لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔
لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔

ہمارے اردگرد کئی ایسے لوگ رہتے ہیں جو شاید ہی کبھی اس فاشسٹ طرزِ عمل اور جارحیت کی مذمت کریں جس کے نتیجے میں معصوم اور بے گناہ لوگوں کو ہلاک کردیا جاتا ہے اور یہ سب ریاست کی سرپرستی میں ہوتا ہے۔

لیکن یہی لوگ عوامی مظاہروں کے نتیجے میں عوامی یا نجی املاک کو پہنچنے والے حقیقی یا تصوراتی نقصان پر خوب شور مچاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک احتجاج بھارتی دارالحکومت دہلی کی سرحد پر کسانوں کی جانب سے جاری ہے۔ ایسے میں اپنے ہم وطنوں کی جانوں کی پروا نہ کرتے ہوئے کسی کی املاک کے حوالے سے پروپیگنڈا کرنا نیوٹرون بم بنانے کے مترادف ہے۔

امریکا نے صدر جمی کارٹر کے دور میں نیوٹرون بم پر کام کیا تھا۔ یہ جنگ کے میدان میں استعمال ہونے والا ایک محدود اثرات رکھنے والا ہتھیار تھا۔ اس کا مقصد مغربی یورپ میں لڑی جانے والی کسی بھی ممکنہ جنگ میں اسے سوویت ٹینکوں کے خلاف استعمال کرنا تھا۔ اس بم کو ٹیکٹیکل ہتھیار کے طور پر کئی مقامات پر نصب کیا جانا تھا۔ اس بم کے نتیجے میں اس کے حلقہ اثر میں آنے والے تمام انسان اور زندگی کی تمام دیگر اقسام ختم ہوجاتیں لیکن عمارتیں قائم رہتیں۔

انسانی جانوں کے ضیاع اور اخلاقیات کو نظرانداز کیا جائے تو اس بم کا منصوبہ ایک اور یورپین ریکوری پروگرام جیسے مہنگے منصوبے کی ضرورت کو ختم کرسکتا ہے۔ امریکا نے 1945ء میں جرمنی کی شکست کے بعد مارشل پلان کی فنڈنگ کی تھی۔ سوویت یونین نے اسے ’کیپیٹلسٹ بم‘ کا نام دیا تھا۔

مزید پڑھیے: بھارتی کسانوں کا احتجاج آخر کیا رنگ لائے گا؟

بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی بارہا تاکید کرچکے ہیں کہ کسان عوامی املاک کو نقصان نہ پہنچائیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کسان ایسا کچھ نہیں کررہے۔ مودی نے ماضی میں بھی جامعہ ملیہ کے ان طلبہ پر ہنگامہ آرائی کا الزام عائد کیا تھا، جو دہلی میں شہریت کے متعصب قانون کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔

ایک طرف مودی دہلی کا گھیراؤ کرنے والے کسانوں پر عوامی املاک کو نقصان پہنچانے کا الزام عائد کر رہے ہیں تو دوسری جانب مودی کے حامی ان کسانوں کو خالستانی علیحدگی پسند اور ماؤسٹ قرار دے رہے ہیں۔

پنجاب میں کچھ لوگوں نے ایک ایسی موبائل کمپنی کے کئی ٹاوروں کو ضرور گرایا ہے جس کی ملکیت میں کچھ ایسے ٹی وی چینلز بھی ہیں جو کسانوں کی جانب سے پارلیمنٹ میں پاس کردہ بل واپس لینے کے مطالبے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ کسان اس قانون کو اپنے مفادات کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس قانون کی وجہ سے بڑے کاروباری گروپوں کو فائدہ پہنچے گا، اور ان کاروباری گروپوں میں وہ گروپ بھی شامل ہے جس کے موبائل ٹاور گرائے گئے۔

اب یہاں معاملہ سنجیدہ ہوتا جارہا ہے کیونکہ اس موبائل کمپنی نے ٹاور گرائے جانے میں اپنی حریف موبائل کمپنی کے ملوث ہونے کی بات کی ہے۔ یعنی کسانوں نے ممکنہ طور پر ایک کارپوریٹ جنگ کو ہوا دے دی ہے۔

کسانوں نے موبائل ٹاور گرانے والوں سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے مطالبات پر توجہ مرکوز رکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ اس کمپنی کے مالکان کو اپنے بیانیے اور جدوجہد کا مخالف ضرور تصور کرتے ہیں۔

شاید ہی مودی اور ان کے ہندوتوا کے حامی لوگوں کی جانب سے کمزوروں کو نشانہ بنانے اور ان کو قتل کرنے پر کسی نے اتنے غم و غصے کا مظاہرہ کیا ہو۔ اس عمل کا آخری تجربہ دسمبر 2019ء میں جامعہ ملیہ کے طلبہ کے خلاف ہوا تھا۔ لیکن اس مرتبہ کسانوں کے احتجاج کو روکنے میں ناکامی کی وجہ سے مودی کی مایوسی صاف ظاہر ہے۔ اس مایوسی کا اظہار ان کی تقریر سے بھی ہوا۔

مودی نے ایک عوامی ریلی سے خطاب میں کہا کہ ’کسان چاہیں تو میرے پتلے کو آگ لگادیں اور اسے چوک پر جوتے ماریں، لیکن انہیں عوامی املاک کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے‘۔ کسانوں کے احتجاج سے دارالحکومت کے ساتھ زمینی راستے محدود ہوگئے ہیں۔ سونے پر سہاگا یہ کہ کسانوں کو امریکا، کینیڈا اور یورپ میں بھی اپنے حامی مل گئے ہیں۔ ان واقعات سے مودی کی ایک سخت گیر شخصیت پر ضرب ضرور لگی ہے۔

لیکن ایک وقت وہ بھی تھا جب مودی بالکل مختلف زبان بولتے تھے۔ 1974ء کی ایک تحریک کے دوران طلبہ نے تشدد کے ذریعے پورے کے پورے شہروں کو بند کردیا تھا، اس تحریک کو نَونرمن تحریک (Navnirman Movement)کہا جاتا ہے۔ مودی کی اپنی ویب سائٹ پر اس تحریک اور اس میں مودی کے کردار پر ایک صفحہ موجود ہے۔

مزید پڑھیے: ہندو راشٹریہ کے نمائندے مودی بھارت کو یہ نقصان کیوں پہنچا رہے ہیں؟

اس صفحے پر تحریر ہے کہ ’نَونرمن تحریک مودی کے لیے بڑے عوامی احتجاجوں سے متعلق پہلا تجربہ تھی، اور اس سے سماجی مسائل پر ان کی سوچ کو وسعت ملی‘۔ وہاں یہ بھی درج ہے کہ ’اسی تحریک کے سبب 1975ء میں مودی کو گجرات میں لوک سنگھرش سمیتی کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے ان کے سیاسی کریئر کا پہلا عہدہ بھی ملا‘۔

اب اس معاملے کو ایک سال پہلے جامعہ ملیہ کے طلبہ کے حوالے سے دیے گئے بیان سے ملائیے۔ مودی نے کہا تھا کہ ’شہریت کے قانون کے خلاف پُرتشدد مظاہرے ہونا بدقسمتی اور پریشانی کا سبب ہے۔ بحث، گفتگو اور اختلافِ رائے جمہورت کا حصہ ہیں لیکن عوامی املاک کو نقصان پہنچانا اور عوامی زندگی میں رکاوٹ ڈالنا کبھی بھی ہمارے اخلاق کا حصہ نہیں رہا‘۔

دسمبر 1973ء میں گجرات میں احمد آباد کے ایک انجینیئرنگ کالج کے طلبہ نے کینٹین کی فیس بڑھنے کے خلاف آواز اٹھائی، اور مودی کی ویب سائٹ کے مطابق پولیس نے ان طلبہ کے خلاف طاقت کا استعمال کیا۔ پولیس کی کارروائی کا الٹا اثر ہوا اور یہ احتجاج دیگر کالجوں تک پھیل گیا۔ 1974ء کی ابتدا تک یہ احتجاج پورے شہر میں پھیل گیا اور ریاست بھر میں ہڑتالیں، جلاؤ گھیراؤ اور لوٹ مار کے واقعات ہوئے۔ ان سب کارروائیوں کا ہدف ریاستی حکومت تھی۔ مظاہرین نے کانگریس اراکین اور نمائندگان کی املاک (جی ہاں، املاک) پر حملے کیے۔ احمد آباد میں حالات اتنے خراب ہوگئے کہ فوج کو طلب کرنا پڑا۔

ویب سائٹ پر مسرت کے ساتھ یہ بھی تحریر ہے کہ ’ریاستی حکومت اور مرکزی حکومت اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود ان مظاہروں پر قابو نہیں پاسکی‘۔ ’ایک نوجوان پرچارک (ہندوتوا کا پروپیگنڈہ کرنے والا) اور اے بی وی پی (اکھل بھارتیہ ودھارتی پریشد) کے کارکن کی حیثیت سے نریندر مودی نونرمن تحریک سے منسلک ہوئے اور خود کو سونپے گئے تمام کام بخوبی پورے کیے‘۔

یہ ہنگامہ آرائی بڑھتے بڑھتے پٹنہ تک پہنچ گئی۔ 18 مارچ کو اے بی وی پی اور دیگر دائیں بازو کے طلبہ نے بہار اسمبلی پر حملہ کردیا اور پولیس سے مقابلہ کرنے کے بعد ان طلبہ نے سرکاری عمارتوں، ایک نجی گودام اور 2 اخباروں کے دفاتر کو آگ لگادی۔

1974ء میں ارون جیٹلی نے دہلی یونیورسٹی کے لاء کالج سے فارغ ہونے کے بعد مستقبل کی جے پی تحریک کی حمایت کے لیے احمد آباد اور پٹنہ کا سفر کیا۔ اس تحریک میں طلبہ نے منتخب حکومت کے خلاف مظاہرے کیے، پتھراؤ کیے، یونیورسٹی دفاتر کو آگ لگائی اور شہر بھر میں ہڑتال کی۔ ارون جیٹلی، جنہوں نے مودی کے وزیرِاعظم بننے میں اہم کردار ادا کیا، کو مظاہرہ کرنے والی طلبہ تنظیموں کا ملکی کنوینیر بنایا گیا۔

یہ بات اہم ہے کہ نَونرمن تحریک کے آغاز کے 18 ماہ بعد ایمرجنسی لگ گئی۔ ایسا ہی کچھ 1975ء میں بہار میں وزیرِ ریلوے ایل این مشرا کی بم دھماکے میں ہلاکت کے بعد بھی ہوا۔ کسانوں کو اپنی تاریخ یاد ہے اور اسی وجہ سے وہ پُرامن احتجاج کر رہے ہیں۔


یہ مضمون 5 جنوری 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں