پائلٹس کے مشکوک لائسنس: یورپ جانے والی 'پی آئی اے' کی پروازوں پر پابندی برقرار

اپ ڈیٹ 04 دسمبر 2020
مراسلے میں پی آئی اے پر یورپ میں پابندی برقرار رکھنے کے فیصلے سے آگاہ کیا گیا — فائل فوٹو: رائٹرز
مراسلے میں پی آئی اے پر یورپ میں پابندی برقرار رکھنے کے فیصلے سے آگاہ کیا گیا — فائل فوٹو: رائٹرز

یورپین کمیشن نے پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کو آگاہ کیا ہے کہ پائلٹس کے مشکوک لائسنس اور جعلی ڈگریوں کے معاملے میں پاکستانی طیاروں کی برطانیہ اور یورپ جانے والی پروازوں پر پابندی برقرار رہے گی۔

یورپی کمیشن ڈائریکٹوریٹ جنرل فار موبیلٹی اینڈ ٹرانسپورٹ نے ڈائریکٹر جنرل سی اے اے کو بذریعہ مراسلہ فیصلے سے آگاہ کیا۔

مزید پڑھیں: پائلٹس کے مشکوک لائسنس: سول ایوی ایشن کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع

مراسلے میں پی آئی اے پر یورپ میں پابندی برقرار رکھنے کے فیصلے سے آگاہ کیا گیا۔

مراسلے کے مطابق فیصلہ یورپی کمیشن کے 17 اور 18 نومبر کو برسلز میں ہونے والے اجلاس میں کیا گیا اور ساتھ ہی ڈی جی سول ایوی ایشن اتھارٹی کو لکھے گئے مراسلے میں ایک مرتبہ پھر پائلٹس کو لائسنس اجرا پر نظرثانی کی ہدایت کی گئی۔

علاوہ ازیں مراسلے میں یورپی کمیشن نے کہا کہ پاکستان کی سی اے اے مشکوک لائسنس سے متعلق شفاف طریقے سے کارروائی کر رہی ہے اور اقدامات قابل ستائش ہیں۔

مراسلے میں کہا گیا کہ یورپی کمیشن، پاکستان میں حکام سے مسلسل رابطے میں ہے اور صورتحال کا جائزہ لے رہا ہے۔

یورپی کمیشن نے سی اے اے کو لائسنس کی تصدیق کے طریقہ کار اور سیفٹی مینجمنٹ سسٹم کو موثر بنانے پر زور دیا۔

یہ بھی پڑھیں: ملائیشیا نے سی اے اے سے لائسنس کی تصدیق کے منتظر پاکستانی پائلٹس کو معطل کردیا

مراسلے میں کہا گیا کہ پاکستان کی سی اے اے تحفظات کو دور کر نے کے لیے اقدامات کر رہی ہے، تاہم اس میں مزید بہتری کی ضرورت ہے۔

مراسلے میں کہا گیا کہ یورپی کمیشن مستقبل میں بھی پاکستان کی سی اے اے کو سیفٹی کے مسائل کو حل کر نے کے لیے مدد کرتا رہے گا۔

خیال رہے کہ پائلٹس کے مشکوک یا جعلی لائسنسز کے معاملے کا آغاز 24 جون کو ہوا جب قومی اسمبلی میں کراچی مسافر طیارہ حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے کہا تھا کہ 860 پائلٹس میں سے 262 ایسے پائے گئے جن کی جگہ کسی اور نے امتحان دیا تھا۔

اس کے بعد پاکستان نے 26 جون کو امتحان میں مبینہ طور پر جعل سازی پر پائلٹس کے لائسنسز کو 'مشکوک' قرار دیتے ہوئے انہیں گراؤنڈ کردیا تھا۔

غلام سرور خان نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ 'جن پائلٹس پر سوالات اٹھائے گئے ہیں وہ 262 ہیں، پی آئی اے میں 141، ایئربلیو کے 9، 10 سرین، سابق شاہین کے 17 اور دیگر 85 ہیں'۔

مزید پڑھیں: پائلٹس کے لائسنس جعلی یا مشکوک؟ اصل معاملہ آخر ہے کیا؟

اس کے بعد پی آئی اے کی انتظامیہ نے اپنے 150 پائلٹس کو گراؤنڈ کرنے (کام کرنے سے روکنے) کا فیصلہ کیا تھا۔

یورپی یونین اور برطانیہ نے فوری طور پر پابندی کا اعلان کیا تھا جس کے بعد اقوام متحدہ اور دیگر ممالک کی جانب سے بھی احکامات جاری کیے گئے تھے۔

یکم جولائی کو برطانیہ کی سول ایوی ایشن اتھارٹی نے اپنے 3 ایئرپورٹس سے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی پروازوں پر پابندی لگانے کا اعلان کیا تھا جبکہ متحدہ عرب امارت نے بھی سول ایوی ایشن اتھارٹی سے مختلف فضائی کمپنیوں میں کام کرنے والے پاکستانی پائلٹس اور انجینئرز کے کوائف کی تصدیق کی درخواست کی تھی۔

بعد ازاں ملائیشیا سمیت متعدد ممالک کی سول ایوی ایشن اتھارٹی نے پاکستانی لائسنس رکھنے اور مقامی ایئر لائنز میں ملازمت کرنے والے تمام پائلٹس کے لائسنس مستند ہونے کی تصدیق کے بعد اپنی پروازیں بحال کردی تھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں