رکھی تھی اس کو وہ اچھی طرح سے پورا کر رہا تھا۔ اس کے آخری وقت میں صوفی شاہ عنایت کی شہادت کا المیہ ہوا اور 1719ء میں میاں صاحب کی وفات کے بعد 13 نومبر 1719ء کو تخت پر اس کا بڑا بیٹا ’میاں نور محمد‘ بیٹھا، اور مرکز کو یقین دلایا کہ وہ ایرانی سرحدوں پر نگاہ رکھے گا اور ان کے متعلق خبریں ان کو بھیجتا رہے گا۔

محمد شاہ رنگیلا
محمد شاہ رنگیلا

یہ وہ عرصہ تھا کہ جب محمد شاہ (رنگیلا) کو تخت پر بیٹھے 2 ماہ ہی گزرے تھے۔ اگر کسی کی نظر سے ’درگاہ قلی خان‘ کی تحریر کی گئی کتاب ’مرقع دہلی‘ گزری ہے تو اسے ضرور پتہ ہوگا کہ ان دنوں دہلی کے نکڑوں اور بازاروں میں کیسے کیسے رنگ بہتے تھے، جبکہ یہاں کلہوڑوں کی آپس میں جنگیں ہو رہی تھیں اور ساتھ میں بروہیوں سے بھی جنگیں جاری تھیں اور جب ان جنگوں میں جیت میاں نور محمد کی ہوئی تو وہ سندھ کے ایک مضبوط اور طاقتور حکمران کی حیثیت سے مانے گئے اور ان دنوں میں سندھ کا دارالخلافہ خدا آباد تھا جہاں کے باغات بڑے مشہور تھے۔ ننگر ٹھٹہ میں مغل دربار کا آخری نواب صادق علی خان تھا جس نے مرکز کی ہدایت کے مطابق 1737ء میں یہ علاقہ میاں نور محمد کے حوالے کردیا۔

کابل سے سندھ کی طرف کا سفر انتہائی سخت تھا۔ خواجہ عبدالکریم منشی لکھتے ہیں ’اس سخت سرد موسم میں ہمیں 22 بار مختلف پانی کے بہاؤں سے گزرنا پڑا۔ بالآخر یکم شوال 1152ھ (یکم جنوری 1740ء) جمعہ کے دن فوج کرم کی سنگلاخ اور دشوار ترین گھاٹیوں سے نکل آئی اور فوجوں نے خدا کا شکر ادا کیا۔ راستے میں جن جن قبائل نے مقابلہ کیا وہ مارے گئے۔ ایک قبیلے میں ایک ہزار لوگ تھے اور مقابلے کے بعد ان میں سے فقط 2 آدمی بچے۔ ہمیں سب سے زیادہ پریشان ان جنگلوں نے کیا جو سندھ کی سرحدوں پر تھے۔ جن میں ہم کئی بار راستہ بھی بھولے، ان گھنے جنگلوں کے آگے مازندان اور طبرستان کے جنگل کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ ہمارا لشکر 5 جنوری کو ڈیرہ اسماعیل خان پہنچا۔ یہیں پر داؤد پوتہ قبیلے کا سردار صادق خان اطاعت کے لیے حاضر ہوا۔ اس نے خدا یار خان (میاں نور محمد) کے خلاف نادر کی مدد کا وعدہ کیا۔ 15 جنوری کو ڈیرہ غازی خان پہنچ کر، نادر نے میاں نور محمد کو پھر حاضر ہونے کے لیے طلب کیا مگر کلہوڑا سردار سے کوئی جواب نہیں ملا‘۔

جامع مسجد خدا آباد
جامع مسجد خدا آباد

میاں نور محمد کو جب یہ یقین ہوگیا کہ نادر آن پہنچا ہے تو نادر کا مقابلہ کرنے کے بجائے، خدا آباد کو چھوڑ کر اپنا خاندان اور مال و متاع لے کر عمرکوٹ کی طرف سفر اختیار کیا۔ میاں کے ذہن میں اگر یہ تھا کہ نادر اتنا دُور ان ریگزاروں میں نہیں آئے گا، تو وہ یقیناً غلط سوچ بیٹھا تھا۔ کیونکہ جو سردی کے سخت موسم میں کابل سے یہاں آسکتا تھا اس کے آگے یہ سفر کچھ زیادہ سخت یا طویل نہیں تھا۔

میاں صاحب جب خدا آباد سے عمر کوٹ کے لیے نکلے تو حکم جاری کیا کہ وہ سامان جو نادر کی مدد کرسکے وہ جلادیا جائے یا ایسے مقامات پر زمین میں دبا دیا جائے جہاں ایرانی لشکر کی نظر نہ پڑے۔ مگر یہ حکم جتنا سخت نظر آتا ہے، حقیقت میں بالکل اس کے بر عکس ہوا۔ خوراک جہاں جہاں چھپائی گئی تھی وہ ایرانی لشکر کے نظر میں آگئی۔ گندم اور جو کی بوائی ہوچکی تھی جو لشکر کے جانوروں کی اچھی خوراک ثابت ہوئی۔ اسی طرح حالات میاں صاحب کے لیے اچھے ثابت نہیں ہوئے۔

ایرانی لشکر 12 فروری کو لاڑکانہ پہنچا۔ یہاں نادر شاہ کو خبر ملی کہ خدا یار خان گجرات کی طرف فرار ہوگیا ہے۔ یہ بات سنتے ہی وہ لاڑکانہ سے نکل پڑا اور شہدادپور پہنچا جہاں نادر کو خدا یار خان کی طرف سے تحائف کے ساتھ پناہ کی درخواست بھی موصول ہوئی۔

حالات اور واقعات جو تحریر کی حالت میں ہم تک پہنچے ہیں ان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شہدادپور کے بعد ایک تو زمینی حالات نادر کے حق میں نہیں تھے، سردیاں ختم ہو رہی تھیں، ریگستانی علاقہ تھا، ایران کے دوسرے محاذ بھی کھلے تھے اور پانی کے راستے یعنی دریائے سندھ کے راستے بھی بڑی تعداد میں مدد ملنی مشکل تھی۔ نادر شاہ نے یہ سارے پہلو ضرور نظر میں رکھے ہوں گے، مگر ’انا‘ تو انا ہی ہے جس کا وجود ایک پیاسے ریگستان کی طرح ہر وقت سوکھا رہتا ہے۔ اس کی تشنگی کبھی کم نہیں ہوتی اور انسان مجبور ہوتا ہے کہ انا کے اس ریگزار کو ہرا رکھے۔ اس کے لیے وہ ساری پریشانیاں اور ذلتیں اٹھا سکتا ہے۔ اگر انا کے یہ ریگزار نہ ہوتے تو نہ جنگوں کے میدان سجتے، نہ خون بہتا، نہ کوئی حاکم ہوتا اور نہ کوئی محکوم۔ مگر نہ ایسا ہے اور نہ ہوگا کہ جس مٹی سے انسان کا وجود گندھا ہے اس میں ان عناصر کو ساتھ میں گوندھا گیا ہے۔

12 فروری کو نادر شہدادپور سے نکلا اور تیزی سے عمرکوٹ کی طرف روانہ ہوا۔ وہ عمرکوٹ جہاں شہنشاہ اکبر کی ولادت ہوئی تھی۔ اس نے 90 میل یعنی 150 کلومیٹر کا فاصلہ اس تیزی سے طے کیا کہ اگلے روز وہ عمرکوٹ پہنچ چکا تھا۔ خواجہ عبدالکریم منشی لکھتے ہیں کہ ’میاں صاحب نے اپنا قیمتی سامان کشتیوں میں بھردیا تھا اور خود بھی کشتی پر سوار ہوکر کسی اور جزیرے پر جانے کی تیاری میں تھا تب تک نادر شاہ پہنچ گیا۔ اس زمانے میں دریائے سندھ کے عمرکوٹ والے بہاؤ میں کشتیاں چلتی تھیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ میاں نے اپنے اہل و عیال کو مارواڑ کی طرف بھیج دیا ہو اور خود بعد میں مال و متاع کشتیوں کے وسیلے بھیج رہا ہو۔ تب تک نادر آن پہنچا‘۔

عمر کوٹ کا قلعہ
عمر کوٹ کا قلعہ

عمر کوٹ کا قلعہ
عمر کوٹ کا قلعہ

میاں صاحب نے پیش ہونے کے لیے شرط رکھی کہ ’اس کو اور اس کے خاندان کو کوئی گزند نہیں پہنچائی جائے گی‘۔

عبدالکریم منشی لکھتے ہیں کہ ’یہ شرط نادر نے فوری طور پر مان لی کیونکہ اب وہ مہم جوئی میں وقفہ چاہتا تھا۔ اس کے سپاہی پانی اور خوراک کی وجہ سے نڈھال ہو رہے تھے‘۔

جب میاں نور محمد، نادر شاہ کے سامنے پیش ہوا تو دونوں میں جو گفتگو ہوئی وہ مختلف مسودوں میں مختلف طریقوں سے تحریر کی گئی ہے۔ اگر تحریر کرنے والا میاں نور محمد کا نمک کھانے والا ہے تو گفتگو کا پلڑا یقیناً میاں کی طرف جھکے گا، اگر نادر کا نمک خوار ہے تو پلڑا اس کی طرف جھکے گا۔ بہرحال اس گفتگو کا لبِ لباب کچھ اس طرح بنتا ہے:

’بھاگے کیوں تھے؟‘ نادر کا سوال

میاں کا جواب: ’ہم آباؤ اجداد سے ہندوستان کے حاکموں کو خراج دیتے آئے ہیں، اس کیفیت میں اگر مَیں اگر آپ سے ہاتھ ملا لیتا تو آپ کو یقیناً مجھ پر اعتماد نہ رہتا‘۔

اگر تھوڑا غور سے دیکھا جائے تو حاکم اور محکوم کی گفتگو کیا ہوگی؟ جس حاکم کو سندھ کے حاکم خراج دیتے تھے، اس نے سب کچھ نادر شاہ کی جھولی میں ڈال دیا تھا اور دہلی کے بازاروں میں جو دونوں اطراف سے خون بہا تھا ان کو بھی کوئی برس تو نہیں بیتے تھے۔ وہ خبریں بھی میاں تک پہنچی ہوں گی۔ ایران، افغانستان، لاہور، ملتان اور دہلی تک نادر کا پھریرا جھولتا تھا۔ تو بچارے میر صاحبان کے پاس بچا کیا تھا جو کچھ کرتے۔ بس وقت کی بچھی شطرنج کی بساط تھی اور دوسرے حاکموں کی طرح یہ بھی آنکھیں جھکائے بیٹھے تھے۔ نادر شاہ افشار دونوں طرف سے مہرے کھیلنے کی حالت میں تھا۔ یہ فقط بند زبان اور خاموش آنکھوں سے دیکھ سکتے تھے۔ سوال کرنے کے لیے جو زبان چاہیے ہوتی ہے وہ نادر کے خوف نے ان سب سے چھین لی تھی۔

جب اس گفتگو کے بعد خدا یار خان نے مجبور ہوکر پوشیدہ خزانے نادر کو پیش کیے تو ان میں بہت سی قیمتی اشیا ایسی تھیں جن کا تعلق صفوی خاندان سے تھا۔

خدا یار خان نے بتایا کہ جب غلزئی افغانوں کو نادر کے ہاتھوں شکست ہوئی تو انہوں نے لوٹا ہوا ایرانی شاہی خزانہ مختلف علاقوں میں بھجوا دیا۔ سندھ کی طرف بھیجا جانے والا کچھ سامان مفرور غلزیوں سے خرید لیا۔ کلہوڑا خاندان کا خزانہ جو میاں نور محمد نے نادر کو دیا اس کی مالیت ایک کروڑ سے زائد بتائی جاتی ہے۔ ساتھ میں سالانہ 20 لاکھ خراج مقرر کیا گیا اور میاں کے بیٹوں میں سے کسی ایک بیٹے کی قیادت میں 2 ہزار گھڑ سواروں کی جمعیت فراہم کرنا طے پائی۔ میر نور محمد خان کو ’شاہ قلی خان‘ کا لقب تو ضرور ملا، مگر اس کی طاقت کو توڑنے کے لیے سندھ کے 3 حصے کردیے گئے:

سبی اور کاچھو: محبت خان بروہی جو خان آف قلات کو ملا۔

شکارپور: صادق محمد خان داؤد پوتہ کو ملا۔

باقی سندھ کا بادشاہ میاں ہی تھا۔ اس کارروائی کے بعد نادر شاہ لاڑکانہ پہنچا۔ مرزا مہدی تحریر کرتے ہیں کہ ’نادر لاڑکانہ ہی میں تھے، تب اسے دہلی سے شہنشاہ کی طرف سے ایک سفارت ملی، سفارت میں ایک خط اور قیمتی تحائف موصول ہوئے۔ نادر نے جواب میں شہنشاہ کو کچھ عمدہ نسل کے گھوڑے اور 2 سو اونٹوں پر بلخ کے لذیذ خربوزے روانہ کیے‘۔

مرزا مہدی جو ’تاریخ نادری‘ کا مصنف ہے اس کو یہ اندر سے کچھ اچھا نہیں لگا یا عجیب لگا۔ اس لیے پہلے تو اس نے نادر شاہ کو جو خربوزوں سے رُغبت تھی اس کے بارے میں کئی جملے لکھے اور آخر میں لکھا کہ ’ہندوستان سے ملنے والے بیش قیمت خزانوں اور تخت طاؤس کے جواب میں نادر شاہ کا یہ حقیر تحفہ واقعی مغل بادشاہ کے شایان شان تھا‘۔

میاں نور محمد کلہوڑو کا تعارف اس تحریر میں یقیناً نامکمل ہے۔ کیونکہ وہ ایک بادشاہ اور مصنف کے ساتھ سندھ کے آب پاشی نظام کو بہتر بنانے والا اور 500 کے قریب نہریں کھدوانے والا امیر بھی تھا۔ اس کے کتب خانے سے بہت ساری نایاب کتابیں بھی نادر شاہ اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ جس کا دکھ میاں صاحب کو تھا اور اس سے بڑا دکھ یہ بھی تھا کہ اس کے 3 بیٹے محمد مرادیاب خان، غلام شاہ اور عطر خان 1747ء تک نادر شاہ کے پاس ایران میں تھے۔

نور محمد خان کلہوڑو کا مقبرہ
نور محمد خان کلہوڑو کا مقبرہ

یہ وہ سال ہے جب جون کے گرم شب و روز میں کوچان ایران میں، نادر شاہ کو قتل کردیا گیا تھا۔ 19 جون کی شام خابوشان سے دو فرسخ (ایک فرسخ تین میل) کے فاصلہ پر فتح آباد کے اونچے مقام پر نادر نے پڑاؤ ڈالا۔ نادر کو اپنی موت کا شاید پکا یقین ہوگیا تھا اس لیے مشہد سے اس طرف نکلنے سے پہلے اس نے اپنے بیٹوں اور پوتے کو تحفظ کی خاطر قلات روانا کردیا تھا۔ اسی رات محمد قلی خان اور صالح خان کے حملے میں نادر بڑی بے دردی سے قتل کردیا گیا۔

نادر شاہ کا مقبرہ —تصویر بشکریہ ایران ٹؤرزم سینٹر
نادر شاہ کا مقبرہ —تصویر بشکریہ ایران ٹؤرزم سینٹر

نادر کے اپنے بھتیجے نے اس سے بغاوت کردی تھی۔ مسلسل تھکان اور ذہنی مشقت کے ساتھ جسمانی ضعف نے اسے بیمار کردیا تھا۔ اس کی بولہوسی وقت کے ساتھ بڑھتی گئی۔ دولت سمیٹنے کی حوس میں اس نے ظلم اور بربریت کی انتہا کردی۔ آخری وقت میں وہ تقریباً اپنے حواس کھو بیٹھا۔ اسے ہر فرد سے لگتا تھا کہ وہ اسے قتل کردے گا اور اسے ایسا لگنا بھی چاہیے تھا کیونکہ ہزاروں بے گناہ انسانوں کا بہایا ہوا خون ذہن سے سکون چھین لیتا ہے۔ تلوار سے کٹتے گلے، بجھتی آنکھیں اور ٹھنڈا پڑتا جسم یہ سارے ایسے مناظر ہیں جو آپ کے دل و دماغ سے سکون اور خوشی کے گلابوں کی فصل کو تیزی سے بے رنگ اور خشک کردیتے ہیں۔ پھر ان گلابوں کی کانٹے دار جھاڑیاں رہ جاتی ہیں جو آپ کو سکون سے جینے نہیں دیتیں۔ نادر کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔


حوالہ جات

۔ ’نادر شاہ‘ ۔ ایل لاک ھارٹ ۔ ترجمہ: طاہر منصور فاروقی۔ تخلیقات لاہور

۔ ’بیان واقع‘ ۔ منشی عبدالکریم کشمیری ۔تصحیح: ڈاکٹر کے۔بی نسیم۔ دانشگاہ پنجاب، لاہور

۔ ’انسائیکلوپیڈیا تاریخ عالم‘، جلد اول۔ ولیم ایل لینگر۔ ترجمہ: مولانا غلام رسول مہر۔ الوقار پبلیکیشنز، لاہور

۔ ’منشور الوصیت ائیں دستورالحکومت‘ ۔ میاں نور محمد خدا یار خان۔ سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد

۔ ’تاریخ سندھ: کلہوڑا دور، جلد اول۔ غلام الرسول مہر، سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد

۔ ’تاریخ کے مسافر‘۔ ابوبکر شیخ ۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور

۔ ’مرقع دہلی‘۔ درگاہ قُلی خان۔ مترجم: خلیق انجم ۔انجمن ترقی اردو (ہند) دہلی

۔ ’تاریخ افغانستان‘۔ محمد اسماعیل ریحان۔ جلد اول۔ المنھل پبلشرز، کراچی۔


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔