پی آئی اے پائلٹس کے 141 معطل کردہ لائسنسز میں سے 110 کلیئر

اپ ڈیٹ 15 دسمبر 2020
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ پی آئی اے کو کارپوریٹ ادارہ ہونے کی حیثیت سے پروفیشنل طریقے سے چلانا چاہیے—فائل فوٹو: اے ایف پی
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ پی آئی اے کو کارپوریٹ ادارہ ہونے کی حیثیت سے پروفیشنل طریقے سے چلانا چاہیے—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: سپریم کورٹ کو آگاہ کیا گیا کہ قومی ایئر لائن نے جعلی ڈگری کے تنازع کے بعد معطل کیے گئے 141 میں 110 پائلٹس کے لائسنس کلیئر کردیے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینئر وکیل سلمان اکرم راجا نے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کی نمائندگی کرتے ہوئے چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کو بتایا کہ پی آئی اے نے 110 پائلٹس کے لائسنس کلیئر اور 15 کے منسوخ کردیے جبکہ 14 پائلٹس کو پرواز کے لیے غیر موزوں قرار دیا گیا ہے ان کے علاوہ چند کیسز میں فیصلہ ہونا باقی ہے۔

یہ معلومات اس وقت سامنے آئیں جب جسٹس عمر عطا بندیال نے دریافت کیا کہ ایئرلائن نے معطل لائسنس کی جانچ پڑتال کے لیے کیا اقدامات اٹھائے اور کیا سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) لائسنس کی تصدیق کر کے کاروبار کی بحالی کے لیے اس معاملے پر مناسب اقدامات کررہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پی آئی اے کی رپورٹ مسترد، کوئی بہتری نظر نہیں آرہی، چیف جسٹس

سپریم کورٹ نے پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو افسر ایئرمارشل (ر) ارشد ملک کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کی۔

درخواست گزار نے ہائی کورٹ میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ ارشد ملک پاک فضائیہ کے ایک سینئر حاضر سروس افسر تھے اور ان کی پی آئی اے کے سربراہ کی حیثیت سے تعیناتی 3 گست 2018 کو اس وقت کے سی ای او کی تعیناتی کے خلاف سپریم کورٹ کے بنائے گئے قانون کی سراسر پامالی ہے۔

چنانچہ سماعت میں ارشد ملک کے وکیل نعیم بخاری نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ ان کے مؤکل اب پاک فضائیہ کے افسر نہیں ہیں کیوں کہ وہ ریٹائرڈ ہوچکے ہیں۔

یاد رہے کہ 18 مارچ کو سپریم کورٹ نے ارشد ملک کو پی آئی اے کے سی ای او کے عہدے پر مکمل اختیارات کے ساتھ بحال کیا تھا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: حکومت کی جانب سے پی آئی اے سربراہ کی تعیناتی کا دفاع

قبل ازیں سندھ ہائی کورٹ نے گزشتہ برس دسمبر میں ارشد ملک کو قومی ایئرلائن کے سربراہ کی حیثیت سے کام کرنے سے روک دیا تھا۔

نعیم بخاری نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ پی آئی اے کی مالی حالت بھی دگردگوں ہے اور ہمارے پائلٹس اہم منزلوں مثلاً امریکا، برطانیہ اور دیگر اہم ممالک میں نہیں اترسکتے اس لیے ایئرلائن کا کارگو کا کاروبار بھی ختم ہورہا ہے۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ پی آئی اے کو کارپوریٹ ادارہ ہونے کی حیثیت سے پروفیشنل طریقے سے چلانا چاہیے تاکہ بین الاقوامی سطح پر سخت مقابلے میں یہ موجود رہ سکے اور اس ماحول میں صرف سخت جان ہی بچ سکتے ہیں'۔

جب چیف جسٹس نے کہا کہ اگر انتظامیہ پی آئی اے کی بحالی چاہتی ہے تو اسے مزید کاروبار واپس لانے کے لیے بیرونِ ملک منزلوں پر توجہ دینی ہوگی، جس پر نعیم بخاری نے واضح کیا کہ کووِڈ 19 کی عالمی وبا نے دنیا کی متعدد ایئر لائنز کو اپنے طیارے گراؤنڈ کرنے پر مجبور کردیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آڈیٹر جنرل کی پی آئی اے کے سی ای او کو عہدے سے ہٹانے کی سفارش

اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ لیکن پی آئی اے کووِڈ 19 کی آمد سے پہلے ہی گراؤنڈ ہوگئی تھی۔

وکیل کا کہنا تھا کہ عالمی وبا نے پی آئی اے کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے یہ بھاری قرضوں کے بوجھ تلے دب چکی ہے اور انتظامیہ کو اسے ماضی کی بلندیوں پر واپس لانے کے لیے وقت چاہیے۔

سلمان اکرم راجا نے عدالت کو بتایا کہ پی آئی اے نے رضاکارانہ علیحدگی اسکیم بھی متعارف کروائی ہے اس کے علاوہ کمپنی کے 75 کروڑ روپے کے تفریحی ٹھیکے بھی منسوخ کیے گئے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں