گیس کا رخ تبدیل کرنا غذائی تحفظ کے لیے خطرہ ہے، فرٹیلائزرز

اپ ڈیٹ 05 جنوری 2021
ایس این جی پی ایل کو سپلائی قومی غذائی تحفظ کی طویل المدتی یقین دہانی کیلئے حکومت کی بیان کردہ پالیسیوں کے منافی ہے، ایف ایم پی اے - رائٹرز:فائل فوٹو
ایس این جی پی ایل کو سپلائی قومی غذائی تحفظ کی طویل المدتی یقین دہانی کیلئے حکومت کی بیان کردہ پالیسیوں کے منافی ہے، ایف ایم پی اے - رائٹرز:فائل فوٹو

اسلام آباد: قدرتی گیس کو پائپ لائن سسٹم میں ماری گیس سے موڑنے اور کھاد کی پیداوار کی ضرورت پر دوبارہ غور کرنے کے کابینہ کمیٹی برائے توانائی (سی سی او ای) کے حالیہ فیصلے پر کھاد کی صنعت نے شدید احتجاج کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق فرٹیلائزر مینوفیکچررز آف پاکستان ایڈوائزری کونسل (ایف ایم پی اے سی) کا کہنا تھا کہ 'سی سی او ای کا ماری گیس فیلڈز سے نیٹ ورک کو ایک نئے کنیکشن کے ذریعے گیس فراہم کرنے کا فیصلہ طویل المدتی طور پر ملکی غذائی تحفظ کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے کیونکہ اس سے نہ صرف مسائل ہوں گے بلکہ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کو بھی خطرہ لاحق ہے۔

وزارت صنعت و پیداوار، قومی غذائی تحفظ، منصوبہ بندی اور ترقی اور توانائی کے وزرا کو لکھے گئے خط میں ایف ایم پی اے سی نے خبردار کیا ہے کہ اس سے بالآخر بالواسطہ اور بلاواسطہ ملک میں اس صنعت سے وابستہ افراد بے روزگار ہوں گے۔

مزید پڑھیں: گیس کی قلت، پریشر میں کمی سے توانائی کے شعبے کو فراہمی متاثر

سی سی او ای نے 26 نومبر 2020 کو فیصلہ کیا تھا کہ ماری فیلڈ سے سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) سسٹم تک جنوری کے شروع میں مزید 50 ملین مکعب فٹ اضافی قدرتی گیس کو یقینی بنایا جائے گا اور مسلسل فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ماری پیٹرولیم کی جانب سے اپنے فیلڈ میں کمپریشن سہولت تنصیب کی جائے گی۔

ایف ایم پی اے سی نے کہا کہ ماری فیلڈ کا حبیب راہی لائم اسٹون (ایچ آر ایل) ذخیرہ درمیانے ہیٹنگ ویلیو گیس کا ہے جس میں اعلٰی کاربن ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن شامل ہیں جو خاص طور پر اس طرح کے مقاصد کے لیے تیار کی گئی سہولیات کے ذریعے یوریا کھاد کی تیاری میں فائدہ مند ہوتے ہیں تاہم کسی بھی پاور پلانٹ کی کارکردگی کو متاثر کرتے ہیں۔

اس گیس کا بطور ایندھن استعمال ایک نقصانات کی وجہ ہے، اس بات کا کھاد پالیسی 2001 میں اعتراف کیا گیا تھا۔

اس سے قبل ماضی میں بھی حکومت نے گڈو پاور پلانٹ کو اس گیس کا کچھ حصہ مختص کرنے کا فیصلہ کیا تھا جو پاور پلانٹ کی انتہائی کم صلاحیتوں کی وجہ سے خود ہی ایک قابل بحث فیصلہ تھا۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ سندھ کا وزیراعظم کو خط، صوبے میں گیس کی قلت پر شکایت

اس خط میں کہا گیا کہ 'اب ایس این جی پی ایل کو سپلائی ہماری قومی غذائی تحفظ کی طویل المدتی یقین دہانی کے لیے حکومت کی بیان کردہ پالیسیوں کے منافی ہے'۔

خط میں دعویٰ کیا گیا کہ ایچ آر ایل سے منتقل ہونے والی ہر 100 ایم ایم سی ایف ڈی ملک میں موجودہ قدرتی گیس کی ضرورت کا صرف دو فیصد پورا کرے گی لیکن وہ آنے والے برسوں میں کھاد کے شعبے کی قدرتی گیس کی 20 فیصد تقاضوں کو ختم کردے گی۔

کھاد کی صنعت نے متعلقہ وزارتوں سے درخواست کی ہے کہ وہ دونوں مقامی صنعتوں کے ساتھ ساتھ قومی غذائی تحفظ کے طویل المدتی کام کرنے کی صلاحیت پر بھی دوبارہ نظر ڈالیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں