'کوئی معمولی الزامات پر گرفتار ہوجاتا ہے، کوئی سنگین جرم کر کے بھی آزاد گھومتا ہے'

17 دسمبر 2020
عدالت نے کہا کہ نیب قانون کے مطابق اور شفافیت کے ساتھ دیگر ملزمان کے خلاف کارروائی کرے —فائل فوٹو: اے پی پی
عدالت نے کہا کہ نیب قانون کے مطابق اور شفافیت کے ساتھ دیگر ملزمان کے خلاف کارروائی کرے —فائل فوٹو: اے پی پی

سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو تمام ملزمان کی گرفتاری کے حوالے سے پالیسی دو ہفتے میں پیش کرنے کا حکم دے دیا اور بیورو کو دیگر ملزمان کے خلاف قانون کے مطابق اور شفافیت کے ساتھ کارروائی کرنے کی ہدایت کی۔

جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کے ملزمان ڈاکٹر ڈنشا اور جمیل بلوچ کی درخواستِ ضمانت پر سماعت کی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کیس میں نیب کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ 20 ماہ سے ایک شخص جیل میں ہے جبکہ مرکزی کرداروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: ملک ریاض کا داماد ساڑھے 9 ارب روپے کی پلی بارگن پر مقدمات سے بری

انہوں نے ریمارکس دیے کہ کوئی معمولی الزامات پر گرفتار ہوجاتا ہے کوئی سنگین جرم کرکے بھی آزاد گھومتا ہے، سپریم کورٹ سے کئی ملزمان کی ڈھائی سال بعد ریفرنس دائر نہ ہونے پر ضمانتیں ہوئیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید ریمارکس دیے کہ عوامی عہدہ رکھنے والوں کا احتساب ہر صورت ہونا چاہیے، نیب اپنے قانون کا اطلاق سب پر یکساں طور پر نہیں کر رہا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ نیب نے ایک سال سے ملزمان کی پلی بارگین درخواستوں پر فیصلہ کیوں نہیں کیا، پالیسی کے مطابق نیب نے منصوبے کے مرکزی فنانسر ملک ریاض کو شامل تفتیش کیوں نہیں کیا؟

جس پر نیب کی جانب سے پیش ہونے والے پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ملک ریاض سے تفتیش کی گئی تھی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے دریافت کیا کہ ملک ریاض سے کیا تفتیش ہوئی اور ان کی گرفتاری کیوں نہیں کی گئی؟ ملک ریاض نے تو پلی بارگین درخواست بھی نہیں دی۔

مزید پڑھیں: بحریہ ٹاؤن کے ڈائریکٹر کی 9 ارب روپے کی پلی بارگین منظور

پراسیکیوٹر جنرل نیب نے بتایا کہ زین ملک نے 6 مقدمات میں پلی بارگین کی، ساتویں میں درخواست زیر التوا ہے، 6 پلی بارگین درخواستیں منظور ہونے پر ساتویں کیس میں نہیں پکڑا۔

عدالت نے کہا کہ نیب قانون کے مطابق اور شفافیت کے ساتھ دیگر ملزمان کے خلاف کارروائی کرے، تمام ملزمان کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے۔

عدالت نے ہدایت کی کہ اگر نیب پیش رفت دکھانے میں ناکام رہا تو آئندہ سماعت پر چیئرمین نیب ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔

عدالت کا کہنا تھا کہ احتساب کے لیے تحقیقات کرنا نیب کا اختیار ہے اور شہریوں کی آزادی اور بنیادی حقوق کا تحفظ سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ 29 ملزمان میں سے 2 کے علاوہ دیگر کے خلاف کارروائی نہ کرنے کی وجوہات نہیں بتائی گئیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پراسیکیوٹر جنرل نیب لندن میں بیٹھ کر پلی بارگین کرنے والے کی قانونی حیثیت بتانے سے قاصر رہے، ہم اس کیس میں نیب کی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نیب ملک ریاض کے ٹھکانے سے لاعلم، جج کا اظہار برہمی

پراسیکوٹر جنرل نیب نے کہا کہ جن لوگوں نے تعاون نہیں کیا یا پلی بارگین کی درخواست نہیں دی ان کو گرفتار کیا گیا۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ نیب کا یہ رویہ جانبداری ظاہر کرتا ہے، نیب کا طریقہ کار اس کی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ نیب کو معلوم ہے کہ آئیکون ٹاور کے 50 فیصد شیئر کس کے ہیں ہے۔

سماعت میں جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ سندھ میں پیسہ جن دو افراد کو جاتا ہے وہ سب کو معلوم ہے، باغ ابن قاسم کی زمین پر عمارت بنانے کے لیے سندھ میں الگ سے قانون بنایا گیا۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ ڈاکٹر ڈنشا جیسے عمر رسیدہ شخص کو پکڑ لیا باقی 27 لوگ آزاد ہیں، سب جانتے ہیں کہ 62 اور 42 منزلہ دو عمارتیں کس کی ہیں، انہی وجوہات کی وجہ سے نیب پر صبح سے شام تک باتیں ہوتی ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ نیب کی وجہ سے لوگ پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں کریں گے، برطانیہ میں بیٹھ کر ایک شخص نے پلی بارگین کی درخواست دی اور نیب نے قبول کر لی۔

انہوں نے مزید کہا کہ نیب سے بہتر کون جانتا ہے کہ برطانیہ سے کسی شخص کو انٹرپول کے ذریعے بلانا کتنا مشکل کام ہے۔

مزید پڑھیں: کراچی کے سرسبز پارک لالچ اور کاروبار کی نذر

اس موقع پر جسٹس سجاد علی شاہ کا نیب کے پراسیکیوٹر جنرل سے مکالمہ ہوا اور جسٹس سجاد علی نے کہا کہ ایک بڑے آدمی کو موٹر وے پر گرفتار کر لیا جاتا ہے جیسے وہ کہیں بھاگ جائے گا جس پر پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ اس شخص کو نیب نے نہیں پکڑا تھا۔

جسٹس سجاد علی نے مزید کہ بحریہ آئیکون ٹاور کا سب کو پتا ہے کس کا ہے، چیئرمین نیب اور آپ کے علاوہ کوئی نیب کی تعریف نہیں کرتا، جن ملزمان کو پکڑا گیا ہے وہ کٹھ پتلی ہیں۔

بعدازاں کیس کی سماعت آئندہ برس 6 جنوری تک ملتوی کردی گئی۔

بحریہ آئیکون ٹاور کیس

واضح رہے کہ بحریہ آئیکون ٹاور ریفرنس جعلی اکاؤنٹس کیس کا ہی ایک حصہ ہے، یہ پہلا ریفرنس ہے جس میں بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین کے ساتھ نیب نے ان کے داماد زین ملک کو بھی ملزم نامزد کیا ہیں۔

ان کے علاوہ ریفرنس میں نامزد ملزمان میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سابق سینیٹر یوسف بلوچ، وزیر اعلیٰ سندھ کے سابق مشیر ڈاکٹر ڈنشا انکل سریا، سابق چیف سیکریٹری سندھ عبدالسبحان میمن، سابق ڈائریکٹر جنرل پارکس لیاقت قائم خانی، وقاص رفعت، غلام عارف، خواجہ شفیق، جمیل بلوچ، افضل عزیز، سید محمد شاہ، خرم عارف، عبدالکریم پلیجو، خواجہ بدیع الزمان اور دیگر شامل ہیں۔

ریفرنس میں کہا گیا کہ باغ ابنِ قاسم سے متصل رفاہی پلاٹ پر بحریہ ٹاؤن نے آئیکون ٹاور تعمیر کیا ہے، جسے غیر قانونی طور پر الاٹ کر کے قومی خزانے کو ایک کھرب روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔

واضح رہے کہ یہ بلند و بالا عمارت کراچی میں بحیرہ عرب کے ساحل کے نزدیک واقع ہے جس کی 62 منزلیں ہیں جس میں سے 40 منزلیں مختلف استعمال کی ہیں۔

قبل ازیں گزشتہ برس جون میں سندھ ورکس اینڈ سروسز کے سابق سیکریٹری سجاد عباسی کو آئیکون ٹاور کیس میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر گرفتار کیا گیا تھا جو بعد میں وعدہ معاف گواہ بن گئے تھے۔

عدالت میں دیے گئے بیان میں انہوں نے بتایا تھا کہ وہ جب ایگزیکٹو ڈسٹرکٹ آفیسر ریونیو تعینات تھے اس وقت انہوں نے یہ رفاہی پلاٹ ڈاکٹر ڈشنا انکل سریا کو فروخت کیا تھا، انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ڈاکٹر ڈشنا انکل سریا نے یہ پلاٹ ملک ریاض کو فروخت کیا جنہوں نے اس پر بحریہ آئیکون ٹاور کی تعمیر کی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں