Dawnnews Television Logo

ورک فرام ہوم کا تجربہ: پاکستان کی نیوز ویب سائٹس کے مدیران کیا کہتے ہیں؟

جس طرح دفتر میں بیٹھ کر کام نسبتاً سہولت کے ساتھ اور بلاتعطل کیا جاسکتا ہے گھر سے ممکن نہیں جس سے لامحالہ کارکردگی پر فرق پڑتا ہے۔
شائع 31 دسمبر 2020 07:50pm

کورونا اور اس سے پیدا ہونے والی صورتحال سے بھلا کون واقف نہیں؟ اس کرہ ارض پر شاید ہی کوئی ایسا خوش نصیب ہو جو اس وبا کے سبب آنے والی مشکلات سے محفوظ رہا ہو۔ کونسا طبقہ ہے، جس نے اس وبا کو اپنے لیے سکون و راحت کا ذریعہ سمجھا ہو؟

پھر اس بیماری کی وجہ سے ہر کام کے طریقہ کار میں تبدیلی دیکھنے کو ملی۔ بڑے بڑے ہجوم میں ہونے والی محفلیں سکڑ گئیں، دوستوں، یاروں اور خاندان والوں کے ساتھ ملنا ملانا بھی محدود ہوگیا۔ بلکہ کسی کے پاس جاتے ہوئے یہی ڈر لگا رہتا کہ اس کو ہمارا آنا کہیں بُرا نہ لگے۔

صورتحال یہ ہوگئی کہ خبر کے جتنے بھی ذرائع ہیں، وہاں اسی بیماری سے متعلق خبروں نے مایوسی کے ڈیرے ڈالے رکھے۔ عام حالات میں تو جہاں کوئی حادثہ رونما ہوتا وہاں میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد سب سے پہلے پہنچے ہوتے، مگر کورونا نے یہاں بھی نظام کو ہلا کر رکھ دیا۔

اس بیماری کی آمد اور لاک ڈاؤن کے بعد جہاں باقی ہر شعبے نے گھر سے کام کرنے کو فوقیت دی، وہیں میڈیا اور خاص کر ڈیجیٹل میڈیا کی انتظامیہ نے بھی اس فارمولے کو اپنایا اور شاید تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہو کہ خبر سے تعلق رکھنے والے باہر نکلنے کے بجائے گھر سے ہی خبر کی تلاش میں مصروف ہوگئے۔

اس لیے بطور بلاگ ایڈیٹر میں نے اور میری ٹیم نے یہ سوچا کہ کیوں نہ پاکستان کے بڑے اداروں سے تعلق رکھنے والے مدیران سے رابطہ کیا جائے اور ان سے ان کے تجربات جاننے کی کوشش کی جائے کہ اس سال لگنے والے لاک ڈاؤن کے بعد گھر سے کام کرنے سے متعلق ان کے تجربات کیسے رہے؟

ہم نے ان مدیران سے کچھ سوال پوچھے، اور انہوں نے بہت اچھے انداز میں ان تمام سوالات کے جوابات دیے۔ تو آئیے آپ بھی ان غیر معمولی اور دلچسپ تجربات کو جانیے۔

جہانزیب حق


چیف ڈیجیٹل اسٹریٹجسٹ، ایڈیٹر، ڈان ڈاٹ کام


بطور ایڈیٹر یہ سال آپ کے لیے کیسا گزرا؟

یہ سال بہت ہی مشکل رہا۔ میڈیا پہلے ہی معاشی مشکلات کا شکار تھا اور کورونا کی وبا نے ان مشکلات میں مزید اضافہ کردیا۔ اخراجات میں کمی کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے ساتھ ساتھ ورک فرام ہوم کے چیلنجز سے لڑتے ہوئے دفتری کام انجام دینا واقعی مشکل تھا۔ ان چیلنجز کی وجہ سے پیدا ہونے والی غیریقینی کا مقابلہ کرنا سب سے زیادہ مشکل تھا۔ آخر آدمی اپنی صحت کی فکر کرے، لوڈشیڈنگ کی فکر کرے یا پھر تنخواہوں میں کٹوتی کی؟

ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ ورک فرام ہوم آسان کام ہے۔ اس حوالے سے آپ کا تجربہ کیسا رہا؟

مجھ سمیت تمام آن لائن ایڈیٹروں کے لیے ابتدائی کچھ ماہ بہت افراتفری اور دباؤ کے تھے۔ لیکن جیسے جیسے کام میں روانی آتی گئی تو ہمیں احساس ہوا کہ ورک فرام ہوم کا تجربہ خاصہ اچھا ہے۔ کچھ حوالوں سے تو یہ دفتر میں کام کرنے سے بھی زیادہ مؤثر ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس دوران حاصل ہونے والے تجربے کی وجہ سے مستقبل میں کچھ مخصوص ڈیسک اور کاموں کا انداز تبدیل ہوجائے۔

ورک فرام ہوم کے دوران سب سے بڑا چیلنج کیا رہا؟

جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں سب سے بڑا چیلنج تو غیر یقینی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی حوصلہ شکنی اور دباؤ تھا۔ اس کے علاوہ تو آپ ہر چیز سے نمٹ سکتے ہیں۔

آپ کی ٹیم نے اس چیلنج کا مقابلہ کیسے کیا؟

اس کا مختصر جواب تو یہ ہے کہ انہوں نے قابلِ ستائش طریقے سے اس کا سامنا کیا۔ میرا خیال ہے کہ اگر میں ان کی جگہ ہوتا تو شاید میں اتنا بہتر کام نہ کرسکتا جتنا عمدہ کام میری ٹیم نے کیا ہے۔ انہوں نے غیر معمولی طریقے سے کام کے دباؤ اور اپنی ذاتی زندگیوں پر پڑنے والے شدید اثرات کا سامنا کیا ہے۔ میں ان دنوں کو یاد کرتا ہوں جب میں ایک کاپی رائٹر تھا اور سوچتا ہوں کہ کیا میں بھی اس طرح کام کرسکتا تھا۔

گھر سے کام کرتے ہوئے کوئی ایسا تجربہ جو بہت یادگار رہا ہو (خوشگوار یا ناخوشگوار)

کراچی میں ہونے والی مون سون بارشوں سے مختلف علاقے شدید متاثر ہوئے تھے اور اس سے کام میں بہت زیادہ خلل پڑا تھا۔ گھروں میں پانی بھر جانے اور کئی کئی دن تک بجلی نہ ہونے کی وجہ سے معمول کے مطابق کام کرنا مشکل تھا۔ اس سے ورک فرام ہوم کی ایک خامی بھی اجاگر ہوئی۔

ورک فرام ہوم کے دوران غیر یقینی اور حوصلہ شکنی کی کیفیت پر قابو پانا ایک چیلنج تھا
ورک فرام ہوم کے دوران غیر یقینی اور حوصلہ شکنی کی کیفیت پر قابو پانا ایک چیلنج تھا

فرحان محمد خان


مینجنگ ایڈیٹر، ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی


بطور ایڈیٹر یہ سال آپ کے لیے کیسا گزرا؟

کورونا وائرس نے جس طرح پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تو یقیناً میں بھی اس دنیا کا باسی ہوں اور پوری طرح سے ہل گیا ہوں، آپ مجھے ‘ہلا ہوا’ کہہ سکتے ہیں۔

سال 2020ء بہت کٹھن اور مشکل رہا، پے درپے قریبی عزیز و احباب اور ملک کی نامور شخصیات کی اموات نے غمزدہ کیے رکھا۔ سال کے آغاز میں صرف 2 ماہ ہی خیر و عافیت سے گزرے اور پھر مارچ سے اب تک ہر ماہ کسی قریبی عزیز، محلے دار کی دنیا سے گزرنے کی خبر غمگین کیے دیتی ہے۔ ابھی 4 دن پہلے ہی ایک دوست جس کی عمر صرف 32 سال تھی، انتقال کرگیا۔

کورونا نے جہاں نجی زندگی کو متاثر کیا وہیں پیشہ ورانہ زندگی بھی مشکلات کا شکار رہی۔ ڈان اردو ویب سائٹ کی بڑی ٹیم کو لیڈ کرنا یقیناً اعزاز کی بات ہے۔ ہم نے مارچ کے آغاز میں ہی اپنی 2 ڈیسک کو گھر سے کام کی اجازت دے دی تھی اور پھر 20 مارچ سے ہماری پوری ٹیم نے دفتری امور گھر سے انجام دینا شروع کردیے تھے۔

ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ ورک فرام ہوم آسان کام ہے۔ اس حوالے سے آپ کا تجربہ کیسا رہا؟

گھر سے کام کرنا زندگی کا پہلا تجربہ تھا جو اب تک جاری ہے۔ ایسی صورتحال میں جب تمام ارکان آپ کے سامنے موجود نہ ہوں، انہیں ہدایات دینا، ان سے کام لینا اور مختلف آئیڈیاز کو شیئر کرنا بہت مشکل صورتحال تھی۔ گھر سے کام کے دوران آغاز کے 2، 3 مہینے نہایت کٹھن گزرے، بڑی ٹیم کو آن لائن سنبھالنا (مینج کرنا) آسان کام نہیں تھا۔

اور خصوصی طور پر جب آپ کراچی جیسے شہر میں رہتے ہوں جہاں بجلی اور انٹرنیٹ کی فراہمی کے مسائل ہیں تو آن لائن امور انجام دینا کسی چیلنج سے کم نہیں۔

میرے خیال میں گھر سے کام کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہی تھا کہ آپ کورونا وائرس سے خود کو اور اپنے گھر والوں کو بہتر طور پر محفوظ رکھ سکیں، باقی دیگر فوائد بھی ہیں لیکن نقصانات کی فہرست طویل ہے۔

ورک فرام ہوم کے دوران سب سے بڑا چیلنج کیا رہا؟

گھر سے کام کے دوران سب سے بڑی مشکل بجلی اور انٹرنیٹ کی فراہمی میں تعطل تھا۔ نیوز ویب سائٹ ہونے کی وجہ سے ہمیں فوری نوعیت کی خبروں کا سامنا رہتا ہے لیکن جب ٹیم کے ارکان کے گھروں میں بجلی نہ ہو یا انٹرنیٹ کی فراہمی منقطع ہو تو خبروں کو بروقت شائع نہ کرنے سے ویب سائٹ کی کارکردگی پر منفی اثر پڑتا ہے، اور لامحالہ کام کا بوجھ ان لوگوں پر زیادہ آجاتا ہے جن کے پاس بجلی اور انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہو۔

مئی سے اگست تک کراچی میں شدید گرمی اور بارشوں کے باعث بہت کرب ناک صورتحال کا سامنا رہا، ٹیم کے اکثر ارکان کے گھروں میں بجلی اور انٹرنیٹ کے مسائل رہے، ایسی صورتحال میں مجھے وہ امور بھی انجام دینے پڑے جو میری ذمہ داری کا حصہ نہیں تھے۔

گوکہ بطور ٹیم سربراہ ہمارے دفتری اوقات کار متعین نہیں ہیں لیکن جب دفتر سے کام کرتے تو شام میں چھٹی کے بعد گھر پر موبائل کے ذریعے نیوز ایڈیٹر یا انچارج سے سرسری رابطہ ضرور رہتا مگر گھر سے کام کرتے ہوئے صبح سے رات گئے تک باقاعدہ دفتری امور انجام دینا، کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے رہنا معمول بن چکا ہے جس کی وجہ سے گھریلو زندگی اور خاص طور پر بچوں کے رویوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

گھر سے کام کے دوران چونکہ شروع کے کئی ماہ لاک ڈاؤن بھی رہا تو ہفتہ وار چھٹی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور شروع کے کئی ماہ بنا کسی چھٹی کے کام کیا جس کا منفی اثر مزاج اور طبیعت پر بھی پڑا۔

آپ کی ٹیم نے اس چیلنج کا مقابلہ کیسے کیا؟

گھر سے کام کے آغاز میں تو سب کو ہی مشکلات کا سامنا رہا، کام کی نوعیت کے اعتبار سے ہم ایک نیوز روم میں اکٹھا کام کرتے ہیں جہاں ایک دوسرے سے خیالات کا تبادلہ ہوتا ہے، کسی خبر یا شہ سرخی پر بحث و مباحثہ بھی ہوتا ہے، اور اس کے نتیجے میں ایک اچھی خبر یا رپورٹ تیار ہوتی ہے۔ مگر گھر سے کام کے دوران یہ سہولت میسر نہیں تھی جس کی وجہ سے کچھ پیچیدگیاں بھی پیدا ہوئیں۔

گوکہ ٹیم سے روزانہ کی بنیاد پر مسلسل رابطے نیوز ایڈیٹر اور انچارجز سے میٹنگ اور دیگر ارکان سے بھی آن لائن میٹنگ ہوتی رہتی مگر گھر سے کام کے دوران اسٹاف کی انفرادی کارکردگی پر کافی اثر پڑا ہے۔ تخلیقیت کا عنصر بہت کم ہوگیا ہے، نئے آئیڈیاز اور خصوصی نوعیت کی خبروں پر زیادہ توجہ نہیں دے پارہے۔

میں خوش قسمت ہوں کہ ٹیم میں نہایت پروفیشنل اور تعاون کرنے والے لوگ ہیں، اکثر ارکان نے گھر سے کام کے دوران دفتری اوقات سے کئی کئی گھنٹے زیادہ کام کیا، بجلی یا انٹرنیٹ کی معطلی پر اپنے اوقات کار کی تلافی بھی کی۔

گھر سے کام کرتے ہوئے کوئی ایسا تجربہ جو بہت یادگار رہا ہو (خوشگوار یا ناخوشگوار)

گھر سے کام اب بھی جاری ہے اور مزید تجربہ حاصل کرنے کی گنجائش موجود ہے، اب تک کئی ناخوشگوار اور خوشگوار واقعات ہوئے ہیں۔ میں یہاں فی میل اسٹاف سے متعلق ایک تجربہ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔

خواتین کے لیے گھر سے کام کرنا کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں تھا، ایک خاتون رکن کی جانب سے رات گئے خبر پبلش کی گئی جس پر میں نے ان سے رابطہ کیا کہ آپ اب تک کام کررہی ہیں، حالانکہ ان کا دفتری وقت شام میں ہی ختم ہوچکا تھا۔ انہوں نے مجھ سے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا کہ اگر آپ اجازت دے دیں تو میں صبح 9 بجے سے رات 9 یا 10 بجے کے درمیان اپنے دفتری اوقات کو تقسیم کرلوں۔ وجہ پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ گھر میں موجود ہونے کی وجہ سے انہیں ناشتہ، دوپہر اور رات کا کھانا بھی بنانا پڑرہا ہے، اس دوران دیگر کام بھی آجاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ چاہتی ہیں کہ ان کی شفٹ 12 گھنٹے کردی جائے اور وہ اس دوران ایک ڈیڑھ گھنٹے کے لیے گھر کے کام نمٹا کر آن لائن ہوجایا کریں گی۔

خواتین کے لیے گھر سے دفتری امور انجام دینا واقعی بہت کٹھن ہے اور خاص طور پر ایسی خواتین ارکان جو مشترکہ خاندانی نظام کا حصہ ہوں، وقت بے وقت شوہر، بچوں یا گھر کے دیگر لوگوں کی جانب سے اچانک چائے بنانے یا کسی کھانے کی فرمائش آجائے اور ساتھ ہی کوئی بریکنگ نیوز ہو تو اس صورتحال پر قابو پانا صرف ایک خاتون کے ہی دل گردے کی بات ہے۔

ورک فرام ہوم کے نتیجے میں خاندانی زندگی بھی متاثر ہوئی
ورک فرام ہوم کے نتیجے میں خاندانی زندگی بھی متاثر ہوئی

ہارون رشید


ایڈیٹر، انڈیپینڈنٹ اردو


بطور ایڈیٹر یہ سال آپ کے لیے کیسا گزرا؟

گزشتہ 365 دن غیر معمولی اور مشکل ترین ایّام میں سے تھے۔ سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ محفوظ رہتے ہوئے گھروں سے کام کے دوران کارکردگی اور نتائج کو متاثر نہ ہونے دیا جائے۔ ایک قدرے نئی نیوز ویب سائٹ کے لیے جو اوریجنل مواد یا کنٹنٹ کے حصول پر زور دیتی ہے، اس کے لیے تو دفتروں اور بازاروں کے لاک ڈاون کی وجہ سے بندش ایک بڑا دھچکا تھا۔

تاہم اطمینان کی بات ہے کہ شدید مشکلات کے باوجود انڈیپینڈنٹ اردو کی تمام ٹیم نے نیوز گیدرنگ متاثر نہیں ہونے دی اور ملازمین کے تحفظ کو مقدم رکھتے ہوئے یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔

دوسرا بڑا چیلنج کورونا وائرس سے متعلق غلط معلومات کا مقابلہ کرنا تھا۔ طب ایک اسپیشلائزڈ شعبہ ہے اور صرف ماہر افراد ہی اس تکنیکی مسئلے پر بات کرسکتے یا رائے دے سکتے تھے اور پاکستان میں رہتے ہوئے ایسے ماہرین کو ڈھونڈنا ایک مشکل کام تھا۔

ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ ورک فرام ہوم آسان کام ہے۔ اس حوالے سے آپ کا تجربہ کیسا رہا؟

کئی صورتوں میں یہ بات درست ہے لیکن رابطے مشکل ہوجانے سے دقتیں ضرور پیش آئیں۔ یہ تو بھلا ہو زوم کا ورنہ ورک فرام ہوم ایک بھیانک خواب بن جاتا۔ صحافت میں جہاں ایک کاپی کو کئی نظروں سے گزرنا ہوتا ہے تاکہ غلطیاں دُور ہوسکیں اس سلسلے میں دقت رہی۔ ویڈیو مواد اکٹھا کرنے میں مشکلات رہیں کیونکہ رپورٹر باہر جا نہیں سکتے تھے۔ ایسے میں گھر پر قید ٹیم ممبران کے حوصلے بلند رکھنا بھی ایک چیلنج تھا۔ لیکن جلد ہی اکثر مسائل پر قابو پا لیا لیکن چند اب بھی موجود ہیں جنہیں روزانہ کی بنیاد پر ڈیل کیا جاتا ہے۔

ورک فرام ہوم کے دوران سب سے بڑا چیلنج کیا رہا؟

گھر سے کام کرنے میں سب سے بڑی مشکل مسلسل ٹیم سے رابطے میں کمی رہی۔ انفرادی طور پر اپنے آپ کو تیار اور موٹیویٹڈ رکھنا بھی ایک بڑا چیلنج رہا۔ اس کے علاوہ ٹیکسٹ فائلیں تو باآسانی بھیجی اور موصول کی جا سکتی ہیں لیکن بڑی بڑی ویڈیو فائلز کا شئیر کرنا مشکل تھا۔

بغیر تیاری کے کچھے پہن کر میٹنگوں میں آنا مذاق بن گیا ہے، لیکن یہ صورت درپش رہی ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ تھا کہ کوئی بھی زوم میٹنگ میں ویڈیو آن رکھنے کو تیار نہیں تھا۔

آپ کی ٹیم نے اس چیلنج کا مقابلہ کیسے کیا؟

گھر سے کام کرنے کے لیے جو انفرااسٹرکچر چاہیے تھا، ادارے نے حتٰی الواسع کوشش کی کہ وہ مہیا کیا جائے۔ ٹیم کے ساتھی آگے بڑھ کر چینلجوں سے نمٹے، جس کے لیے وہ شاباش کے مستحق ہیں۔

گھر سے کام کرتے ہوئے کوئی ایسا تجربہ جو بہت یادگار رہا ہو (خوشگوار یا ناخوشگوار)

گھر سے کام کرنے کے لیے اچانک صورت بنی تو ڈائننگ ٹیبل آفس ٹیبل تو بن گئی لیکن ڈائننگ کی کرسی گھنٹوں طویل شفٹس کے لیے دفتر کی کرسی نہ بن سکی۔ اس کے مسلسل استعمال سے کمر کا درد یقینی تھا، لہٰذا بازار سے نئی کرسی خریدنی پڑی۔ لیکن دوسرے ہی دن پاکستان میں بنی کرسی کے دو پاؤں نکل گئے پھر باقی تمام عرصہ اس پر جھولے لیتے ہوئے کام کیا۔ اسے میں نے کورونا کے جھولے کا نام دیا تھا۔

ورک فرام ہوم شروع ہوا تو کھانے کی میز دفتر کی میز بن گئی
ورک فرام ہوم شروع ہوا تو کھانے کی میز دفتر کی میز بن گئی

اسرار احمد


نیوز ایڈیٹر، اردو نیوز


بطور ایڈیٹر یہ سال آپ کے لیے کیسا گزرا؟

کورونا وائرس اور اس کے بعد لگنے والے لاک ڈاؤن نے صحافیوں کی مشکلات میں بھی اضافہ کردیا تھا۔ کورونا وائرس کی وجہ سے مارچ میں ہی ملک میں لاک ڈاؤن لگ گیا اور آمد و رفت معطل ہوگئی تھی۔ اس کے علاوہ ادارے کی جانب سے بھی یہ ہدایت کی گئی تھی کہ صحافی کسی بھی صورت میں اپنی صحت کو خطرے میں نہ ڈالیں۔ ایسی صورتحال میں کیمرہ مین اور رپورٹرز کا کام مشکل تر ہوگیا کیونکہ ان کے لیے خبر کے موقع پر پہنچنا ضروری ہوتا ہے۔

ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ ورک فرام ہوم آسان کام ہے۔ اس حوالے سے آپ کا تجربہ کیسا رہا؟

ورک فرام ہوم کو آسان سمجھا جاتا ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ یہ ہمارے لیے قدرے مشکل تھا۔ جب آپ ایک نیوز روم میں بیٹھ کر کام کرتے ہیں تو آپ ایک ہی وقت میں رپورٹرز سے بھی رابطے میں رہتے ہیں اور دیگر سروسز کو مانیٹر بھی کر رہے ہوتے ہیں لیکن گھر سے کام کرنے میں یہ ممکن نہیں ہوتا۔ صحافیوں کو ابتدا میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن انہوں نے خود کو نئی صورتحال کے حساب سے ڈھال لیا، لیکن یہ کام آسان نہیں تھا۔

ورک فرام ہوم کے دوران سب سے بڑا چیلنج کیا رہا؟

ورک فرام ہوم یا دفتر سے دُور بیٹھ کر کام کرنا انٹرنیٹ کے بغیر ممکن نہیں ہے، اور پاکستان میں انٹرنیٹ کی سہولیات خاطر خواہ نہ ہونے کی وجہ سے صحافیوں کو ورک فرام ہوم میں شدید دشواری ہوئی۔

معاملہ یہ ہے کہ گھر میں آپ کے پاس جو انٹرنیٹ ہوتا ہے وہ صرف ذاتی استعمال کے لیے ہوتا ہے اور اس ضمن میں آپ کو کوئی تکنیکی مدد بھی حاصل نہیں ہوتی، ایسی صورتحال میں انٹرنیٹ کنیکشن میں خرابی یا سست رفتاری کام میں رکاوٹ اور پریشانی کا سبب بنتی ہے۔

اس کے علاوہ رفقائے کار کے ساتھ کسی موضوع پر تبادلہ خیال کرنا بھی مشکل ثابت ہوا کیونکہ تمام لوگ اپنے اپنے گھروں پر موجود تھے۔ ابتدا میں دُور بیٹھ کر تبادلہ خیال کرنا یا کسی کو کچھ سمجھانا بہت مشکل تھا لیکن آہستہ آہستہ لوگوں نے خود کو نئی صورتحال میں ڈھال لیا۔

آپ کی ٹیم نے اس چیلنج کا مقابلہ کیسے کیا؟

پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی نسبت آن لائن صحافت سے منسلک افراد نسبتاً آسانی سے ورک فرام ہوم پر منتقل ہوگئے۔ ابتدا میں ہمیں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن چونکہ ہمارا کام پہلے ہی انٹرنیٹ سے متعلق تھا اسی لیے کچھ لوگوں کو تو وقت لگا لیکن اکثر نے ورک فرام ہوم کے تجربے میں خود کو زیادہ جلدی ڈھال لیا۔

گھر سے کام کرتے ہوئے کوئی ایسا تجربہ جو بہت یادگار رہا ہو (خوشگوار یا ناخوشگوار)

صحافت ایک ایسا پیشہ سمجھا جاتا ہے جس میں چھٹی ملنا بہت مشکل ہوتا اور لمبی چھٹی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن لاک ڈاؤن صحافیوں کے لیے مشکلات کے ساتھ ساتھ مواقع بھی لے کر آیا۔

میرا تعلق پاکستان کے ایک دُور دراز علاقے سے ہے، لیکن کام کے لیے میں نے طویل عرصہ کراچی میں گزارا اور صحافت میں گزارے گئے اپنے 20 سالوں کے دوران میں کبھی بھی طویل چھٹی پر اپنے آبائی علاقے نہیں گیا، لیکن لاک ڈاؤن اور ورک فرام ہوم کی وجہ سے میرے لیے اچھا یہ ہوا کہ تقریباً 3 ماہ مجھے اپنے آبائی علاقے میں گزارنے کا موقع ملا، جو یقیناً میرے لیے خوشگوار یادوں میں سے ایک ہے۔

ورک فرام ہوم میں دفتر والی سہولیات میسر نہیں ہوتیں جس سے کام مشکل ہوجاتا ہے
ورک فرام ہوم میں دفتر والی سہولیات میسر نہیں ہوتیں جس سے کام مشکل ہوجاتا ہے

منظر الہٰی


ایڈیٹر، جیو نیوز اردو


بطور ایڈیٹر یہ سال آپ کے لیے کیسا گزرا؟

مجموعی طور پر 2020ء ایک مشکل سال تھا کیونکہ کورونا کی عالمی وبا نے زندگی کے ہر حصے یعنی گھر، دفتر، سماجی رابطوں سمیت ہر چیز کو متاثر کیا۔ اس عالمی وبا کو سمجھنا اور اس کے مطابق اپنے کام اور زندگی کو ڈھالنا اور خود کو اور ٹیم کو وائرس سے بچانا ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ کام کی نوعیت تبدیل ہوگئی، ہمیں اپنی ٹیم کو 'ورک فرام ہوم' پر بھیجنا پڑا جو اکثریت کے لیے ایک بالکل نیا تجربہ تھا۔

ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ ورک فرام ہوم آسان کام ہے۔ اس حوالے سے آپ کا تجربہ کیسا رہا؟

گھر سے کام کرنا جس قدر آسان سمجھا جاتا ہے اس قدر ہے نہیں، کیونکہ بہت سے کام دفتر کے ماحول کا تقاضا کرتے ہیں، اور وہ گھر میں صرف اسی صورت ہوسکتے ہیں جب آپ گھر کا ایک کمرہ یا حصہ دفتر کے لیے مختص کردیں اور وہاں آپ کو تنگ کرنے والا کوئی نہ ہو۔

اس کے ساتھ آپ کو آن لائن کام کے لیے اچھا انٹرنیٹ اور بجلی کی مسلسل فراہمی چاہیے ہوتی ہے۔ لاک ڈاؤن کی ابتدا میں تو بجلی کی صورتحال بہتر رہی جس کی وجہ سے معاملات کافی آسان رہے لیکن انٹرنیٹ کے مسائل خاصے رہے۔

لیکن مجموعی طور پر گھر سے کام کا تجربہ اچھا رہا کیونکہ وہ توانائی جو آپ صبح اٹھنے کے بعد تیاری اور پھر دفتر پہنچنے پر صرف کرتے ہیں، اسے بچا کر آپ کام کو نکھارنے پر صرف کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہماری ٹیم کی مجموعی کارکردگی اس دوران بہت اچھی رہی۔

ورک فرام ہوم کے دوران سب سے بڑا چیلنج کیا رہا؟

گھر سے کام کرنے سے متعلق سب سے بڑا مسئلہ اوپر بھی بتایا کہ انٹرنیٹ اور بجلی کا رہا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ورک فرام ہوم میں ٹیم کے ساتھ مسلسل رابطہ اس نوعیت کا نہیں ہوسکتا جیسا آپ دفتر میں رکھ سکتے ہیں۔

کسی بھی ٹیم میں شامل جونیئر ممبران کو تربیت کی ضرورت ہوتی ہے جو گھر سے کام کے دوران اس طرح سے نہیں دی جاسکتی جیسے آپ دفتر میں بیٹھ پر سکھا سکتے ہیں۔ اسی طرح گھر کے افراد کو اس بات پر قائل کرنا کافی مشکل ہوتا ہے کہ گھر میں موجود ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ 'چھٹی' ہے، بلکہ آپ کو روزانہ تسلسل کے ساتھ کام کو اتنا ہی وقت دینا ہے جتنا آپ دفتر میں دیتے ہیں۔

آپ کی ٹیم نے اس چیلنج کا مقابلہ کیسے کیا؟

یہ صورتحال ٹیم ممبران کے لیے مشکل تھی۔ ویسے تو ہمارے ادارے نے تقریباً تمام ہی لوگوں کو دفتر سے کمپیوٹر فراہم کیے لیکن کچھ لوگوں نے اپنے لیپ ٹاپ پر ہی کام کو ترجیح دی جب کہ بعض افراد کو فوری طور پر انٹرنیٹ کا بندوبست بھی کرنا پڑا۔ لیکن ٹیم نے مجموعی طور پر اس نئی صورتحال کے لیے خود کو بہت تیزی سے تیار کیا اور انٹرنیٹ اور بجلی جیسے مسائل کے باوجود اچھے نتائج دیے۔

گھر سے کام کرتے ہوئے کوئی ایسا تجربہ جو بہت یادگار رہا ہو (خوشگوار یا ناخوشگوار)

خوشگوار یا ناخوشگوار تو نہیں کہہ سکتے لیکن اس دوران کراچی میں مون سون کی شدید بارش نے رابطے بالکل توڑ دیے تھے۔ موبائل سروسز اور انٹرنیٹ شدید متاثر ہوئے، کچھ علاقوں میں تو بجلی کئی دن بند رہی، جس کی وجہ سے آپریشن معطل تو نہیں ہوا مگر اس میں شدید مشکلات درپیش آئیں۔

گھر والوں کو اس بات پر قائل کرنا بھی مشکل ہے کہ گھر پر رہنے کا مطلب چھٹی نہیں ہے
گھر والوں کو اس بات پر قائل کرنا بھی مشکل ہے کہ گھر پر رہنے کا مطلب چھٹی نہیں ہے

موسیٰ کلیم


نیوز ایڈیٹر، سماء ڈیجیٹل، اردو


بطور ایڈیٹر یہ سال آپ کے لیے کیسا گزرا؟

جس طرح ہر شعبے پر کورونا کی وبا کے اثرات مرتب ہوئے، بالکل ویسے ہی میڈیا پر بھی اس کا کچھ نہ کچھ اثر تو ضرور پڑا۔ ایک نئی صورتحال کا سامنا تھا، اس وجہ سے بطور ایڈیٹر کام کی نگرانی کے دوران خصوصاً ابتدا میں مشکلات کا سامنا بھی رہا، لیکن بہرحال رفتہ رفتہ معاملات بہت حد تک قابو میں آ ہی گئے۔

ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ ورک فرام ہوم آسان کام ہے۔ اس حوالے سے آپ کا تجربہ کیسا رہا؟

گھر سے بیٹھ کر کام چلا لینا تو آسان ہوتا ہوگا، لیکن کام کرنا اتنا آسان نہیں اور میں یہ بات انچارجز سمیت تمام میڈیا کارکنان کے لحاظ سے کہہ رہا ہوں۔ ممکن ہے دوسرے حضرات اس سے اختلاف کریں لیکن میرا خیال ہے کہ گھر سے کام آسان نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ گھر پر کام کا صحیح معنوں میں ماحول نہیں بن پاتا یا یوں کہیے کہ ہم صحافی اس طریقہ کار کے کبھی عادی نہیں رہے۔

ورک فرام ہوم کے دوران سب سے بڑا چیلنج کیا رہا؟

ہمارے ادارے میں گھر سے کام کا سلسلہ مارچ تا اگست یعنی کل 5 ماہ رہا، لیکن میں نے وہ سہولت خود ہی حاصل نہیں کی اور بدستور دفتر حاضر ہوکر کام کرتا رہا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ میرے لیے بالکل ایک نئی بات تھی اور اس سے مفر کی گنجائش ہونے کے باعث میں نے ذہنی طور پر اسے قبول کرنے کی کوئی کوشش بھی نہیں کی۔

لیکن ایسا نہیں کہ مجھے گھر سے کام کرنے کا کوئی اندازہ ہی نہ ہو، کیونکہ ہفتہ وار چھٹی والے دن بھی کام پر نظر رکھنی پڑتی ہے بلکہ کبھی کبھار اشد ضرورت پڑنے پر تھوڑا بہت کام خود بھی کرنا پڑجاتا ہے۔ چونکہ ہمارا کام خاصی توجہ کا متقاضی ہوتا ہے اس لیے کم از کم میرے لیے تو گھر میں اپنی توجہ کام پر احسن طور پر مرکوز کیے رکھنا جوئے شیر لانے کے ہی برابر ہوتا ہے۔ کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ گھر والے اور خصوصاً شریکِ حیات کم گو ہوں، اس لیے چھٹی والے دن گھر سے کام کرنے کے دوران بھی بیگم کی گفتگو کا سلسلہ جاری ہی رہتا ہے اور ان کی خاصی کم اہمیت کی حامل بات کا بھی تفصیلی جواب نہ دینا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔

علاوہ ازیں جب ہم گھرپر ہوتے ہیں تو باورچی خانے کی بہتی ٹونٹی سمیت ہر چھوٹے بڑے تکنیکی فالٹ کو دُور کروانا نیز بازار سے سودا سلف لانا خواہ اس وقت اس کی کوئی اشد ضرورت ہو یا نہ ہو وہ بھی ہماری ذمہ داری بن جایا کرتی ہے۔ ٹیم کے دیگر ارکان بھی جو 5 ماہ گھر پر رہ کر کام کرتے رہے، کم و بیش اسی قسم کی مشکلات سے دوچار رہے ہوں گے۔

آپ کی ٹیم نے اس چیلنج کا مقابلہ کیسے کیا؟

ادارے کی جانب سے جب یہ اعلان ہوا کہ اب گھر سے کام ہوگا تو میں نے اپنی ٹیم میں ایک ملا جلا رجحان دیکھا۔ ان میں سے چند ایک تو کام میں حائل ہونے والی دشواریوں کے باوجود اس صورتحال میں شاداں و فرحاں دکھائی دیے جس کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ کورونا کے باعث وہ خود بھی چاہتے تھے کہ دفتر نہ آئیں۔ ایک آدھ نے تو ورک فرام ہوم کے اعلان سے تھوڑا پہلے ہی طویل چھٹی پر جانے کی بات کرلی تھی کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ باہر سے وائرس گھر لے جائیں۔

اصل میں اس وقت یہ اندازہ نہیں تھا کہ وبا کا دورانیہ توقع سے زیادہ طول پکڑ لے گا اور 15 دن یا مہینہ بھر بھی چھٹی کرکے گھر بیٹھنا ان کے مقصد کے حصول کے لیے ناکافی ہی رہے گا، لیکن ادارے کے اعلان نے ان کی وہ مشکل خود بخود آسان کردی۔

ٹیم میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو گھر سے کام کرنے کے اعلان پر تھوڑے متفکر ہوئے اور گھر میں اپنے لیے علیحدہ کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ کے انتظام میں لگ گئے۔ چند ایک ایسے بھی تھے جنہیں اپنا لیپ ٹاپ فوری طور پر ٹھیک بھی کروانا پڑگیا۔ کچھ حضرات کے ساتھ وائی فائی کے مسائل تھے لہٰذا انہوں نے بھی فوری طور پر اس کا انتظام کیا۔

گھر سے کام کرتے ہوئے کوئی ایسا تجربہ جو بہت یادگار رہا ہو (خوشگوار یا ناخوشگوار)

گھر سے کام شروع ہونے کے بعد ٹیم اراکین کو اکثر مختلف مسائل درپیش رہتے تھے جس کے باعث کام پر بھی اثر پڑتا تھا۔ کراچی میں بجلی کی فراہمی معطل ہونا کوئی عجیب بات نہیں، یہ مسئلہ کسی بھی علاقے میں کبھی بھی پیش آسکتا ہے اور اکثر علاقوں میں تو یہ معمول کا حصہ ہی ہے۔

ہماری ٹیم کے اراکین میں سے اکثر کے ساتھ ایسا ہوتا تھا کہ ان کی شفٹ کے ٹائم میں بجلی دو ڈھائی گھنٹوں یا کبھی اس سے بھی طویل مدت کے لیے غائب ہوجایا کرتی اور وہ ڈیسک کے واٹس ایپ گروپ پر میسج کے ذریعے اعلان کردیا کرتے کہ لائٹ چلی گئی ہے مطلب یہ کہ اب اس کی واپسی تک کام آگے نہیں بڑھ پائے گا۔

اسی طرح اکثر انٹرنیٹ کی فراہمی کا مسئلہ بھی درپیش رہتا جس کے باعث ان کے لیے خبریں پوسٹ کرنا ممکن نہیں رہتا تھا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ کسی صاحب کو اچانک کوئی ضروری کام درپیش ہوجاتا جس کی وجہ سے وہ کبھی معینہ اور کبھی غیر معینہ مدت کے لیے گھر سے باہر نکل جایا کرتے اور چند ایک مرتبہ تو ایسا بھی ہوا کہ ان کے گھر واپس پہنچتے ہی بجلی کہیں چلی گئی۔

الغرض جس طرح دفتر میں بیٹھ کر کام نسبتاً سہولت کے ساتھ اور بلاتعطل کیا جاسکتا ہے گھر سے اس طرح ممکن نہیں ہوپاتا، جس سے لامحالہ کارکردگی پر فرق پڑتا ہے۔ لیکن بہرحال وبا سے بچاؤ کی خاطر گھر سے کام کرنا وقت کی اہم ضرورت بھی ہے، اس لیے تمام تر نامساعد حالات کے باوجود پوری کوشش ہونی چاہیے کہ کارکردگی کا معیار برقرار رکھا جائے۔


فہیم پٹیل ڈان کے بلاگز ایڈیٹر ہیں۔ آپ کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔


عمید فاروقی ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں