احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کورونا وائرس سے انتقال کر گئے

اپ ڈیٹ 04 دسمبر 2020
ارشد ملک گزشتہ 2 روز سے وینٹیلیٹر پر زیر علاج تھے—فائل فوٹو: ڈان نیوز
ارشد ملک گزشتہ 2 روز سے وینٹیلیٹر پر زیر علاج تھے—فائل فوٹو: ڈان نیوز

سابق وزیراعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں سزا سنانے والے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کورونا وائرس کے باعث انتقال کر گئے۔

ارشد ملک کے بہنوئی وحید جاوید نے ان کی وفات کی تصدیق کی، سابق جج گزشتہ 25 روز سے اسلام آباد کے نجی ہسپتال 'شفا ہسپتال' میں زیر علاج تھے۔

ارشد ملک کی حالت گزشتہ 2 روز سے انتہائی تشویشناک تھی اور وہ وینٹی لیٹر پر موجود تھے، ارشد ملک کی نماز جنازہ مندرہ میں ادا کی جائے گی جبکہ تدفین بھی مندرہ کے گاؤں میں ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: سابق وزیراعظم نواز شریف کو سزا سنانے والے جج ارشد ملک ملازمت سے برطرف

سابق جج کے سوگواران میں 2 بیٹے اور 2 بیٹیاں شامل ہیں۔

خیال رہے کہ جج ارشد ملک نے 4 دسمبر 2018 کو العزیزیہ اسٹیل ملز کرپشن ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو 7 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی جبکہ فلیگ شپ انویسٹمنٹس سے متعلق دوسرے ریفرنس میں بری کردیا تھا۔

تاہم 6 جولائی 2019 کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز پریس کانفرنس کے دوران العزیزیہ اسٹیل ملز کیس کا فیصلہ سنانے والے جج ارشد ملک کی مبینہ خفیہ ویڈیو سامنے لائی تھیں۔

مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر نے جو ویڈیو چلائی تھی اس میں مبینہ طور پر جج ارشد ملک، مسلم لیگ (ن) کے کارکن ناصر بٹ سے ملاقات کے دوران نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنس سے متعلق گفتگو کر رہے تھے۔

مزید پڑھیں: ’جج ویڈیو کیس میں ارشد ملک کیخلاف کارروائی کیوں نہیں کی؟‘

مریم نواز نے بتایا تھا کہ ویڈیو میں نظر آنے والے جج نے فیصلے سے متعلق ناصر بٹ کو بتایا تھا کہ 'نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، فیصلے کے بعد سے میرا ضمیر ملامت کرتا رہا اور رات کو ڈراؤنے خواب آتے ہیں، لہٰذا نواز شریف تک یہ بات پہنچائی جائے کہ ان کے کیس میں جھول ہوا ہے‘۔

ویڈیو میں ارشد ملک کو اعتراف کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ سابق وزیراعظم نواز کو العزیزیہ ریفرنس میں 'دباؤ اور بلیک میل' ہوکر سزا سنائی اور نواز شریف کے خلاف کوئی ثبوت نہیں۔

تاہم ویڈیو سامنے آنے کے بعد احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے خود پر لگنے والے الزامات کا جواب دیا تھا اور ایک پریس ریلیز جاری کی تھی۔

جج ارشد ملک نے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کی جانب سے پریس کانفرنس کے دوران دکھائی جانے والی ویڈیو کو مفروضوں پر مبنی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس ویڈیو سے میری اور میرے خاندان کی ساکھ کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی۔

بعد ازاں 12 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا اور خط لکھا تھا، جس پر وزارت قانون نے احتساب عدالت نمبر 2 کے جج کو مزید کام کرنے سے روک دیا تھا اور لا ڈویژن کو رپورٹ کرنے کا کہا تھا۔

اسی روز جج ارشد ملک کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک خط اور بیان حلفی جمع کروایا گیا تھا، جس میں ویڈیو میں لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: وزارت قانون نے جج ارشد ملک کو کام کرنے سے روک دیا

دوسری جانب چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے انہیں سیشن کورٹ لاہور میں آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی (او ایس ڈی) تعینات کرتے ہوئے معاملے کی انکوائری کا حکم دیا تھا۔

مذکورہ معاملے کی انکوائری کے لیے جسٹس سردار احمد نعیم کو انکوائری جج مقرر کیا گیا تھا، جنہوں نے تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ انتظامی کمیٹی کو پیش کی تاہم ارشد ملک نے کمیٹی کے سامنے پیش ہوکر اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو من گھڑت اور جھوٹا قرار دیتے ہوئے انہیں تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔

جج ارشد ملک نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نمائندوں کی جانب سے انہیں العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز میں نواز شریف کے حق میں فیصلہ دینے پر مجبور کرنے کے لیے رشوت کی پیشکش اور سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی اور بعد ازاں عہدے سے استعفیٰ دینے پر بھی مجبور کیا گیا۔

تاہم رواں برس 3 جولائی کو لاہور ہائی کورٹ کی انتظامی کمیٹی نے جج ارشد ملک کو ان کے عہدے سے برطرف کردیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں