استعفوں سے متعلق حتمی فیصلہ آئندہ ہفتے ہوگا، پی ڈی ایم

05 دسمبر 2020
پی ڈی ایم 8 دسمبر کو اسمبلیوں سے استعفوں اور لانگ مارچ کے بارے میں اپنی حکمت عملی تیار کرے گی، مریم اورنگزیب - فائل فوٹو:ٹوئٹر
پی ڈی ایم 8 دسمبر کو اسمبلیوں سے استعفوں اور لانگ مارچ کے بارے میں اپنی حکمت عملی تیار کرے گی، مریم اورنگزیب - فائل فوٹو:ٹوئٹر

لاہور: اپوزیشن کے 11 جماعتی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا کہنا ہے کہ 8 دسمبر کو وفاقی دارالحکومت میں ہونے والے اجلاس میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے معاملے پر فیصلہ کیا جائے گا اور لانگ مارچ کو حتمی شکل دی جائے گی جبکہ اس اجلاس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف بھی ویڈیو لنک کے ذریعے لندن سے شرکت کریں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی سیکریٹری اطلاعات مریم اورنگزیب نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ 'پی ڈی ایم 8 دسمبر کو اسمبلیوں سے استعفوں اور سلیکٹڈ حکومت کے خاتمے کے لیے (اسلام آباد کی جانب) لانگ مارچ کے بارے میں اپنی حکمت عملی تیار کرے گی'۔

اس سوال کے جواب میں کہ کیا مریم نواز نے پی ڈی ایم کے لاہور میں 13 دسمبر کو ہونے والے جلسے میں اسمبلیوں سے استعفوں کی تاریخ کے اعلان پر اصرار کیا ہے، انہوں نے کہا کہ 'تمام 11 جماعتوں میں اتفاق رائے پیدا ہونے کے بعد پی ڈی ایم پلیٹ فارم پر اس طرح کا کوئی فیصلہ لیا جائے گا'۔

مزید پڑھیں: ملتان میں پی ڈی ایم کا پاور شو، گھنٹہ گھر چوک جلسہ گاہ میں تبدیل

جمعرات کو ماڈل ٹاؤن میں مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور نائب صدر مریم نواز کے درمیان ہونے والی ملاقات کے دوران دونوں امور (استعفے اور لانگ مارچ) زیربحث آئے۔

ذرائع کے مطابق مریم نواز نے استعفوں پر جارحانہ موقف اپنانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ لاہور کے جلسے کے بعد پی ڈی ایم کو فوری طور پر اس آپشن کو استعمال کرنا چاہیے۔

شہباز شریف جنہوں نے حال ہی میں اداروں کے درمیان ’قومی ڈائیلاگ‘ کی وکالت کی تھی، نے اس سلسلے میں کسی جلد بازی کے فیصلے کے خلاف مشورہ دیا۔

جمعہ کے روز لاہور کے شیراکوٹ میں ایک احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر ایاز صادق نے کہا تھا کہ اپوزیشن کو جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے اسمبلیوں کا حلف نہ اٹھانے کے مشورے پر عمل کرنا چاہیے تھا۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم نے پی ڈی ایم جلسوں کیلئے مزید اجازت نامے مسترد کردیے

اس وقت نواز شریف اور شہباز شریف دونوں نے اس مشورے پر کوئی کان نہیں دھرے تھے اور حزب اختلاف کی جدوجہد کو پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم پر شروع کرنے کو ترجیح دی تھی۔

مسلم لیگ (ن) میں ایک گروہ نے پی ٹی آئی کی حکومت کو آئندہ سال مارچ میں ہونے والے سینیٹ انتخابات کے انعقاد سے روکنے کے لیے پہلے ہی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کی بات کی تھی۔

مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما خواجہ آصف نے کہا تھا کہ 'جب (پی ڈی ایم کی یہ جدوجہد عروج پر پہنچ جائے گی تو ہمارے ایم این ایز قومی اسمبلی سے مستعفی ہوجائیں گے اور پھر ہم دیکھیں گے کہ سینیٹ انتخابات کیسے ہوتے ہیں'۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ڈی ایم حکومت مخالف مہم تیسرے مہینے میں داخل ہوچکی ہے تاہم نہ تو پیپلز پارٹی اور جے یو آئی-ایف اور نہ ہی اتحاد کے دیگر اہم جماعتوں نے اسمبلیوں سے استعفی دینے کا کوئی ارادہ ظاہر کیا ہے۔

دریں اثنا جماعت اسلامی نے یہ تاثر مسترد کردیا کہ وہ حکومت کے خلاف اپنی جدوجہد کے لیے پی ڈی ایم میں شامل ہوسکتی ہے۔

جماعت اسلامی کے ترجمان قیصر شریف نے ڈان کو بتایا کہ 'ہمارا ایسا کوئی منصوبہ نہیں، ہم نے تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا ہے جو در حقیقت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کا تسلسل ہے'۔

انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کی حکومت مخالف مہم کا دوسرا مرحلہ 25 دسمبر سے گوجرانوالہ میں ایک ریلی سے شروع ہوگا، 'ہم ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے ایک متبادل قیادت فراہم کرتے ہیں'۔

تبصرے (0) بند ہیں