استعفے دیے تو یہ بھول جائیں کہ ضمنی انتخابات ہوں گے، پی ڈی ایم رہنما

اپ ڈیٹ 07 دسمبر 2020
پی ڈی ایم رہنماؤں نے حکومت کے بیانات کو مسترد کردیا—فوٹو: ڈان نیوز
پی ڈی ایم رہنماؤں نے حکومت کے بیانات کو مسترد کردیا—فوٹو: ڈان نیوز

اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے رہنماؤں نے حکومت کی جانب سے اجازت نہ دینے کے باوجود بھی 13 دسمبر کو لاہور میں ہر قیمت پر جلسہ کرنے کا عزم دہرایا اور کہا کہ اگر قیادت نے استعفوں کا فیصلہ کیا تو ایسا ہی ہوگا اور پھر ضمنی انتخابات کا یہ بھول جائیں۔

لاہور میں جلسے کے حوالے سے پی ڈی ایم میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما قمر زمان کائرہ، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر رانا ثنااللہ اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما محمد سیف اللہ اور دیگر رہنماؤں نے پریس کانفرنس کی۔

مزید پڑھیں: جعلی حکومت کے دن گنے جا چکے، 13 دسمبر کو آر یا پار ہوگا، مریم نواز

پارلیمنٹ سے استعفوں کے حوالے سے ایک سوال پر رانا ثنااللہ نے کہا کہ 'استعفے جب ہوں گے تو اس کے بعد یہ بھول جائیں کہ پھر ضمنی انتخابات ہوں گے، استعفے دے کر ہم گھروں میں جا کر نہیں بیٹھنا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم اس مقصد کے لیے استعفے نہیں دیں گے کہ آپ وہاں بیٹھیں اور ملک کا بیڑا غرق کریں، جس طرح ڈھائی سال سے کرتے آرہے ہیں اور اس ملک اور قوم کو مزید ڈبو دیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'فیصلہ قیادت کو کرنا ہے اور جب قیادت فیصلہ کرے گی تو فیصلے ہوں گے اور اس سے فائدہ ہوگا'۔

قمرزمان کائرہ نے کہا کہ 'ہم جمہوریت کے حامی تھے، ہیں اور رہیں گے، ہم اس ملک سے فاشزم کا خاتمہ کر کے فعال جمہوریت جو لوگوں کے لیے بہتری کا باعث ہو، وہ قائم کرنا چاہتے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمارے مطالبات بہت سادہ ہیں، اس ملک کو آئین کے تحت چلایا جائے، سیاست کے اندر ادارہ جاتی مداخلت ختم کی جائے اور انتخابات میں مداخلت نہ کریں، جس کا جو مینڈیٹ ہے اس کو وہ دیا جائے، ان مطالبات سے پیچھے ہٹنا ہم سمجھتے ہیں کہ اسی وجہ سے آج تک نقصان ہوا ہے'۔

استعفوں پر انہوں نے کہا کہ ‘ہم ہر وہ عمل کریں گے جو ہم نے 26 نکات میں لکھا ہوا ہے، سارے آپشن موجود ہیں اورجب وقت آئے گا قیادت بیٹھ کر فیصلے کرے گی، انہوں نے فیصلہ کیا جلسے ہوں گے تو جلسے ہورہے ہیں، جب وہ سمجھیں گے کہ اب ہمیں استعفے دینے کا وقت ہے تو ہم استعفے دیں گے’۔

قمر زمان کائرہ نے کہا کہ 'حکومتی اتحاد اور اپوزیشن کا اسمبلی میں معمولی فرق ہے، اگر آدھی اسمبلی ختم ہوتی ہے تو ضمنی انتخابات کی صرف بڑھکیں ہیں، ایسا نہیں ہوسکتا ہے'۔

قمر زمان کائرہ نے کہا کہ 'حکومت نے اپوزیشن کو جلسے سے روکنے کے لیے اپنے حربے تبدیل کردیے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'وزیراعظم کو معلوم نہیں ہے کہ یہ چیزیں ریلی کو روک نہیں سکتیں، مارشل لا میں سخت اقدامات کیے جاتے تھے لیکن ریلیاں اور تحریکیں رکتی نہیں تھیں'۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام اس حکومت کی کارکردگی سے تنگ آگئے ہیں اور 'وقت آگیا ہے کہ انہیں گھر بھیج دیا جائے کیونکہ یہ حکومت فاشسٹ ہے'۔

پی پی رہنما کا کہنا تھا کہ 'سیاست میں لے دے ہوتی ہے لیکن اس حکومت اپنے دور میں کیچڑ اچھالنے کی روایت ڈالی ہے، جس کی مثال اس سے پہلے نہیں ملتی'۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم نے حالات کا جائزہ لیا اور لاہور میں ہونے والے جلسے کے انتظامات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔

قمر زمان کائرہ نے بتایا کہ 'پی ڈی ایم کی قیادت نے فیصلہ کیا ہے کہ 13 دسمبر کا جلسہ ضرور ہوگا'۔

مزید پڑھیں: حکومت لاہور کے جلسے سے خوف زدہ ہے، مریم نواز

اس موقع پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ اتحاد میں شامل جماعتوں کے سربراہان کا اجلاس کل ہوگا اور جلسے کا مقام کا دورہ کرکے انتظامات کا جائزہ لیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'لاکھوں کی تعداد میں شہری لاہور کے جلسے میں شریک ہوں گے اور اس کے لیے مکمل انتظامات کی ضرورت ہوتی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ انتظامی معاملات پر بات کرنے کی ذمہ داری وزیراعظم کے بجائے ڈپٹی کمشنر لاہور کی تھی لیکن 'عمران خان کہہ رہے ہیں کہ وہ کرسی، لائٹس اور اسٹیج لگانے کی اجازت نہیں دیں گے اور اسی سانس میں انہوں نے کہا کہ وہ ہمیں ریلی کرنے سے نہیں روکیں گے'۔

قبل ازیں وزیراعظم عمران خان نے نجی ٹی وی ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ حکومت کی جانب سے اپوزیشن کو جلسے کی اجازت نہیں دی جائے گی لیکن انہیں جلسے سے نہیں روکا جائے گا۔

وزیراعظم نے کہا تھا کہ اپوزیشن رہنماؤں اور کووڈ-19 کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے جاری کیے گئے ایس اوپیز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جلسے کے انتظامات کرنے والے تمام افراد کے خلاف مقدمات درج کیے جائیں گے۔

عمران خان نے کہا تھا کہ 'ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اپوزیشن کو جلسے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور کرسیاں اور ساؤنڈ سسٹم فراہم کرنے والوں کے خلاف ایف آئی آر درج ہوں گی'۔

دوسری جانب رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے ہمیں ملتان میں آزمایا لیکن ہم نے جلسہ کر دکھایا اور 'جب حکومت اس طرح کے حربے استعمال کرتی ہے تو لوگوں کی تعداد کوئی معنی نہیں رکھتی بلکہ ریلی کا انعقاد اہم ہوتا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ ملتان جلسے کے بعد حکومت اور اس کے نمائندوں کو سبکی کا سامنا ہے۔

رانا ثنااللہ نے کہا کہ 'جلسہ ہر صورت ہوگا، صوبے اور ملک بھر سے لوگ لاہور میں جمع ہوں گے اور موجودہ حکومت سے اپنی بے زاری کا اظہار کریں گے اور 70 برسوں سے جاری کھیل کے خاتمے کا مطالبہ کریں گے، ووٹ کو عزت دی جائے گی'۔

بعد ازاں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما محمد سیف اللہ نے کہا کہ ہماری جماعت کا شروع دن سے یہی مؤقف رہا ہے کہ حکومت عوام کی منتخبب کردہ نہیں ہے اور اس کو گھر جانا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: مسلح گروہ اور رضا کار میں فرق ہوتا ہے، فضل الرحمٰن کا وزارت داخلہ کے مراسلے پر ردعمل

ان کا کہنا تھا کہ '13 دسمبر کو پاکستان کے عوام حکومت کو دکھائیں گے کہ وہ حکمران کے طور پر مزید نہیں رہ سکتے اور انہیں مسترد کردیا گیا ہے'۔

وزیراعظم کی 'دھمکیوں' کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم کہنا چاہتے ہیں کہ جلسہ ہوگا اور مینار پاکستان میں ہوگا اور 'اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے'۔

وزارت داخلہ کی جانب سے صوبوں کو جاری خط کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وزارت داخلہ کی جانب سے دھمکیاں دینے کے بجائے وزیراعظم کو ایس ایچ او کی وردی پہننی چاہیے۔

خیال رہے کہ وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری خط میں صوبوں کو سیاسی جماعتوں کے 'اندر موجود ملیشیا کو فوری ختم کرنے کے لیے اقدامات کی ہدایت' کی گئی ہے۔

اس موقع پر رانا ثنااللہ نے کہا کہ جلسے کا مقام کسی قیمت پر تبدیل نہیں ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم کی قیادت فیصلہ کرچکی ہے کہ 500 کارکنوں کو سیکیورٹی اور ٹریفک انتظامات کی ذمہ داری سونپ دی جائے گی۔

مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر نے کہا کہ 'اب اگر ہم انہیں کوئی مخصوص وردی یا ٹوپی دے دیں تو کیا وہ ملیشیا کہلائے گی؟ یہ مضحکہ خیز بات ہے اور حکومت کی بےچینی کی علامت ہے کیونکہ ہماری تحریک پرامن ہے'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں