چِڑیا گھر حراستی کیمپ، پنجرے تکلیف دہ ہیں، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ

اپ ڈیٹ 15 دسمبر 2020
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریچھوں کو دوسرے چڑیا گھر منتقل نہ کرنے کی ہدایت کی—فائل/فوٹو: ڈان
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریچھوں کو دوسرے چڑیا گھر منتقل نہ کرنے کی ہدایت کی—فائل/فوٹو: ڈان

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے دو ریچھوں کی اردن منتقلی سے متعلق توہین عدالت کی درخواست نمٹاتے ہوئے کہا ہے کہ چڑیا گھر حراستی کیمپس ہیں اور جانوروں کو ان کے غیر فطری ماحول میں رکھنا تکلیف دہ ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے دو ریچھوں کی اردن منتقلی کے انکار کے حوالے سے بیان پر توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کی اور کہا کہ وزیر اعظم کی جانوروں کے ساتھ تصویر آج کے اخبارات میں شائع ہوئی ہیں۔

وکیل سیکریٹری موسمیاتی تبدیلی نے کہا کہ وزارت موسمیاتی تبدیلی وائلڈ لائف بورڈ کے فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہوتی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت تمام فریقین کے کنڈکٹ کا جائزہ لے رہی ہے، دو شیروں کے ساتھ جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے لیکن عدالت نے تحمل کا مظاہرہ کیا جبکہ غلط تاثر دیا گیا کہ اس میں عدالت کا کوئی مفاد ہے۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد چڑیا گھر کیس:وزیر مملکت زرتاج گل کو توہین عدالت کا نوٹس جاری

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ماہرین کی رائے پر ایک بار پھر وائلڈ لائف بورڈ نے فیصلہ کیا ہے، جولائی 2019 سے اب تک جانوروں کی تکلیف کا کون ذمہ دار ہے، وزارت موسمیاتی تبدیلی کو چارج اس لیے دیا گیا تھا کہ چڑیا گھر کے معاملے پر سیاست ہو رہی تھی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وزارت موسمیاتی تبدیلی نے اپنی ذمہ داری نبھائی۔

انہوں نے کہا کہ اس عدالت نے جانوروں کی منتقلی کا حکم اس لیے دیا کیونکہ کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہ تھا، ریچھوں کے دانت نکالے گئے ہیں، انہوں نے بہت کچھ برداشت کیا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت کی واحد دلچسپی صرف بے زبان جانوروں کی ویلفیئر ہے، ہمیں اپنے اس فیصلے پر فخر ہونا چاہیے، دنیا کو پاکستان کے اس فیصلے کی پیروی کرنی چاہیے کیونکہ جانوروں کو ان کے قدرتی ماحول میں رہنا چاہیے۔

اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ عدالت وائلڈ لائف بورڈ کے فیصلے کو سراہتی ہے، ڈیڑھ سال سے ان تمام جانوروں کی تکلیف کا ذمہ دار کون ہے، یہ چڑیا گھر ہماری 70 سالہ گورننس اور ہمارے رویوں کا عکس ہے، دو شیروں کے ساتھ ہونے والا حادثہ شرم ناک ہے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ وزارت موسمیاتی تبدیلی اور وائلڈ لائف بورڈ نے عدالت کو بتایا تھا کہ ریچھوں کے لیے پاکستان میں مناسب جگہ نہیں ہے، وزارت اور بورڈ کے بیان کے بعد عدالت نے ریچھوں کو اردن منتقل کرنے کا فیصلہ دیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی فیصلہ آنے کے بعد ریچھوں کو اردن منتقل کرنے کے لیے پرمٹ جاری کیا گیا تھا لیکن عدالت کو آگاہ کیے بغیر اچانک پرمٹ منسوخ کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا اور اسی لیے فیصلہ پڑھنے کا کہا تاکہ سب کو معلوم ہو جائے کہ کیا ہوتا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نایاب ہاتھی کو محفوظ مقام پر منتقل کیا جائے، اسلام آباد ہائی کورٹ

سیکریٹری موسمیاتی تبدیلی کے وکیل نے کہا کہ اس عدالتی فیصلے سے لوگوں کے رویے تبدیل ہوئے ہیں، جانوروں کے لیے رہنے کی جگہ بنانے کے لیے فنڈز مختص کر دیے گئے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، عدالت کو سماعت کے دوران معلوم ہوا کہ ریچھوں کے لیے کوئی ویٹرن ہی موجود نہیں ہے، اگر جانور کہیں بھی تکلیف میں ہیں تو ان کا خیال رکھنا وزارت موسمیاتی تبدیلی کی ذمہ داری ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت ماہر ڈاکٹر عامر خلیل کا شکریہ ادا کرتی ہے۔

ڈاکٹر عامر خلیل نے کہا کہ چڑیا گھر کے ریچھوں کو 17 دسمبر کو اردن منتقل کر دیا جائے گا، ہدایات کے مطابق چڑیا گھر کو بند کیا جا رہا ہے اور اس فیصلے نے ہماری حوصلہ افزائی کی کہ جانوروں کی بہبود کے لیے کام جاری رکھیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریچھوں کی اردن منتقلی کے حوالے سے چڑیا گھر کی توہین عدالت کی درخواست نمٹاتے ہوئے احکامات جاری کیے۔

عدالت نے کہا کہ چِڑیا گھر حراستی کیمپس ہیں، جانوروں کو کسی بھی دوسرے چِڑیا گھر منتقل نہ کیا جائے، چِڑیا گھر کہیں بھی ہو اس کی حیثیت حراستی کیمپ جیسی ہے۔

مزید پڑھیں: وزارت ماحولیاتی تبدیلی کو چڑیا گھر کا انتظام سنبھالنے کی ہدایت

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 6 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کر دیا، فیصلے میں کہا گیا کہ انسانوں کی تفریح کے لیے جانوروں کو ان کے قدرتی ماحول سے محروم کرنا غیر انسانی سلوک تھا، ریچھوں کو ایک دہائی سے زائد عرصہ چڑیا گھر کے پنجروں میں قید رکھا گیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ چڑیا گھر میں کتنی ہی بہتر سہولیات کیوں نہ ہوں وہ جانوروں کے لیے حراستی کیمپ سے کم نہیں، قید کے دوران جانوروں کا غیر فطری رویہ ناقابل تصور اور تکلیف کا عکاس ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہاتھی اور دو ریچھوں کی ان کے قدرتی ماحول میں منتقلی سے قابل تقلید مثال قائم ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ کاوان، سوزی اور ببلو ہمیشہ پاکستانی عوام کے سفیر رہیں گے، یہ جانور انسانیت کے لیے پاکستانیوں کے پیغام رساں رہیں گے کہ وہ پنجروں میں قید رکھنے کے لیے نہیں ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ چیئرپرسن وائلڈ لائف بورڈ کے وکیل نے بتایا کہ بورڈ میٹنگ میں ریچھوں کی اردن منتقلی کا فیصلہ کیا گیا تو یہ عدالت ان کی بحفاظت منتقلی کے لیے پرامید ہے اور وہ انسانوں کے اس سلوک کو معاف کردیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں