لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔
لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔

شنید ہے کہ ملکی معیشت اس وقت بہتری کی جانب گامزن ہے۔ کم از کم حکومتی وزرا کا تو یہی خیال ہے۔

وزیر برائے منصوبہ بندی، اسد عمر اگست کے مہینے سے ہی ’V‘ کی شکل میں ہونے والی معاشی بہتری کا ذکر کرتے رہے ہیں۔ یہ وہی دن تھے جب لاک ڈاؤن تقریباً ختم ہوچکے تھے۔ وزیرِاعظم عمران خان بھی نومبر کے مہینے سے معیشت میں بہتری کی باتیں کررہے ہیں۔ مشیرِ تجارت عبدالرزاق داؤد بھی ہر مہینے بڑھتی ہوئی برآمدات کے اعداد و شمار بیان کرکے مبارک باد دے رہے ہیں۔

تو کیا ملکی معیشت واقعی بحالی کی طرف جارہی ہے؟ اس بات کو ذہن میں رکھیے کہ اس مالی سال کے اختتام تک ملکی معیشت کی صورتحال کے حوالے سے تمام اندازے یہی کہتے ہیں کہ جی ڈی پی میں 0.5 سے ڈھائی فیصد تک ہی اضافہ ہوگا۔

آئی ایم ایف نے یہ تخمینہ 1.1 اور عالمی بینک نے 0.5 فیصد لگایا ہے جبکہ اسٹیٹ بینک کے اندازے کے مطابق جی ڈی پی میں اضافہ ڈیڑھ سے ڈھائی فیصد رہے گا۔ اس حوالے سے اسٹیٹ بینک نے کورونا کی دوسری لہر کو ایک خطرہ قرار دیا ہے۔

مزید پڑھیے: کیا حکمران ملک چلانے کو مذاق سمجھتے ہیں؟

انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف فنانس پروجیکشن نے اگست میں یہ تخمینہ 1.8 فیصد کا لگایا تھا اور اب موڈیز کے اندازے کے مطابق مالی سال کے آخر تک جی ڈی پی میں ڈیڑھ فیصد اضافہ ہوگا۔

آپ چاہیں تو ان اعداد و شمار کو توڑ مروڑ کر پیش کرسکتے ہیں لیکن سچ بات تو یہ ہے کہ گزشتہ سال کی منفی شرح نمو کے بعد اس سال کی 2 فیصد شرح نمو بھی متاثر کن ہے۔ اس کے علاوہ پیداواری سیکٹر میں دیکھا جائے تو ہر مہینے پیداوار میں اضافہ ہی ہورہا ہے اس وجہ سے بھی یہی لگتا ہے کہ معیشت میں بہتری کا یہ عمل جاری رہے گا۔

لیکن بہرحال آپ جی ڈی پی میں 2 فیصد اضافے کو صرف اس صورت میں ’بحالی‘ نہیں کہہ سکتے ہیں، یہاں تک کہ بحالی سے مراد لاک ڈاؤن کے دوران ہونے والے نقصان کا ازالہ ہو۔ اگر ہم پیداواری سیکٹر کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے یہ کہیں کہ اس مالی سال کے اختتام تک جی ڈی پی میں اضافے کا تخمینہ 4 فیصد (جو دیگر تخمینوں سے دگنا ہے) ہوجائے گا تب بھی آپ اسے ’بحالی‘ نہیں کہہ سکتے۔ اس کے برعکس اسے 2 سال کی غیر تسلی بخش کارکردگی کے بعد معاشی سرگرمیوں کا سست روی سے ساتھ دوبارہ آغاز کہا جاسکتا ہے۔

جب بھی آپ حکومت کی جانب سے برآمدات میں اضافے کا دعوٰی سنیں تو اس بات کو ضرور یاد رکھیں کہ جولائی سے دسمبر کے دوران تجارتی خسارے میں برآمدات کی نسبت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ دسمبر کے مہینے میں تجارتی خسارے میں گزشتہ سال کے اسی ماہ کی نسبت ایک تہائی اضافہ ہوا ہے۔

اگر ہم ماضی پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی ملکی ترقی میں اضافہ ہوا ہے تب تب تجارتی خسارے میں بھی اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں زرِمبادلہ کے ذخائر کم ہوجاتے ہیں اور ترقی رک جاتی ہے۔ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ دسمبر کے مہینے کے اعداد و شمار بھی اس جانب اشارہ کرتے ہیں یا نہیں لیکن اگر جنوری اور فروری میں بھی تجارتی خسارے میں اسی طرح اضافہ ہوتا رہا تو یہ سوال ضرور اٹھے گا کہ کیا ملک میں ایک اور غیر مستحکم ترقی لانے کی کوشش کی گئی ہے۔

مزید پڑھیے: معاشی اعتبار سے سال 2020ء پاکستان کے لیے کیسا رہا؟

ایک اور اہم بات یہ کہ جب بھی ہم برآمدات میں اضافے کو دیکھیں کو ساتھ ہی اس بات پر بھی نظر ڈالیں کہ یہ اضافہ کس قیمت پر ممکن ہوا۔ مثال کے طور پر ہم حکومت کی جانب سے برآمد کنندگان کو دی جانے والی مراعات کو دیکھیں اور پھر اس بات کا جائزہ لیں اس مراعات کے حصول کے بعد کتنی رقم ملک میں آئی۔

ایندھن، بجلی اور قرضوں میں سبسڈی، اسٹیٹ بینک کی جانب سے قرضوں کی ری شیڈولنگ اور شرح سود میں تقریباً 50 فیصد کمی اور ٹیکسوں اور کسٹم ڈیوٹی میں چھوٹ جیسے اقدامات کو ملا کر حکومت کی طرف سے صنعتوں کو تقریباً 2 کھرب روپے کی مراعات فراہم کی گئیں ہیں۔ اس بات کا اندازہ لگانا تو مشکل ہے کہ اس میں سے برآمد کنندگان کو کتنی سبسڈی دی گئی لیکن انہیں اس کا ایک بڑا حصہ ضرور ملا ہے۔

بدلے میں گزشتہ مالی سال کے مقابلے اس مالی سال کے ابتدائی 6 ماہ میں برآمدات میں تقریباً 57 کروڑ ڈالر کا اضافہ ہوا۔ ڈالر کی قیمت 160 روپے کے حساب سے یہ 92 ارب روپے بنتے ہیں۔ ہمیں یہ تو نہیں معلوم کہ برآمد کنندگان نے اصل میں کتنی مراعات حاصل کی ہیں لیکن یہ بات درست ہے کہ وہ مراعات 92 ارب روپے سے تو بہت زیادہ ہی کی تھیں۔

تو آخر ہو کیا رہا ہے؟ میں پہلے بھی یہ بات کرچکا ہوں اور اب بھی کہہ رہا ہوں کہ برآمدات کی انڈر انوائسنگ ہو رہی ہے۔ یہ لوگ دراصل وزیرِاعظم کو دھوکے میں رکھ رہے ہیں۔ یہ بات بھی ممکن ہے کہ یہ اوور انوائسنگ کے ذریعے باہر جمع کی گئی رقم کو ترسیلاتِ زر کی شکل میں ملک میں واپس لارہے ہوں اور اسی وجہ سے کئی مہینوں سے ترسیلاتِ زر کی سطح 2 ارب ڈالر سے اوپر ہی برقرار ہے۔

آخر وہ ایسا کیوں کریں گے؟ کیونکہ ان کے لیے اس طرح پیسہ واپس لانا اور اس سے تعمیراتی صنعت میں سرمایہ کاری کرنا بہت زیادہ فائدہ مند ہے۔ ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے 186 ارب روپے اس صنعت میں داخل ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت کی طرف سے بھی اس صنعت کو مراعات دی گئیں اور اسے خوب عروج ملا۔

مزید پڑھیے: کیا پاکستانی ٹیکسٹائل انڈسٹری واقعی ترقی کر رہی ہے؟

تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ معیشت نہ بہتری کی طرف جارہی ہے اور نہ ہی بحالی کی طرف، بلکہ یہ ریاست کی طرف سے دی جانے والی ایک خود ساختہ اور زبردستی کی ترقی کی ابتدائی سطح پر ہے جو ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں اور جس کا انجام بالآخر گھاٹے پر ہی ہونا ہے۔

اس ترقی کے عامل تعمیراتی صنعت، اس کی معاون صنعتیں اور ٹیکسٹائل کی صنعت ہیں۔ بچت کے بغیر سرمایہ کاری اور محصولات کے بغیر اخراجات کسی بھی معیشت کے لیے نشے کی طرح ہوتے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ آئی ایم ایف کا پروگرام شروع ہونے کے بعد صورتحال کیا رہتی ہے۔


یہ مضمون 14 جنوری 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (2) بند ہیں

یمین الاسلام زبیری Jan 15, 2021 11:08pm
خرم، آپ کی بات دل کو لگتی ہے۔ میں چاہوں گا کہ اس کا جواب حکومت میں شامل کوئی وزیر یا مشیر ضرور دے۔ ایک بات اور ہے کہ اگر برآمدات میں اضافہ ہوا ہے تو ان اشیأ کی فہرست بھی جاری کی جائے جنہوں نے بندرگاہ کو خیرباد کہا۔ اس طرح عوام کا اعتتماد بحال ہوجائے گا کہ واقعی مال بک رہا ہے۔ اور خرم صاحب کا شبہ بھی دور ہوجائے گا،
AMIR YASIN Jan 17, 2021 01:05pm
Great Finding