بھارت میں نئے زرعی قوانین پر ڈیڈلاک برقرار، کسانوں کے احتجاج میں شدت

اپ ڈیٹ 13 دسمبر 2020
اپوزیشن جماعتوں اور کچھ سینئر ماہر معیشت کی جانب سے مظاہرین کی حمایت کا اظہار کیا گیا ہے—تصویر: رائٹرز
اپوزیشن جماعتوں اور کچھ سینئر ماہر معیشت کی جانب سے مظاہرین کی حمایت کا اظہار کیا گیا ہے—تصویر: رائٹرز

بھارت میں نئے زرعی قوانین کے خلاف ہزاروں بھارتی کسانوں کا احتجاج اتوار کے روز شدت اختیار کرگیا جن کا مقصد نجی کمپنیوں کو وسیع زرعی شعبے تک براہ راست رسائی کی اجازت دے کر اناج کی خریداری اور قیمتوں کے عمل کی تجدید ہے۔

برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق بڑی تعداد میں ناراض کسان وزیراعظم نریندر مودی کی اس یقین دہانی کو مسترد کرتے ہوئے کہ یہ قوانین کسانوں کی آمدن دگنی کردیں گے، نئی دہلی کے نزدیک احتجاج کررہے ہیں۔

خیال رہے کہ بھارتی حکومت کو درپیش اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے حکومتی عہدیداران اور کسانوں کی یونین کے رہنماؤں کے درمیان مذاکرات کے 6 ادوار ناکام ہوچکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کسانوں کے احتجاج میں شدت: بھارتی حکومت قوانین میں مزید تبدیلیوں پر غور کیلئے تیار

ان نئے قوانین کے مخالف 30 گروہوں میں سے ایک سنیوکتا کسان اندولن (متحدہ کسان احتجاج) کے ایک رہنما کمل پریت سنگھ پنو کا کہنا تھا کہ 'سیکڑوں کسان نئے قوانین کے خلاف اپنی شکایت کے اظہار کر کے لیے نئی دہلی کی جانب ٹریکٹر ٹرالی مارچ کریں گے'۔

کسان رہنما کا کہنا تھا کہ 'حکومت ہماری تحریک کو بدنام کرنا اور کچلنا چاہتی ہے لیکن ہم پر امن طور پر اپنا احتجاج جاری رکھیں گے'۔

مقامی انتظامیہ نے سیکیورٹی اقدامات مزید سخت کرنے کے ساتھ پولیس کو تعینات کرکے رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں تا کہ کسانوں کو بڑی تعداد میں نئی دہلی میں داخل ہونے روکا جاسکے۔

دوسری جانب بھارت کی اپوزیشن جماعتوں اور کچھ سینئر ماہر معیشت کی جانب سے مظاہرین کی حمایت کا اظہار کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں:بھارت میں کسانوں کے احتجاج میں شدت، ملک بھر میں ریلوے ٹریکس اور ہائی ویز بند

بھارتی حکومت کے سابق اہم مشیرِ اقتصادیات کوشک باسو نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں لکھا کہ 'میں نے اب بھارت کے نئے زرعی بل کا مطالعہ کیا ہے اور مجھے احساس ہوا کہ یہ ناقص ہیں اور کسانوں کے لیے نقصان دہ ہوں گے'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہمارے زرعی قواعد میں تبدیلی کی ضرورت ہے لیکن نئے قوانین کسانوں سے زیادہ کارپوریٹس کے مفادات کا تحفظ کریں گے، بھارت کے کسانوں کی سمجھداری اور اخلاقی جرات کو سلام ہے'۔

بھارت میں کسان کئی روز سے ان زرعی قوانین کے خلاف سراپا احتجاج ہے جنہیں حکومت خریداری کے طریقہ کار کی تجدید اور انہیں اپنی مصنوعات کی فروخت کے لیے مزید آپشنز فراہم کرنے والا قرار دے رہی ہے۔

مودی حکومت کے وزرا نے نئی دہلی میں ایک صنعتی تقریب میں بات کرتے ہوئے بڑے صنعتکاروں اور کاروباری افراد سے اپیل کی کہ نئے قوانین کے فوائد سے کسانوں کو آگاہ کریں۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: زرعی اصلاحات پر کسانوں اور پولیس کے درمیان تصادم

خیال رہے کہ بھارت میں زرعی اصلاحات کے قانون کو ستمبر میں منظوری دی گئی تھی اور اس وقت سے کسانوں کا احتجاج جاری ہے جس میں شدت اس وقت آئی تھی جب احتجاج کرنے والوں نے بھارتی دارالحکومت کی جانب پیش قدمی کی۔

حالیہ برسوں میں خشک سالی اور قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ کی وجہ سے ہزاروں کسان خودکشی کرچکے ہیں۔

رواں سال کے شروعات میں قانون سازی کی گئی تھی جس کے مطابق کسانوں کو اپنی فصل ریاست کے مقرر کردہ نرخوں پر مخصوص مارکیٹس میں فروخت کے بجائے اپنی مرضی سے کسی کو بھی کسی بھی قیمت پر فروخت کرنے کی آزادی ہوگی۔

وزیراعظم نریندر مودی نے اسے 'زراعت کے شعبے میں مکمل تبدیلی' قرار دیتے ہوئے سراہا جو کہ 'لاکھوں کسانوں' کو بااختیار بنانے کے لیے ضروری سرمایہ کاری اور جدت پسندی کی حوصلہ افزائی کرے گا۔

تاہم پنجاب میں حکومت کرنے والی اور اپوزیشن کی اہم جماعت کانگریس نے اس احتجاج کی حمایت کرتے ہوئے بحث کی کہ اس تبدیلی نے کسانوں کو بڑی کارپوریشن کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں