آج کل بائیڈن کے حامیوں کو ان 7 کروڑ 40 لاکھ امریکیوں سے زیادہ کوئی پریشان نہیں کررہا جہنوں نے ایک ارب پتی شخص کو ووٹ دیا ہے۔ تجزیہ کار بھی یہ نہیں سمجھ سکے کہ آخر 4 سال تک بے تکے نظام کے چلنے کے بعد بھی ٹرمپ کا ووٹ بینک کیسے بڑھا؟ یہ درست ہے کہ ڈیموکریٹس کے ووٹوں میں بھی اضافہ ہوا ہے لیکن کیا تقریباً نصف امریکی ووٹر مدہوش، جاہل یا نفسیاتی مریض ہیں؟

اس کی ایک وجہ تو یہ سمجھ میں آتی ہے کہ یہ سب امیر ہوں کیونکہ ٹرمپ امیروں کو خوب فائدہ پہنچاتے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے۔ مصنف فنٹین او ٹول لکھتے ہیں کہ ’اس سے ان کے اس خیال کا ثبوت ملتا ہے جو ٹرمپ نے اپنے حامیوں میں پیدا کیا ہے۔ اس خیال کے مطابق امریکی ہونے کے ناطے جو حقوق ان کو حاصل ہے، دنیا ان پر ڈاکہ ڈالنے کی سازش کررہی ہے‘۔ اس جملے کو اس طرح پیش کیا گیا جیسے اس کی کوئی ساکھ نہیں ہے۔

تو آخر کیوں امریکیوں کی ایک بڑی تعداد بائیڈن جیسے امیدوار کی حامی نہیں ہے؟ ایک ایسا امیدوار جس کو ان کی جماعت نے برنی سینڈرز جیسے امیدوار پر ترجیح دی جسے بائیں بازو میں بہت شہرت حاصل ہے؟

مزید پڑھیے: بائیڈن کے امریکا میں پاکستان کو کس نظر سے دیکھا جائے گا؟

کسی بھی ملک میں 25 سے 33 فیصد عوام یا تو فاشزم کی حامی ہوتے ہیں یا اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ عوام کا یہ حصہ ایسے آمر حکمرانوں کا ساتھ دیتا ہے جنہوں نے ان کے لیے سوائے علامتی اقدامات کے کچھ نہیں کیا ہوتا۔

نازی جرمنی کے ساتھ 4 سال تک اتحاد کیے رکھنے کے بعد بھی جنگ کے بعد فرانس میں مارشل پیٹین کو تقریباً 20 فیصد افراد کی جانب سے ہیرو تصور کیا جاتا تھا۔ رچرڈ نکسن 1974ء میں بے آبرو ہوکر وائٹ ہاؤس سے بے دخل ہوئے لیکن پھر بھی بہترین صدر کی حیثیت سے ان کی قبولیت کی شرح 24 فیصد تھی۔ تو آخر عوام کے ایک بڑے حصے کو، جو سماجی انصاف پر امن و امان کو ترجیح دیتا ہو، ایسے آمر حکمرانوں سے کس طرح دُور کیا جائے؟

امریکا میں ری پبلکن ووٹروں کا ایک تہائی حصہ انجیلی عقائد پر عمل کرنے والے عیسائیوں کا ہے۔ یہ طبقہ ہر اس فرد کے ساتھ ہوتا ہے جو ان کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہو، پھر چاہے وہ کتنا ہی منافق کیوں نہ ہو۔ امریکا میں اکثر فوجی، پولیس اور دیگر سیکیورٹی سروسز کے اہلکار ٹرمپ کے حامی ہیں۔ اس بات کے باوجود بھی کہ ٹرمپ خود فوج میں شمولیت سے بچے رہے اور وہ یہ نہیں جانتے کہ کوئی کیوں کسی منافع کے بغیر اپنی زندگی قربان کرسکتا ہے۔

پھر وہ لوگ آتے ہیں جو غصے اور ناامیدی کے باعث اپنی حمایت بدل دیتے ہیں، جیسے کہ اوباما کے وہ ووٹر جنہوں نے بعد میں 2 مرتبہ ٹرمپ کو ووٹ دیا۔ ہمیں ان لوگوں کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے جو اپنے سے کمزور اور مخالف سوچ رکھنے والوں پر الزام عائد کرنے اور سزا دینے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ اور پھر دیکھا جائے تو زیادہ سے زیادہ دو تہائی امریکی ہی ووٹ کاسٹ کرتے ہیں۔

ایسی صورتحال میں ری پبلکن کا اکثریت کا حصول کوئی بہت مشکل کام نہیں ہے، خاص طور پر تب جب ڈیموکریٹس عوام کی زندگیوں کو بہتر بنانے والی پالیسیاں پیش کرنے سے قاصر رہے اور ری پبلکنز کے ناراض ووٹروں کو اپنے ناراض ووٹروں سے زیادہ راغب کرنے کی کوشش کرتے رہے جو کہ تعداد میں زیادہ ہیں۔

مزید پڑھیے: کمالا ہیرس نے امریکا کی 200 سالہ تاریخ کو کیسے بدلا؟

آخر ووٹر یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ پورا میچ پہلے سے فکس ہے؟ شاید اس کی وجہ وہی ہے جسے رینڈ کارپوریشن نے اپنی حالیہ رپورٹ میں واضح کیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق 1970ء کی دہائی کے بعد سے آمدن میں ہونے والے اضافے کی قیمت ایک عام مزدور کو سالانہ 40 ہزار ڈالر اٹھانی پڑی ہے۔ رینڈ کارپوریشن ان تمام مسائل کی جڑ تک گئی کہ جنہیں اگر حل نہیں کیا گیا تو ان کے سامنے دیگر تمام مسائل کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔

جنگِ عظیم کے بعد 1945ء سے 1974ء میں معاشی پیداوار اور نمو کو امیر ترین افراد اور باقی 99 فیصد عوام میں برابر تقسیم کیا گیا تھا۔ اس کے سبب دنیا میں معیارِ زندگی بلند ترین سطح تک پہنچ گیا۔

لیکن اس کے بعد سے پیداوار کے تمام فوائد صرف امیر ترین افراد کو ہی دستیاب ہوئے اور اس طرح وہ 50 کھرب ڈالر، جو کمانے والوں کا بقیہ 90 فیصد حصہ خرچ کرتا، وہ بھی ان امیر ترین افراد کی جیب میں چلا گیا۔ اسی دوران ان امیر ترین افراد نے دولت کا استعمال کرتے ہوئے سیاست دانوں کی مہمات کی فنڈنگ کرکے انہیں خرید لیا اور ان سے ٹیکس میں کٹوتی اور یونین مخالف اقدامات سمیت دیگر فوائد حاصل کیے۔

رہائش، صحت، تعلیم اور بچوں کی پرورش پر آنے والے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ایک خاندان جتنا کام 1970ء کی دہائی میں کرتا تھا، اتنے ہی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے اسے آج دگنا کام کرنا پڑتا ہے۔ 1975ء میں ایک فیصد امیر ترین افراد کا حصہ 9 فیصد تھا جو 2018ء میں بڑھ کر 22 فیصد ہوگیا تھا۔ جبکہ نچلے 90 فیصد افراد کا حصہ 67 فیصد سے کم ہوکر 50 فیصد ہوگیا۔

اس مشکل سے صرف امریکی ہی دوچار نہیں ہیں، بلکہ 1980ء میں بھارت کے امیر ترین ایک فیصد افراد کا حصہ 6 فیصد تھا جو آج 21 فیصد ہوگیا ہے۔ اقلیت اور صنف کی وجہ سے آمدن میں آنے والا فرق کم تو ہوا ہے لیکن بہت محدود پیمانوں میں۔ سوٹ میں ملبوس اعلیٰ طبقے کے سفید فام مردوں نے پیسہ کمانے کے لیے تفریق نہیں کی، بلکہ حیرانی کی بات یہ کہ سفید فام غربا نے یہاں خواتین، اقلیتی افراد اور تارکین وطن لوگوں سے بھی زیادہ نقصان اٹھایا ہے۔

1975ء میں ایک یونیورسٹی گریجویٹ کی اوسط آمدن 55 ہزار ڈالر تھی جو 2018ء میں 72 ہزار ڈالر ہوگئی۔ یہ اضافہ تو ہے لیکن اگر پیداوار کی برابر تقسیم ہوتی تو یہ رقم ایک لاکھ 20 ہزار ڈالر ہوتی۔ اگر کم از کم کمانے والوں کا ذکر کریں تو وہ بھی سالانہ 10 ہزار ڈالر زیادہ کما رہے ہوتے۔ اس لیے اس بات پر حیرانی کی بالکل ضرورت نہیں کہ تقریباً آدھے کرائے دار اس وقت ایک بوجھ کا شکار کیوں ہیں۔ ہر 10 میں سے 4 امریکی کسی ہنگامی حالت میں 4 سو ڈالر خرچ نہیں کرسکتے اور ہر 8 میں سے ایک کو مناسب خوراک دستیاب نہیں ہے۔ آخر ان مسائل کا حل کون تلاش کرے گا؟

بائیڈن کے ساتھ نامور اقلیتی افراد کا ملنا اچھی بات ہے لیکن آپ اس سے بہت زیادہ خوش بھی مت ہوں۔ ڈیموکریٹک اسٹیبلشمنٹ قطعاً یہ نہیں چاہتی کہ پیداوار کی موجودہ تقسیم کو تبدیل کیا جائے۔ اس وقت دونوں جماعتوں کے حکمرانوں کے لیے اسٹیٹس کو ہی بہترین راستہ ہے، اور یہی وجہ ہے کم آمدنی والے بہت سے افراد نے بائیڈن سے کینہ رکھتے ہوئے ٹرمپ کو ووٹ دیا۔


یہ مضمون 15 دسمبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں