کاٹھیارو: جس کی آنکھوں میں ایک زمانہ بستا ہے!

کاٹھیارو: جس کی آنکھوں میں ایک زمانہ بستا ہے!

تحریر و تصاویر: ابوبکر شیخ

اگر تھوڑا گہرائی سے سوچیں تو اس زمین پر ہم ایک عجیب مقام پر جیتے ہیں۔ ایک ایسے جنکشن پر جہاں ہم آنے والے وقت کا انتظار کرتے ہیں اور جاتے ہوئے وقت کو دیکھتے ہیں۔

ہماری کیفیت ایک مجبور جیسی ہوتی ہے۔ نہ آنے والے وقت پر ہمارا بس چلتا ہے اور نہ جانے والا ہماری گرفت میں ہوتا ہے۔ شاید یہی کیفیت ہے جس سے زندگی میں خوبصورتی کے رنگ فصلوں کی طرح اگتے ہیں اور شاید یہی اصل مقام ہے جہاں گزرے وقت کو ہم یاد کرکے خوش بھی ہوتے ہیں اور دکھی بھی۔ اس جنکشن کے دونوں اطراف گزرے اور آنے والے وقتوں کا سحر بستا ہے اور ہم کبھی نہیں چاہتے کہ یہ جگہ ہم سے چھوٹ جائے۔

میں جب سمندر کے کنارے ماہی گیروں کی بستی میں پہنچا تھا تو سورج چڑھ چکا تھا۔ میں نے جب بدین چھوڑا تھا تو نومبر کے آخری ایّام تھے جن کے وجود میں شمال سے آتی ہوئی ہواؤں کی وجہ سے ٹھنڈک بستی تھی۔ راستے پر ہُو کا عالم تھا۔ جلتی ہوئی اسٹریٹ لائٹ کی پیلی روشنی کے گرد دھند تھی، اگر غور سے دیکھیں تو اس دھند کے ذرات آپ کو آسانی سے نظر آجاتے ہیں۔ پھر دُور سے گدھا گاڑی کی آواز آئی۔ گدھا گاڑی گزری تو چلانے والے کا جسم اور سر گرم شال سے ڈھکا ہوا تھا۔ البتہ سانس چھوڑتے وقت اس کی ناک سے سفید بھاپ نکل رہی تھی۔ گاڑی پر دودھ کے بھرے ڈرم تھے کہ صبح کی پہلی چائے کا بننا اس کے بغیر ممکن نہیں تھا۔

میں سمندر کنارے اس گاؤں جانے کے لیے نکلا تھا جہاں ایک ماہی گیر ’کاٹھیارو‘ رہتا ہے۔ وہ ایک اچھے ماہی گیر سے پہلے ایک بیل گاڑی چلانے والے کے طور پر مشہور تھا۔ جس زمانے میں راستے کچے تھے اور ایندھن پر چلنے والی گاڑیاں ابھی نہیں آئی تھیں تب دھان، گندم، جو، سرسوں اور دوسرا سامان گاؤں سے شہر پہنچانے اور پھر شہر سے دکانوں اور گھروں کے لیے کی گئی خریداری کا سامان وہاں تک پہنچانے کے لیے نقل و حمل کے فقط 2 ہی ذرائع تھے، ایک تو بیل گاڑی تھی اور دوسرے اونٹ۔

ایک تیسرا ذریعہ بھی تھا اور وہ تھے گھوڑے، جو اکثر جھیلوں سے مچھلی اور شکار کیے ہوئے پرندے شہروں تک لانے کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ گھوڑوں والے مچھلی اور پرندوں کو گھوڑے پر لانے کے لیے گھوڑے پر ایک مخصوص قسم کا تھیلا بنا کر رکھتے جن کے دونوں طرف موٹے دھاگے سے جال جیسے بڑے تھیلے بنے ہوتے۔ ان میں مچھلی اور پرندوں کی اچھی مقدار آجاتی اور ہوا لگنے کی وجہ سے وہ خراب بھی نہیں ہوتے۔ چونکہ 2 سے 3 گھنٹوں میں اس مچھلی کو شہری مارکیٹ تک پہنچانا ہوتا تھا اور گاؤں کی جھیلوں سے شہر تک یہ روز کا سفر تھا تو وہ اچھی نسل کے گھوڑے رکھتے اور ان کی خوراک کا بھی خاص خیال رکھا جاتا تھا۔

مزید پڑھیے: ایک تھا چنیسر: کہ جس کا جیون دُکھ ہی دُکھ ہے۔۔۔!

گھوڑوں کو کچھ لوگ سواری کے لیے بھی استعمال کرتے تھے۔ گاؤں سے نزدیکی چھوٹے شہروں یا گاؤں تک جانے کے لیے اور شہروں تک بھی آتے اور اپنا کام کاج ختم کرکے وہ شام کو واپس اپنے گاؤں لوٹ جاتے۔ ان دنوں جو اوطاقیں ہوتیں وہاں گھوڑوں کو باندھنے اور ان کو دانہ پانی دینے کا انتظام بھی ہوتا تھا، اور شادیوں میں بھی گھوڑوں کو کھڑا کرنے اور دانے پانی کے لیے خاص اہتمام ہوتا تھا۔

گھوڑا رکھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں تھی اور جاگیردار طبقہ ہی گھوڑوں کو سواری کے لیے استعمال کرتا تھا۔ گھوڑوں کی نسلوں اور شوق کی بھی اپنی کہانیاں ہیں، جس پر کسی اور نشست میں ہم ضرور بات کریں گے۔

ہمیں انجن سے چلنے والی جو پہلی گاڑی نظر آئی وہ ’چنگچی رکشا‘ تھی۔ اس پر شاید کچھ سبزی لدی ہوئی تھی اور ساتھ میں کچھ لوگ بھی تھے جو مزدوری کے لیے شہر جا رہے تھے۔ سورج ابھی نکلا نہیں تھا۔ مگر چنگچی کی تیز اور کانوں کو تکلیف دینے والی آواز نے پُرسکون ماحول کی سفید چادر کو چیر کر رکھ دیا اور سردی کی وجہ سے زہریلا دھواں کچھ پل وہیں راستے کے اوپر ایک ہلکے بادل کی طرح نظر آیا اور پھر فضا میں تحلیل ہوگیا۔

تارکول کے بنے راستوں پر ترقی کی پہلی نشانی نے ہمارا استقبال کیا۔ اس کے بعد ایک موٹر سائیکل گزری، جس کے مالک نے اپنی موٹر سائیکل کے سائلنسر کے اندر لگے ہوئے ان فلٹرز کو شاید توڑ دیا تھا جس سے اس انجن کی خوفناک آواز کو کم کیا جاتا ہے۔ تیز آواز انسان کے حواسوں پر انتہائی منفی اثرات مرتب کرتی ہے مگر ان صاحب کو شاید سکون اچھا نہیں لگتا تھا۔

ہم نے ایک چھوٹے سے شہر میں تازہ دودھ کی چائی پی اور نکل پڑے۔ پھر ایک ٹریکٹر ملا، جس کے انجن میں تو شور نہیں تھا مگر چونکہ ہمیں شور چاہیے تو ڈرائیور نے اپنے دونوں اطراف میں تیز آواز والے اسپیکر لگا دیے تھے۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس کان کو پھاڑ دینے والی آواز میں وہ کسی گیت کا مزہ لے سکتا ہوگا۔ مگر وہ یہ سب دوسروں کو سنانے کے لیے بجا رہا تھا۔ اور چونکہ ٹریکٹر ایک ایگریکلچرل مشین ہے تو اس کو اس حساب سے بنایا گیا ہے کہ اس کا چلانے والا جب رستے پر چلتا ہے تو دوسری ساری گاڑیاں اسے چھوٹی لگتی ہیں اور وہ اپنے سیٹ پر پھدکتا لوگوں کو تیز شور کے عذاب سے دوچار کرتا اپنی دھن میں مگن چلا جاتا ہے۔ اس پر کچھ عجیب سے جملے بھی تحریر ہوتے ہیں جیسے ’محنت کر حسد نہ کر‘، ’اوور ٹیک کی کوشش نہ کر‘، ’دشمن کا منہ کالا‘۔ تو ہم نے اس کو دیکھ کر کوئی حسد نہیں کیا اور نہ ہی اوور ٹیک کی کوشش کی کہ ہم مسکین سے لوگ ایسی جسارت کیسے کرسکتے ہیں۔

مشرق میں آسمان پر لالی پھیلنے لگی تھی اور سورج چڑھنے کو تھا۔ کچھ گاؤں کے بچے راستے کے کنارے لکڑیوں کا الاؤ جلا کر اس کی گرمی کا لطف لے رہے تھے۔ سرکنڈے مغربی اور جنوبی ہواؤں میں ضرور اچھے لگتے ہیں، مگر جب شمال کی ٹھنڈی ہواؤں میں یہ جھولتے ہیں تو فطرت کی خوبصورتی کا سُرور آپ کے شریانوں میں کسی سحر کی طرح گھلنے لگتا ہے۔ اگر راستوں پر ان مشینوں کا شور نہ ہو تو یہ راستے اور ان کے دونوں اطراف پھیلے گاؤں، رگوں کی طرح پھیلی نہریں، ان کے کناروں پر اگتی گھاس، سروٹ اور سرکنڈے اور سرکنڈوں پر بیٹھی اور بولتی چڑیائیں، کیکر پر آئے ہوئے پیلے پھول اور درخت کی اونچی شاخوں پر بیٹھی اور گاتی فاختہ، بکریوں اور بھیڑوں کے ریوڑ، دُور تک پھیلی ہریالی اور اس پر پھیلی دھند کی چادر کسی جادوئی منظر سے کم نہیں۔

بدین سے 40 کلومیٹر کے بعد تارکول کے راستے نے اچانک ہمارا ساتھ چھوڑ دیا اور اب 10 کلومیٹر تک ہمیں اس راستے پر جانا تھا جس کے ایک طرف نہر بہتی تھی اور دسری طرف پیلو اور دیویوں کی کانٹے دار جھاڑیوں کا جنگل تھا، جو راستے کے کنارے ساتھ ساتھ چلتا۔ یہ کانٹوں سے بھری جھاڑیاں ہمیں اچھی نہ بھی لگیں مگر یہ یہاں کے ماحول کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔ خوراک پکانے کے لیے ایندھن فراہم کرنے کے علاوہ، ان درختوں کے گھنے جھنڈ میں جنگلی حیات پنپتی ہیں جیسے جنگلی چوہے، خار پُشت، نیولے، تیتر وغیرہ۔ یہ ان جانوروں کو انتہائی تحفظ دینے والا درخت ثابت ہوا ہے۔ بنیادی طور پر ’دیوی‘ (Mesquite) ریگستانوں کا درخت ہے جو گرم ہوا اور پانی کی کمی کے باوجود پھلتا پھولتا رہتا ہے۔

جنگلات اور درختوں کی اپنی ایک الگ حیثیت اور تنوع ہے۔ یہ Biodiversity کا مرکزی نقطہ ہیں۔ ان درختوں میں مقامی پرندے اور جنگلی حیات پنپتی ہیں جو اس قدرتی نظام کو چلانے کے لیے انتہائی ضروری ہیں. یہ ایک ماحولیاتی زنجیر (Eco chain) ہے جس میں فطرت نے ہم سب کو باندھ رکھا ہے۔ بالکل ایسے جیسے ہمارے جسم میں اگر آکسیجن کی مقدار کم ہونے لگے تو ہم مرنے کے قریب آنے لگتے ہیں، بس یہ جنگلات اور جنگلی حیات کی اہمیت ہماری حیات میں کچھ ایسی ہی ہے۔

7، 8 کلومیٹر کے سفر کے بعد منظر اچانک تبدیل ہونے لگا۔ دیوی اور پیلو کے درخت کم ہوگئے اور مجھے کچھ تمر کے درخت نظر آئے، بیمار بیمار اور پھیکے سے۔ پھر ان درختوں کے جنوب میں ایک بڑی جھیل نظر آئی۔ جہاں تک نظر جاتی ساتھ میں پانی بھی جاتا اور جہاں نظر کی حد ختم ہوتی وہاں آسمان اور زمین ملتے نظر آتے اور ایک سیدھی سی لکیر بن جاتی۔

جس طرف بھی دیکھتے جائیں آپ کی نظروں کے ساتھ ایک سیدھی لکیر چلتی۔ سورج تقریباً چڑھ چکا تھا۔ کچھ آگے چلے تو راستے اور نہر کے مشرق میں وہ گاؤں تھا جہاں ’کاٹھیارو‘ رہتا ہے، جس سے میں ملنے آیا تھا۔ راستے پر ہی اس کی اوطاق ہے۔ جس میں 2، 3 چارپائیاں پڑی ہیں اور اوطاق خالی ہے۔

اوطاق کے آنگن سے مغرب میں جھیل کا پانی ہے، اور سردی کی وجہ سے یہاں آئے ہوئے پرندے مجھے اڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ جن میں Coots کی تعداد کچھ زیادہ نظر آتی ہے۔ پھر کچھ سائیبیرین بطخوں (Common teal) کے اکا دکا جھنڈ بھی نظر آئے۔ یہ پرندے اس تیزی سے اڑتے ہیں کہ یہ صرف اسی وقت نظر آتے ہیں جب ان کا جھنڈ بڑی تیزی سے آواز کرتا آپ کے اوپر سے گزر جاتا ہے۔

مزید پڑھیے: مائی بھاگی: جس کے بھاگ نہ جانے کیا ہوئے!

اچانک بندوق چلنے کی آواز آئی۔ جھیل سے پرندے بڑی تعداد میں اڑے اور دوسری جگہ جا کر بیٹھ گئے۔ جس نے بندوق چلائی تھی وہ پانی میں اِدھر اُدھر دوڑتا دکھائی دیا۔ جو پرندے زخمی ہوئے تھے وہ ان کو پکڑ کر ذبح کر رہا تھا۔ ہماری اور جھیل کی سطح پر جیتی زندگی میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے۔ ہم بھی زندگی کے میدان میں کسی کے نشانے پر ہوتے ہیں، ہمارا بھی کوئی ٹارگٹ ہوتا ہے۔ بس ہمارے آگے دھوکے کی ان دیکھی دیوار ہوتی ہے اور اس طرح حیات کا سفر کٹ جاتا ہے۔

کاٹھیارو آیا تو ٹوال میں لپٹا ہوا آیا۔ زیادہ عمر کی وجہ سے نقاہت وجود کی جڑوں میں ایسے بیٹھ جاتی ہے جیسے جوانی میں دیوانگی ان جڑوں میں آکر اپنا بسیرا کرتی ہے۔ بس جیسے دیوانگی یہ جگہ چھوڑتی ہے تو نقاہت اور بیزاری آکر اس کی جگہ لے لیتی ہیں۔ ویسے بھی 80، 85 برس بہت ہوتے ہیں اس زندگی کی ملی ہوئی سزا کاٹنے کے لیے۔ تو اب جب کاٹھیارو اس عمر کو پہنچا ہے تو یقیناً ایک لمبے راستے کی مسافت طے کرتا ہوا یہاں پہنچا ہے۔

ٹوال میں لپٹا ہوا کاٹھیارو
ٹوال میں لپٹا ہوا کاٹھیارو

کاٹھیارو کی آنکھیں بتاتی ہیں کہ انہوں نے ایک طویل وقت دیکھا ہے
کاٹھیارو کی آنکھیں بتاتی ہیں کہ انہوں نے ایک طویل وقت دیکھا ہے

میں نے گزرے زمانوں سے متعلق پوچھا تو جواب آیا ‘اچھے دن تھے۔ پیسے کی بڑی تنگی تھی۔ خوشحال لوگ اتنے تھے کہ انگلیوں پر گنے جاسکتے تھے۔ ہم جو یہاں رہنے والے ہیں تو آپ ایسا سمجھ لیں کہ ان دنوں میں یہ علاقہ ہمارے لیے ایک چھوٹی سی دنیا کے برابر تھا۔ راستے کچے تھے، تو شہروں تک رسائی بہت کم ہوتی تھی۔ ہم ملاح بنیادی طور پر ماہی گیری کے پیشے سے وابستہ ہیں، مگر شہروں تک مچھلی پہنچانا ہر کسی کے بس میں نہیں تھا۔ تو ہم یہاں جو لوگ یا بڑے زمیندار تھے ان کی زمینوں پر کھیتی باڑی کرتے تھے۔ مچھلی اور پرندوں کے گوشت کی کمی نہیں تھی تو خوارک کی کوئی اتنی بڑی پریشانی نہیں ہوتی تھی۔ بس پیٹ بھر جاتا تھا۔ مگر زندگی فقط خوراک پر تو نہیں چلتی۔ بیماری کے علاج کے لیے، کپڑوں کے لیے، اپنی اولاد کی شادیوں کے لیے رقم تو ہر حال میں چاہیے ہوتی ہے۔ میرے بھائی اور میرے ابو اس فکر میں تھے کے کیا کرنا چاہیے۔

’تب بیراج (کوٹڑی یا غلام محمد بیراج کا افتتاح 15 مارچ 1955ء میں ہوا تھا) بن چکا تھا اور زمینیں زیادہ آباد ہونے لگی تھیں۔ تو میں نے بابا کو کہا کہ مجھے ایک بیل گاڑی لے کر دیں میں اس پر دھان، لکڑی، گھاس وغیرہ ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کا کام کروں گا۔ سب نے اس بات پر اتفاق بھی کیا مگر پتا چلا کہ ایک بیل گاڑی اور اچھے بیلوں کا جوڑا ڈیڑھ سے 2 سو روپے تک کا ملتا تھا۔ یہ ہم غریبوں کے لیے بہت بڑی رقم تھی۔ ایک 2 گائیں تھیں وہ بیچیں، کچھ چاندی کے زیور تھے وہ بیچے، مطلب اِدھر اُدھر سے کرکے 2 ماہ میں یہ رقم ہم نے جمع کی اور بڑی جستجو کے بعد اچھے بیلوں کا جوڑا ملا، اور ایک بیل گاڑی بھی۔ تو اس طرح سے میں ایک بیل گاڑی چلانے والا بن گیا۔‘

کاٹھیارو اپنی اوطاق میں
کاٹھیارو اپنی اوطاق میں

کسی زمانے میں بیل گاڑی اور صحت مند بیلوں کا جوڑا 2 سو روپے میں ملتا تھا
کسی زمانے میں بیل گاڑی اور صحت مند بیلوں کا جوڑا 2 سو روپے میں ملتا تھا

کاٹھیارو کچھ دیر کے لیے رکا اور کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد اس نے سگریٹ نکالی، اسے شعلہ دکھایا اور ایک ہلکا کش لیا۔ انگلیوں کی کھال سکڑنے لگی تھی اور انگلیوں میں خفیف سی لرزش تھی، اور ان لرزتی انگلیوں کے بیچ میں سگریٹ سلگتا اور لرزتا۔ اس نے دوسرا ہلکا کش لیا اور اوطاق سے باہر دیکھا جہاں اب جاڑے کے پہلے پہر کی دھوپ نرمی سے سارے منظر پر بچھی ہوئی تھی۔

’وہ سستائی کا زمانہ تھا۔ یہاں سے اگر بدین (کاٹھیارو کے گاؤں سے بدین 50 کلومیٹر) ہم دھان کی بوریاں لے جاتے تو فی بوری کی مزدوری ہمیں ایک آنہ ملتی تھی۔ (ایک آنہ میں 6 پیسے ہوتے ہیں اور 2 آنوں میں 12 پیسے اور اسی طرح 96 پیسوں کا ایک روپیہ بنتا۔ مگر آگے چل کر رائج ہوا ’پیسہ‘ سو پیسوں کا ایک روپیہ بنتا تھا۔ اس سے نئے روپے کی شکل کچھ اس طرح بنی کہ 4 آنے ہوئے 25 پیسے کے، 50 پیسے کے ہوئے 8 آنے، 75 پیسوں کے ہوئے 12 آنے اور 100 پیسوں کا ہوا ایک روپیہ) میرے بیلوں کا جوڑا، اچھا اور طاقتور تھا، تو میں اپنی گاڑی پر دھان کی 20 بوریاں لاد سکتا تھا جس کا وزن 30 من (1200 کلوگرام) ہوتا تھا۔ اس سے زیادہ وزن بیل گاڑی نہیں اٹھا سکتی۔ پھر جس کے بیل کمزور ہوتے وہ 15 بوریاں اٹھاتے۔ کچھ 10 بوریاں بھی لادتے۔ کیونکہ بدین تک یا گولاڑچی یا کھورواہ تک سارے راستے کچے تھے اور راستے میں بارش بھی پڑ سکتی تھی۔ پھر راستوں میں جو پُل آتے تھے وہ لکڑیوں سے بنے ہوتے تھے اور ساتھ میں بیل گاڑی کے جو چاک ہوتے تھے ان کے گرد تو لوہے کا پٹہ لپٹا ہوا ہوتا تھا، مگر ہوتے تو لکڑی ہی کے تھے، تو ڈر لگا رہتا تھا کہ چاک کہیں ٹوٹ نہ جائے کیونکہ کچے راستوں میں چھوٹے بڑے گڑھے بہت ہوتے تھے اور رات کا وقت ہوتا تھا۔‘

رات والی بات میری سمجھ میں نہیں آئی، مطلب اتنے بڑے وزن کے ساتھ سفر تو دن کو کرنا چاہیے رات کو کیوں؟

کاٹھیارو میرے اس اعتراض پر تھوڑا مسکرایا۔ یقیناً وہ میری کم علمی پر ہی مسکرایا ہوگا۔ بولا ‘بات ٹھیک ہے۔ مگر رات کا سفر زیادہ بہتر تھا اس کے کچھ اسباب ہیں۔ ایک تو رات میں ٹھنڈک ہوتی ہے تو بیل بڑے آرام سے سفر طے کرلیتے ہیں۔ گرمیاں ہوں یا سردیاں، اور پھر مارکیٹ کے حوالے سے بھی یہ رات کا سفر ضروری ہوتا تھا۔ ہم شام کے وقت دھان کی بوریاں گاڑی پر لاد کر ان کو رسیوں سے باندھ کر مضبوط کرتے۔ رات والی روٹی کھاتے اور جیسے سورج ڈوبنے والا ہوتا ہم 5، 6 بیل گاڑیوں والے قطار میں نکل پڑتے۔ یہ 2، 3 گاڑیوں کا اکٹھا چلنا بھی ضروری تھا۔ راستے میں کہیں چاک وغیرہ ٹوٹ جائے یا کوئی اور مسئلہ ہوجائے تو ایک دوسرے کی مدد کے لیے یہ ضروری تھا۔

’ہم جب مرکزی راستے پر آجاتے تو ہر کوئی اپنی گاڑی پر لادی ہوئی دھان کی بوریوں پر سر رکھ کر سوجاتا۔ بیلوں کو پتا ہوتا کہ کہاں جانا ہے۔ راستے میں ہم ایک مقام پر چائے پیتے تو بیل وہاں آکر رک جاتے۔ ہم گاڑیوں سے اترتے، بیلوں کو کھول دیتے کہ وہ بھی کچھ گھاس کھا لیں۔ یہ ایک آدھ گھنٹے کا وقفہ ہوتا۔ اس کے بعد پھر سفر شروع۔ فجر کی اذانیں ہوتیں یا اذانیں ہوچکی ہوتیں تو ہم بدین شہر میں داخل ہوتے۔ شہر میں بیل گاڑیوں کو کھڑا کرنے کے اڈے بنے ہوتے تھے، ہم گاڑیاں وہیں کھڑی کرتے، بیلوں کو گھاس دے دیتے اور شہر میں ناشتہ وغیرہ کرتے۔ پھر صبح کے 8، 9 بجے کارخانوں پر دھان کی بوریاں اتار کر اپنی مزدوری لے کر گھر کا جو سامان جیسے گُڑ، تماک، کھجور، مصالحے وغیرہ لے لیتے۔

’دوپہر کی روٹی ہم ہوٹل میں کھاتے۔ ان دنوں بدین میں بڑے ہوٹل ہوا کرتے تھے اور پھر واپسی کا سفر شروع ہوجاتا۔ کوئی گاؤں والا شہر آیا ہوتا تو وہ بھی ہمارے ساتھ واپسی کے لیے چل پڑتا۔ آپ سمجھو کہ رات کو 7، 8 بجے ہم اپنے گھر پہنچ جاتے۔ اگر دھان کی کٹائی کا وقت ہوتا تو تقریباً ہر دوسرے دن شہر جانا پڑتا تھا۔ مگر آپ یہ سمجھو کہ بیل گاڑیاں فقط سامان کو ہی ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کے کام نہیں کرتیں، بلکہ مسافر لوگوں کو بھی ایک سے دوسری جگہ لے جانے کے لیے استعمال ہوتی تھیں۔ شادی بیاہ میں باراتوں کے لیے بھی بیل گاڑیاں استعمال ہوتی تھیں۔ مطلب ہمارا روزگار سارا سال چلتا رہتا۔ کیا شاندار اور یادگار زمانہ تھا۔‘

کاٹھیارو سے بہت ساری باتیں میں نے پہلی بار سنیں جیسے کہ بدین سے کراچی تک کا جو موجودہ راستہ ہے وہ 1958ء سے پہلے نہیں تھا۔ پہلے راستہ بدین سے ترائی، ملاں حسن، کھورواہ، میرپور بٹھورو تک جاتا تھا۔ پھر اس کے بعد بلڑی شاہ کریم اور سجاول تک پھر آگے دریائے سندھ تک جاتا جہاں بڑا گھاٹ تھا وہاں سے پھر ٹھٹہ اور پھر آگے کراچی تک جاتا۔ اس کے علاوہ کچھ ایسے حقائق بھی جانے جو مجھے حیران کرنے کے لیے بہت تھے۔

ہمیشہ 2، 3 بیل گاڑیاں ساتھ سفر کیا کرتی تھیں
ہمیشہ 2، 3 بیل گاڑیاں ساتھ سفر کیا کرتی تھیں

بدین سے کراچی تک کا نیا اور پرانا راستہ
بدین سے کراچی تک کا نیا اور پرانا راستہ

کاٹھیارو مزید بتاتے کہ ’اس زمانے میں یہاں سے ہم گولاڑچی بھی جاتے تھے، یہاں سے احمد راجو اور پھر گولاڑچی۔ احمد راجو کے بعد جنگل، خاموشی اور پانی کی چھوٹی چھوٹی کئی جھیلیں۔ ہم کوشش کرتے تھے کہ گولاڑچی کا یہ سفر دن میں طے ہوجائے کیونکہ رات کو یہاں بھیڑیے حملہ کردیتے تھے۔ ایک دو واقعات بھی ہوئے۔ ایک میراثی گھوڑے پر کسی شادی میں ڈھول بجانے کے لیے جا رہا تھا۔ شام کا وقت تھا، بھیڑیوں کے جھنڈ نے اسے گھیر لیا۔ بھیڑیوں کا جھنڈ پہلے پچھلے پیروں سے شکار پر مٹی پھینکتا تاکہ وہ مٹی اس کی آنکھوں میں چلی جائے اور وہ دیکھنے کے قابل نہ رہے پھر وہ حملہ کردیتے۔ بہرحال وہ میراثی اپنے گھوڑے سمیت جان گنوا بیٹھا۔ اگر 2، 3 بیل گاڑیاں ہوتیں تو وہ حملہ نہیں کرتے۔ میں نے بھیڑیے دیکھے تھے، غُراتے ہوئے، وہ ایک دو دفعہ آئے بھی، مگر ہم 2 بیل گاڑیوں والے تھے تو حملہ نہیں کیا۔ جنگل بہت تھے ان زمانوں میں۔ ہر قسم کے جانور ہوتے تھے اس علاقے میں اور کیوں نہ ہوں؟ ان کے ہونے کے سارے اسباب موجود تھے۔ یعنی جنگل بھی تھے اور خوراک بھی‘۔

مزید پڑھیے: ہاجرہ: جسے آخری دم تک جھیل کی بربادی کا دکھ رہا

یہ بات کرکے، وہ اٹھا اور مجھے اپنے ساتھ آنے کو کہا۔ اوطاق سے باہر آئے تو اس نے جھیل کے شمال کی طرف اشارہ کیا جہاں کچھ بیمار سے تمر کے چھوٹے چھوٹے درخت تھے۔ ’آج سے 30، 40 برس پہلے وہاں تمر کا وسیع جنگل تھا۔ گھنا اتنا کے دن کو بھی رات جیسا لگتا تھا۔ یہاں کے لوگ اپنے گھروں کی چھتوں کے لیے ان درختوں کی لکڑیوں کو کاٹ کر استعمال کرتے تھے۔ اس زمانے میں نہروں میں پانی بہت آتا تھا تو اس میٹھے پانی پر تمر کا یہ گھنا جنگل آباد تھا۔ ابھی بھی آپ دیکھیں گے تو تمر کے بہت سارے درخت ہیں‘۔

تمر کا ختم ہوتا ہوا جنگل
تمر کا ختم ہوتا ہوا جنگل

تمر کے درخت آہستہ آہستہ ختم ہورہے ہیں
تمر کے درخت آہستہ آہستہ ختم ہورہے ہیں

میں نے وہ بیمار سا تمر کا جنگل بھی دیکھا جو اپنی حیات کی آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔ وہ اب بھی ایک کلومیٹر کی اراضی میں پھیلا ہوا ہے۔ حیات اور موت کے اس کھیل کے میدان میں موت تمر کے اس جنگل کی ہی ہونی ہے۔ بالکل ایسے جیسے بہت سارے اور جنگلات اور قدرتی وسائل برباد ہورہے ہیں اور کچھ آخری سانسیں لے رہے ہیں۔ یہ افسوس کا مقام ہے کہ ہم فطرت کے ساتھ کچھ اچھا نہیں کر رہے ہیں۔ مگر اس فطرت دشمنی کی سزا ہمیں ملنی ہے اور سہنے کے سوا ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے۔

’اب کوئی کسی قانون کو نہیں مانتا، جس کے پاس طاقت ہے وہ سب کرسکتا ہے‘، یہ الفاظ سن کر میں حیران ہوا۔ مگر پھر بات میری سمجھ میں آئی کہ کاٹھیارو کے یہ الفاظ ایک تجزیے کے نتیجے کی صورت میں اس نے ادا کیے تھے۔ ایک گزرا زمانہ جو اس نے دیکھا، ایک موجودہ زمانہ جو وہ دیکھ رہا ہے۔

’وہ کیسے؟‘، میں نے پوچھا

’جس زمانے میں ہم بیل گاڑیاں چلاتے تھے تب نہروں کی نگرانی اور ان کے ایک طرف خاص کر مشرق طرف والے راستے کو وہ صاف اور ہموار رکھتے تھے۔ جھاڑیاں اگر بڑھ جاتیں تو ان کو کاٹ دیتے۔ ان نہروں کے دونوں اطراف کیکر کے بڑے جنگل ہوتے اور پیپل اور برگد کے بڑے بڑے گھنے پیڑ ہوتے۔ آپ تپتی دوپہر میں بھی وہاں سے گزریں تو دھوپ نیچے نہیں آتی تھی۔ اور یہ تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہاں سے درخت کی کوئی ایک جھاڑی بھی کاٹی جاسکتی ہے کیونکہ وہ ایریگیشن کی ملکیت تھے۔ اب تو نہ کوئی درخت بچا ہے، نہ بیل دار اور نہ وہ نہروں کنارے راستے۔ اب ہر کوئی مالک ہے۔ بنانے کے لیے نہیں برباد کرنے کے لیے۔ سمجھ لیجیے کہ کچھ نہیں بچا، نہ ایمان، نہ سچائی اور نہ ہمدردی۔ وہ سارے لوگ منوں مٹی کے نیچے چلے گئے جو تب تک کھانا نہیں کھاتے تھے جب تک کوئی مہمان ان کی اوطاق پر نہیں آتا تھا۔ وہ کہتے کہ ’آج شاید نیلی چھتری والا ناراض ہے جو مہمان نہیں آیا ہمارے دروازے پر‘۔ سیرانی سے آگے بدین سے پہلے ایک مشہور گاؤں تھا کسیرو خاصخیلی۔ اس کی اوطاق کے لیے مشہور تھا کہ، وہ کہتا تھا کہ ’ناشتے، دوپہر اور رات کے کھانے کے وقت اگر کوئی مہمان یہاں سے بغیر خوراک کھائے ہوئے گزر جائے تو اس کو گناہ لگے گا‘۔ یہ گاؤں تو اب بھی ہے مگر اب نہ ’کسیرو‘ ہے اور نہ اس کی سخاوت‘۔

’بیل گاڑیوں کے سوا اور بھی کوئی وسیلہ تھا سامان کو شہر تک پہنچانے کا؟‘

’ہاں اونٹ تھے جن پر سامان لادا جاتا تھا۔ اونٹوں کا مالک اونٹ کی رسی پکڑ کر آگے چلتا اور اونٹوں کی قطار (اس قطار میں 2 سے لے کر 15، 20 اونٹ بھی ہوسکتے تھے) اس کے پیچھے چلتی۔ اونٹ میں پڑی ہوئی نکیل سے رسی (مہار) نکلتی جو آگے والے اونٹ سے باندھ دی جاتی ہے اور اس طرح ایک قطار بن جاتی ہے۔ اونٹوں کے مالک ان اونٹوں کی گردن اور ٹانگوں پر گھنٹیاں باندھ دیتے ہیں کہ آواز دُور سے سُنائی دے۔ ہم بھی بیلوں کے گلوں میں گھنٹیاں باندھتے تھے۔ رات کی خاموشی میں یہ گھنٹیاں بڑی دُور تک سنائی دیتیں۔ ان کے بجنے سے ایک قسم کا سکون ملتا، اور دُور سے پتہ لگتا کہ بیل گاڑیاں یا اونٹوں کی قطار جا رہی ہے‘۔

سارا دن کاٹھیارو کے ساتھ گزارا اور شام ہونے کو آئی تو ایک زمانہ میرے ذہن کی جھولی میں آبسا۔ گھنے جنگل، کچے راستے جن پر بیل اور اونٹوں کی قطاریں اور ترنم کی شیرینی گھولتی گھنٹیاں، خاموشی اتنی کے کوسوں دُور سے ان کی گھنٹیوں اور بیل گاڑیوں کے پہیوں کی آوازیں کانوں تک پہنچتی۔ بیل دار تھے جو فرض سمجھتے تھے کے نہروں کے کنارے بنے راستے صاف ستھرے ہوں اور درخت کاٹنا تو دُور، کلہاڑی کی ایک ضرب پر تھانے میں ایف آئی آر تک داخل ہوجاتی تھی۔ نہروں میں چونکہ کھیتوں اور پینے کا پانی بہتا تھا تو اس کو صاف رکھنا نصف ایمان تھا۔ کسی علاقے میں کسی کا خون بہایا جاتا تو ماحول پر سراسیمگی اور خوف اوس کی طرح برستا۔ ہوٹلوں کی خوراک میں گدھوں اور کتوں کا گوشت ابھی متعارف نہیں ہوا تھا اور نہ ہی چاول کے آٹے کو سرخ کرنے کے لیے بازار میں رنگ کی فروخت کی ابتدا ہوئی تھی۔ سب سے بڑا نشہ تماک کا تھا جو مقامی کمہاروں کی بنی ہوئی سلفیوں میں پیا جاتا تھا۔ البتہ بڑی عمر کی عورتیں اور مرد حُقہ گُڑگڑاتے تھے۔ جس گھر میں شادی ہوتی تو 7 دنوں تک چہل پہل رہتی اور آخری 2 دن تو میلے کا سماں ہوتا۔ کوئی اپنی سانس کی ڈوری ٹوٹنے کے بعد یہ جہان چھوڑتا تو اپنے جہاں جہاں بھی ہوتے ہمدردی کے لیے پہنچ جاتے۔ کوشش کرتے کہ جس کو یہ زخم لگا ہے اس پر کسی قسم کی ذمہ داری کا بوجھ نہ پڑے۔ شہر جانا یا کسی بڑے میلے پر جانا خوشی کا باعث ہوتا۔ پھر اگر شہر میں سنیما دیکھ لیا تو اس ایک فلم کے قصے رات کی کچہریوں میں مہینوں چلتے۔ عید پر کپڑوں کا جوڑا ملتا اور اس کو پہننے کی خوشی میں رات کو کئی بار آنکھ کھلتی کہ کب صبح ہو اور نہا کر نیا جوڑا پہنا جائے۔

یادوں کے یہ سارے سلسلے میں نے کاٹھیارو کی باتوں سے سنے اور محفوظ کیے۔ اب اگر میں سوچوں اور گزشتہ 50 برس کا تجزیہ کرنے بیٹھوں تو اوپر کے سارے حقائق اب افسانے کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ اب سب ان کے برعکس ہو رہا ہے۔ کاٹھیارو کے دل میں اب زیادہ جینے کی تمنا کا کوئی بیج نہیں اگتا۔ وہ اب اپنے زمانوں کی بگڑی ہوئی تصویر کو زیادہ دیکھنا نہیں چاہتا۔

’یہ تو ترقی یافتہ زمانہ ہے۔ بہت سارے اسپتال ہیں، علاج کی سہولت ہر جگہ ہے، ایک جگہ سے دوسری جگہ آنا کتنا آسان ہوگیا ہے، پکے راستے بن گئے ہیں، غربت کم ہوگئی ہے، موبائل آگئے ہیں، بجلی آگئی ہے، سولر کی سہولت آگئی ہے، اب تو اچھا زمانہ ہے، ہر چیز آرام سے مل جاتی ہے‘، میں نے موجودہ دنوں کی وکالت کی۔

’آپ کی بات ٹھیک ہے۔ بہت ساری اچھی چیزیں ہوئی ہیں۔ اس سے انکار نہیں ہے، لیکن نوجوانوں کے منہ میں ہر وقت گٹکہ، رات کو ٹھرا پینا، پینے کے پانی کی نہروں میں مردہ جانور پھینکنا، جو پانی پیتے ہیں اس میں گٹروں کا اخراج کرنا، شہروں میں کان پھاڑنے والا گاڑیوں اور چنگچیوں کا شور، دھواں، ہوٹلوں پر حرام جانوروں کے گوشت سے خوراک بنانا، جانوروں کی ہڈیوں اور آنتوں سے کھانے کا تیل بنانا، ملاوٹ کرنا، درخت کاٹنا، نہروں سے اپنی مرضی سے پانی اپنی زمینوں میں لے جانا، نہ بڑے کا احترام نہ چھوٹے کی حیا، اگر یہ ترقی ہے تو ہمیں نہیں چاہیے بابا یہ ترقی۔ آپ کو ہی نباہ ہو۔ بس آج آنکھیں بند ہوں تو کل دوسرا دن ہو‘، ان الفاظ کے ساتھ انگلیوں میں پکڑی سگریٹ میں لرزش بڑھ گئی اور اس کی نور کھوتی آنکھوں میں نمکین پانی آگیا۔

کاٹھیارو اپنے زمانے کی تصویر اب زیادہ بگڑتا ہوا نہیں دیکھنا چاھتا
کاٹھیارو اپنے زمانے کی تصویر اب زیادہ بگڑتا ہوا نہیں دیکھنا چاھتا

کاٹھیارو اپنی بیوی اور پوتے، پوتیوں کے ساتھ
کاٹھیارو اپنی بیوی اور پوتے، پوتیوں کے ساتھ

کاٹھیارو کی اس حقیقی شکایت کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ اس لیے میں نے اس سے اللہ حافظ کہا۔ ترقی وہ اچھی اور پائیدار ہوتی ہے جو ترتیب وار اور سنجیدگی سے آتی ہے۔ ہم دوسروں کے محل دیکھ کر اپنی جھگیوں کو دیا سلائی نہیں دکھا سکتے۔ اگر ہم کسی چیز کی ذمہ داری نہیں لیتے تو ہمیں شکایت کرنے کا بھی کوئی حق نہیں پہنچتا۔ آپ اپنے بچے کو تعلیم کی جگہ پر موبائل دینے کو اہم سمجھتے ہیں تو اچھے دنوں کے آنے کی امید بھی نہ رکھیں۔


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔