ماں کا دودھ بچوں کو بعد کی زندگی میں کس طرح امراض سے بچاتا ہے؟

17 جنوری 2021
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

ماں کا دودھ پی کر پرورش پانے والے بچوں کا مدافعتی نظام بعد کی زندگی میں زیادہ بہتر طریقے سے کام کرکے انہیں امراض سے محفوظ رکھتا ہے۔

یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

برمنگھم یونیورسٹی اور برمنگھم ویمنز اینڈ چلڈرنز این ایچ ایس فاؤنڈیشن کی اس تحقیق میں اس حیاتیاتی میکنزم کا انکشاف کیا گیا جو ماں کے دودھ پینے والے بچوں کی صحت پر طویل المعیاد بنیادوں پر اثرات مرتب کرتا ہے۔

طبی سائنس پہلے ہی بتاچکی ہے کہ ماں کا دودھ نومولود بچوں کے لیے مثالی غذا ہے، جو ان کو جان لیوا امراض سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔

سابقہ تحقیقی رپورٹس میں ثابت ہوا ہے کہ ماں کے دودھ سے جوانی میں صحت کے مسائل جیسے موٹاپے، ذیابیطس اور دیگر سے بھی تحفظ ملتا ہے۔

تاہم اب تک ان مثبت اثرات کے پیچھے چھپے امیونولوجیکل میکنزمز کے بارے میں اب تک زیادہ معلوم نہیں ہوسکا تھا۔

اس نئی تحقیق میں پہلی بار مدافعتی خلیات کی ایک مخصوص قسم کو دریافت کیا گیا جو زندگی کے اولین 3 ہفتوں کے دوران ماں کا دودھ پینے والے بچوں میں نشوونما پاتا ہے اور فارمولا ملک پینے والے بچوں کے مقابلے میں ان میں یہ تعداد لگ بھگ دوگنا زیادہ ہوتی ہے۔

یہ مخصوص خلیات ٹی سیلز کو ریگولیٹ کرتے ہیں جو بیماریوں کے خلاف لڑتے ہیں، جبکہ یہ خلیات دودھ کے ساتھ ماں سے منتقل ہونے والے خلیات کے خلاف ردعمل ظاہر کرکے ورم کم کرتے ہیں۔

تحقیق میں یہ بھی ثابت کیا گیا کہ ماں کے دودھ پر پرورش پانے والے بچوں کے معدے میں ٹی سیلز کے افعال کو معاونت فراہم کرنے والے مخصوص بیکٹریا کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے الرجی میں شائع ہوئے، جس میں بریسٹ فیڈنگ کی اہمیت پر زور دیا گیا۔

محققین کا کہنا تھا کہ ماں کے دودھ کے بچوں کی نشوونما کے دوران مدافعتی ردعمل پر مرتب اثرات پر پہلے کام نہیں کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں ماں کے دودھ کی اہمیت اور ابتدائی زندگی میں مخصوص خلیات کی سرگرمیوں کے بارے میں زیادہ علم نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں توقع ہے کہ ان نتائج سے بریسٹ فیڈنگ کی شرح میں اضافہ ہوگا اور ہم مستقبل قریب میں زیادہ سے زیادہ بچوں کی صحت پر اس کے مثبت اثرات کو دیکھیں گے۔

اس تحقیق کے دوران 3 سال تک 38 صحت مند ماؤں اور ان کے صحت مند بچوں کو شامل کیا گیا تھا۔

ان بچوں کے پیدائش کے موقع پر خون اور فضلے کے نمونوں کی کچھ مقدار جمع کی گئی تھی اور پھر پیدائش کے 3 ہفتوں بعد دوبارہ نمونے حاصل کیے گئے۔

تحقیق کے دورانیے کے دوران ان 38 میں سے 16 بچوں کی غذا ماں کا دودھ تھی جبکہ 9 بچوں کو مکس فیڈنگ اور 13 بچوں کو صرف فارمولا ملک استعمال کرایا گیا۔

محققین کے توقع ہے کہ مستقبل میں تحقیق کے دوران بیماری اور قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کے حیاتیاتی میکنزم کو جاننے میں مدد مل سکے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں