الیکشن کمیشن نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے کی مخالفت کردی

اپ ڈیٹ 17 جنوری 2021
جماعت اسلامی پاکستان نے بھی صدارتی ریفرنس میں اپنا موقف سپریم کورٹ جمع کرا دیا — فائل فوٹو / اے ایف پی
جماعت اسلامی پاکستان نے بھی صدارتی ریفرنس میں اپنا موقف سپریم کورٹ جمع کرا دیا — فائل فوٹو / اے ایف پی

اسلام آباد: الیکشن کمیشن پاکستان (ای سی پی) نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی مخالفت کردی۔

کمیشن نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ سینیٹ انتخابات ہمیشہ آئین کی دفعہ 226 کے مطابق خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہی ہوئے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سیکریٹری الیکشن کمیشن ڈاکٹر اختر نذیر کی جانب سے سجیل شہریار کے توسط سے عدالت میں جمع کروائے گئے جواب میں کہا گیا کہ 'سینیٹ انتخابات آئین کے نفاذ کے بعد سے ہمیشہ خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہی ہوئے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ صدر مملکت عارف علوی کی جانب سے صدارتی ریفرنس میں پوچھے گئے سوال پر غور کررہا ہے کہ کیا آئین کی دفعہ 226 کے تحت خفیہ بیلیٹ کی شرط سنیٹ انتخابات پر عائد ہوتی ہے یا نہیں۔

مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات صدارتی ریفرنس: عدالت نے تشریح کی تو سب پابند ہوں گے، سپریم کورٹ

اسی سے متعلق ایک سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو اس سوال کا جواب جمع کروانے کی ہدایت کی تھی۔

اپنے جواب میں الیکشن کمیشن نے استدعا کی کہ سینیٹ انتخابات اوپن بیلیٹ کے ذریعے کروانے سے آزاد امیدواروں کی صورت میں بے ضابطگی ہوگی جو کسی سیاسی جماعت سے وابستہ نہیں اور سینیٹ انتخابات کے ووٹرز ہیں۔

ای سی پی نے بتایا کہ قومی اسمبلی اور پنجاب، خیبرپختونخوا سمیت بلوچستان کی اسمبلیوں میں 18 آزاد امیدوار ہیں۔

جواب میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 226 واضح ہے کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے علاوہ تمام انتخابات خفیہ رائے شماری سے ہوں گے، جبکہ آرٹیکلز 59، 219 اور 224 میں سینیٹ انتخابات کا ذکر ہے۔

دوسری جانب جماعت اسلامی پاکستان نے بھی صدارتی ریفرنس میں اپنا موقف سپریم کورٹ جمع کرا دیا۔

جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے سپریم کورٹ کے وکیل اشتیاق احمد راجہ کے ذریعے موقف جمع کرایا۔

جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ حکومت اپنی ذمہ داری سپریم کورٹ کے سر پر ڈالنا چاہتی ہے، لہٰذا ریفرنس واپس کیا جائے۔

جماعت اسلامی کہا کہ حکومت، عدلیہ کی آزادی اور غیر جانبداری کو متاثر کرنا چاہتی ہے، آئین کی شق 226 واضح ہے لیکن حکومت اپنی ذمہ داری سے راہ فرار احتیار کر رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس: ہم آئین کے محافظ ہیں، چیف جسٹس

سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے موقف میں کہا گیا ہے کہ خفیہ رائے دہی کو آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے راستے میں رکاوٹ سمجھنا آئین و قانون اور عالمی قانونی نظائر کے برعکس موقف ہے، آئین کی تشریح کا سوال اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کوئی ابہام ہو لیکن شق 226 واضح ہے۔

واضح رہے کہ سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بینچ کر رہا ہے۔

ریفرنس پر اگلی سماعت 18 جنوری پروز پیر کو ہوگی۔

صدارتی ریفرنس

واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے 23 دسمبر کو صدر مملکت کی منظوری کے بعد سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کر دیا تھا۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ میں ریفرنس بھجوانے کی وزیرِ اعظم کی تجویز کی منظوری دے دی اور ریفرنس پر دستخط کیے تھے۔

عدالت عظمیٰ میں دائر ریفرنس میں صدر مملکت نے وزیر اعظم کی تجویز پر سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کی تجویز مانگی ہے۔

ریفرنس میں مؤقف اپنایا گیا کہ آئینی ترمیم کے بغیر الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرنے کے لیے رائے دی جائے۔

وفاقی حکومت نے ریفرنس میں کہا ہے کہ خفیہ انتخاب سے الیکشن کی شفافیت متاثر ہوتی ہے اس لیے سینیٹ کے انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے منعقد کرانے کا آئینی و قانونی راستہ نکالا جائے۔

مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات سے متعلق ریفرنس پر چیئرمین سینیٹ، اسپیکر اسمبلیز، الیکشن کمیشن کو نوٹس

یاد رہے کہ 15 دسمبر کو وفاقی حکومت نے سینیٹ انتخابات فروری میں کروانے اور اوپن بیلٹ کے معاملے پر سپریم کورٹ کا مشاورتی دائرہ کار لاگو کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

وہیں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سینیٹ انتخابات کے حوالے سے جاری قیاس آرائیوں پر وضاحتی بیان میں کہا تھا کہ آئین کے تحت 10 فروری سے قبل سینیٹ انتخابات نہیں ہوسکتے۔

خیال رہے کہ پارلیمان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے 104 اراکین میں سے 52 اراکین اپنی 6 سالہ سینیٹر کی مدت پوری ہونے کے بعد 11 مارچ کو ریٹائرڈ ہورہے ہیں۔

اگر اعداد و شمار کو دیکھیں تو مارچ میں جو 52 اراکین ریٹائر ہورہے ہیں، ان میں سے 34 کا تعلق اپوزیشن جماعتوں جبکہ 18 حکومتی بینچوں سے ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں