کیا سندھ میں نمکین پانی سے کاشتکاری کی جاسکتی ہے؟

17 دسمبر 2020
پانی کے بھاپ بن کر اڑ جانے کے بعد اس میں موجود نمکیات زمین کی سطح پر ہی رہ جاتی ہیں
پانی کے بھاپ بن کر اڑ جانے کے بعد اس میں موجود نمکیات زمین کی سطح پر ہی رہ جاتی ہیں

سید محسن رضا شاہ ایک کسان ہیں جو بیرونِ ملک سے تعلیم حاصل کرکے آئے ہیں۔ وہ سندھ کے ضلع ٹھٹہ کے تعلقہ ٹنڈو حافظ شاہ میں کپاس اُگاتے ہیں۔ ان کے پاس 450 ایکڑ زمین ہے لیکن اس میں صرف 300 ایکڑ ہی قابلِ کاشت ہے۔

باقی 150 ایکڑ زمیں ناقابلِ کاشت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ پانی کھارا ہوتا جارہا ہے۔ پانی میں موجود نمکیات کو ناپنے کا پیمانہ ٹی ڈی ایس یعنی ٹوٹل ڈیزالو سالڈز ہے۔ محسن نے ای او ایس کو بتایا کہ ’اس وقت ہم جس پانی سے کپاس اُگارہے ہیں اس کا ٹی ڈی ایس 1500 سے زیادہ ہے۔ یہ بہت خطرے کی بات ہے‘۔

اس سے پہلے محسن گوار اور لیموں بھی اگاتے تھے لیکن اب یہاں کپاس، گندم اور فالسے جیسی موسمی فصلیں اگتی ہیں۔ ٹھٹہ میں میٹھے پانی کی قلت کی وجہ سے کسان کاشتکاری کے لیے زمینی پانی استعمال کرتے ہیں۔ محسن نے ہمیں بتایا کہ ’جب مون سون شروع ہوتا ہے تو زمینی پانی کا ٹی ڈی ایس بھی ٹھیک ہونا شروع ہوجاتا ہے‘، لیکن زمینی پانی کا استعمال اب کوئی بہتر انتخاب نہیں رہا ہے۔

زمینی پانی کا کھارا ہونا سندھ میں زراعت کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے۔ سندھ کے عوام تعلیم و صحت کی سہولیات کے فقدان اور بجلی کی عدم فراہمی جیسے مسائل سے پہلے ہی دوچار ہیں، لیکن زمین اور زمینی پانی کا کھارا ہونا ان کے لیے سب سے بڑی مشکل ہے کیونکہ ان میں سے اکثر کا انحصار زراعت پر ہی ہے۔

مزید پڑھیے: ایک قفس جیسے گاؤں کی درد بھری کتھا!

ضلع سجاول کے تعلقہ جاتی سے تعلق رکھنے والے ایک سماجی کارکن نثار احمد تھاھیم کا کہنا ہے کہ ’سطح سمندر میں ہونے والے اضافے سے ہماری زمینیں ختم ہورہی ہیں جو ہماری زندگیوں کے لیے بھی خطرہ ہے‘۔

ضلع بدین، سجاول اور ٹھٹہ پر مشتمل سندھ کے ساحلی علاقوں کو درپیش یہ مسئلہ نیا نہیں ہے، لیکن پھر بھی یہ علاقہ روزگار کے مواقعوں، سیاحت، صحت کی سہولیات، تعلیم اور دیگر ترقیاتی ضروریات کے لحاظ سے محرومی کا شکار ہے۔ نثار کا کہنا ہے کہ ’میٹھے پانی کی عدم دستیابی نے مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے‘۔

دریائے سندھ کے قریب ڈیلٹائی علاقوں میں رہنے والے لوگ میٹھے پانی کے مناسب بہاؤ کے بغیر گزارا کر رہے ہیں۔ نثار نے ہمیں بتایا کہ دریائے سندھ کے ڈیلٹا کو برقرار رکھنے کے لیے کوٹری کے بعد 10 ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) میٹھے پانی کا بہاؤ ضروری ہے۔ لیکن گزشتہ کچھ سالوں سے یہ پانی دریا میں نہیں چھوڑا گیا کیونکہ یہ کوٹری سے پہلے ہی استعمال ہوچکا ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں سطح سمندر میں اضافہ ہورہا ہے اور سمندر زیادہ سے زیادہ زمین کو نگل رہا ہے۔ زمین کے کٹاؤ کے باعث ساحل کے قریب تعمیر شدہ مکانوں کو نقصان پہنچتا ہے اور مکینوں کو مجبوراً نقل مکانی کرنی پڑتی ہے۔

غیر منظم آبپاشی کے طریقہ کار اور نکاسی آب کی کمی نے بھی زمین میں نمکیات جذب ہونے کی شرح میں اضافہ کیا ہے۔

ناصر پنہور ماہرِ ماحولیات ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’سیم اور تھور سندھ کے تقریباً 30 فیصد کھیتوں میں زراعت کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ آبپاشی نظام کی کارکردگی خاطر خواہ نہیں ہے۔ آبپاشی کے پانی کے بہاؤ میں آنے والی رکاوٹوں اور بیراجوں کے بننے سے دریا میں پانی کا بہاؤ کم ہوگیا ہے، اور کھارے پانی کو دریا میں ڈالنے سے دریا کے پانی میں نمکیات کا اضافہ ہورہا ہے‘۔

ناصر کا کہنا ہے کہ ’خشک موسم میں کوٹری بیراج سے نیچے پانی کا بہاؤ اکثر خطرناک حد تک کم ہوجاتا ہے، جبکہ بحیرہ عرب میں پانی کا بہاؤ ماحولیاتی صفائی کے لیے ضروری سطح سے کم ہوجاتا ہے۔ ساحلی علاقوں میں قابلِ کاشت زمینیں یا تو سمندر کا حصہ بن گئی ہیں یا تھور زدہ ہوگئی ہیں۔ وہاں زمین کی سطح پر نمک نظر آنے لگا ہے جس کی وجہ سے وہ زمینیں ناقابلِ کاشت ہوگئی ہیں‘۔

جب دریائے سندھ یہاں کے کھیتوں کو سیراب کرتا تھا، اس وقت کو یاد کرتے ہوئے نثار نے ہمیں بتایا کہ ’دریائے سندھ کے بہاؤ میں پوری ساحلی پٹی کے لیے بہت فائدے تھے۔ ہمیں پینے کے لیے اور کاشتکاری کے لیے میٹھا پانی میسر ہوتا تھا۔ لیکن افسوس کہ اب حالات تبدیل ہوگئے ہیں‘۔

نہروں اور پانی کی تقسیم کے نیٹ ورک سے رسنے والا پانی اور آبپاشی کا اضافی پانی بھی زمینی پانی کی سطح میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ اس وقت تو زیادہ ٹی ڈی ایس والے آبپاشی کے پانی کا استعمال تھور کا ایک بڑا سبب بنا ہوا ہے کیونکہ اس پانی کے بھاپ بن کر اڑ جانے کے بعد اس میں موجود نمکیات زمین کی سطح پر ہی رہ جاتی ہیں۔ پاکستان میں زمینوں کے بنجر ہونے کے عمل میں یہاں کی تھور زدہ زمین بھی شامل ہے جس سے تقریباً 63 لاکھ ہیکٹر زمین متاثر ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ نمکین پانی سے کاشتکاری کرنا کاشتکاروں، زمینداروں اور خود حکومت کے لیے بھی ایک موقع ہے۔ اگر اسے باضابطہ شکل دے دی جائے تو یہ ملک اور خاص طور پر سندھ کی ساحلی پٹی اور غربت زدہ اور میٹھے پانی کی قلت کا شکار تھر جیسے علاقوں میں فصلوں کی کاشت کا مؤثر ذریعہ بن سکتا ہے۔

لیکن نثار نے ہمیں بتایا کہ ’کسی حکومتی محکمے اور تنظیم نے یہاں آکر ہمیں اس مسئلے کے حل کے بارے میں نہیں بتایا۔ ایک مرتبہ کراچی سے ایک ٹیم نمکین پانی سے کاشتکاری کے حوالے سے سجاول آئی تھی، انہوں نے پانی کی جانچ کی اور کہا کہ پانی میں بہت زیادہ نمکیات ہیں، اور وہ دوبارہ نہیں آئے‘۔

مزید پڑھیے: ایک تھا چنیسر: کہ جس کا جیون دُکھ ہی دُکھ ہے۔۔۔!

ڈاکٹر بکشل خان لاشاری مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، جامشورو میں ’یو ایس-پاکستان سینٹر فار ایڈوانس اسٹیڈیز ان واٹر‘ کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ اس حوالے سے موجود حل پر عدم توجہی پر حیران ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘اس طریقے کا استعمال نیا نہیں ہے۔ آسٹریلیا سمیت مختلف ممالک میں اس کا استعمال بڑے پیمانے پر ہورہا ہے۔ اگر بدین اور ٹھٹہ میں بھی نمکین پانی سے اور تھور زدہ زمینوں پر کاشتکاری کی جائے تو ان شہروں کی آمدنی یقیناً بڑھ جائے گی۔ ہم نمکین پانی سے زراعت سے متعلق آگاہی اور صلاحیت سازی کا منصوبہ شروع کر رہے ہیں جو ساحلی پٹی میں نمکین پانی سے زراعت کو فروغ دینے اور ساحلی آبادی کی صلاحیتوں کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوگا‘۔

سندھ کے عوام کی نجات تھور زدہ زمین کی بحالی میں ہی ہے جو مختلف مکینیکل اور حیاتیاتی طریقوں سے ممکن ہے۔ ہائیڈرولوجی اور آبی وسائل کے ماہر، ڈاکٹر حسن عباس کا کہنا ہے کہ یہی ایک واحد راستہ ہے۔ ’اس کا پائیدار حل یہی ہے کہ کاشتکاری کے پرانے طریقوں میں جدید دور کے مطابق تبدیلی لائی جائے جو ایک طویل عرصے تک استحکام اور پائیداری کی ضمانت دیتے ہیں‘۔

2015ء میں اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو اینڈ ڈی پی) نے ’سیلین ایگریکلچر اینڈ کراپس ان سندھ‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ شائع کی جس میں بتایا گیا کہ تھور زدہ زمین کا حل ’ہیلوفائٹس‘ میں پوشیدہ ہے۔ ہیلوفائٹ ایک خاص قسم کا پودہ ہوتا ہے جو نمکین پانی میں اُگ جاتا ہے۔ یہ اپنی جڑوں کے ذریعے یا نمک کے چھڑکاؤ کے ذریعے نمکین پانی تک پہنچتا ہے اور مینگروز کے دلدل اور ساحلوں پر اُگ سکتا ہے۔

اس رپورٹ میں پھلوں اور سبزیوں کی فصل کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ کچھ پھل دار درخت ایسے ہوتے ہیں جو تھور زدہ زمین کو بھی برداشت کرلیتے ہیں اور سرمایہ کاری کے قابل ہوتے ہیں۔

مزید پڑھیے: کھیتوں اور باغوں کی زمین کھاروچھان، جسے سمندر بے دردی سے کھا گیا

ان پھلوں میں چیری، امرود، پپیتا، چیکو، بیر، انار پھلی، کی لائم، اسپینش لائم، اور کینو کی ایک قسم ساور اورنج شامل ہیں۔ بھارت کے ساحلی علاقوں میں سمندری پودے کی ایک قسم انڈین سالٹورٹ اگائی جاتی ہے جس کے پتوں کو ادویات میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اسرائیل میں بھی کھارے پانی کا استعمال پیاز، ٹماٹر، خربوزے اور دیگر پھل اور سبزیاں اگانے کے لیے کیا جاتا ہے۔

دریائے سندھ کے ڈیلٹا کے ماہر مسعود لوہار کا کہنا ہے کہ ’سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح اور کوٹری بیراج سے میٹھے پانی کے بہاؤ میں کمی اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ ساحلی علاقوں میں موسمیاتی تغیر کے حساب سے کاشتکاری کی جائے۔ ہمیں نمکین پانی اور تھور زدہ زمین میں اگنے والی فصلوں اور کاشت کے طریقہ کار کا انتخاب کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ مچھلی اور جھینگے کی فارمنگ کے شعبے کو اس کی اہلیت کے مطابق استعمال نہیں کیا جارہا۔ حکومت اور عطیات دینے والوں کو زمین کے بنجر ہونے سے نمٹنے کے لیے جدید طریقوں پر غور کرنا چاہیے۔

ہم نے محسن سے پوچھا کہ وہ دریائے سندھ میں پانی کی کمی کا ذمہ دار کس کو سمجھتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ’ہم سب ہی پانی کی کمی کے ذمہ دار ہیں کیونکہ ہم ماحول کی عزت نہیں کرتے۔ ہم نے سندھ میں مینگروز کا جو حشر کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے، تو آخر سمندر کی سطح میں اضافہ کیوں نہیں ہوگا؟‘


یہ مضمون 6 دسمبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں