دیمک کی طرح ہمارے نوجوانوں کو ضائع کرتی منشیات پر خاموشی کب تک؟

19 جنوری 2021
اگر حکومت ایچ آئی وی ایڈز کو صحت کے لیے خطرہ قرار دے سکتی ہے تو پھر منشیات کے حوالے سے تذبذب کا شکار کیوں ہے؟
اگر حکومت ایچ آئی وی ایڈز کو صحت کے لیے خطرہ قرار دے سکتی ہے تو پھر منشیات کے حوالے سے تذبذب کا شکار کیوں ہے؟

14 سالہ عبید رحمت (فرضی نام) اس وقت اسلام آباد میں واقع نشے سے بحالی کے ایک نجی کلینک میں زیرِ علاج ہے۔ حشیش کے علاوہ وہ ہیروئن اور کرسٹل کا نشہ بھی کرتا تھا۔

عبید نے اس وقت سے نشہ کرنا شروع کیا جب وہ صرف 6 سال کا تھا۔ وہ پشاور ڈویژن کے ضلع خیبر میں رہتا ہے اور وہاں نشہ کرنا عام بات ہے۔ اس نے ای او ایس کو بتایا کہ ’ہمارے علاقے میں حشیش کا نشہ کرنا بُرا نہیں سمجھا جاتا، خاص طور پر شادی بیاہ اور دیگر خوشی کے موقعوں پر‘۔ اس نے پہلی مرتبہ حشیش کا نشہ اپنی بڑی بہن کی شادی پر کیا تھا۔

عبید اب 9ویں جماعت میں پڑھتا ہے۔ اس نے کہا کہ ’حشیش کا نشہ کرنے سے پہلے میں ایک عام زندگی جی رہا تھا، پھر میں نے ہیروئن کا نشہ بھی شروع کردیا، لیکن جب سے میں نے کرسٹل کا نشہ شروع کیا تو میری زندگی جہنم بن گئی‘۔

اس کے والد رحمت خان (فرضی نام) کا کہنا تھا کہ اپنے بیٹے کو علاج کے لیے اسلام آباد لانا معاشی طور پر ان کے لیے بہت مشکل تھا لیکن یہ اس کی زندگی کے لیے بہت ضروری تھا۔

رحمت خان کو عبید کی بگڑتی ہوئی صحت اور پڑھائی میں اس کی عدم دلچسپی کی وجہ سے تشویش لاحق تھی۔ جس دن انہیں عبید کے کرسٹل میتھ کا نشہ کرنے کے بارے میں معلوم ہوا وہ دن ان کے لیے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں تھا۔ انہوں نے کوشش کی کہ قبائلی علاقہ جات کے کوٹے پر عبید کو اسلام آباد میں واقع اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف) کے تحت چلنے والے ماڈل ایڈکشن ٹریٹمنٹ اینڈ ری ہیبلیٹیشن سینٹر (MATRC) میں داخل کرلیا جائے لیکن اسے وہاں جگہ نہیں ملی۔

رحمت خان نے بتایا کہ ’پشاور میں کچھ نجی کلینک موجود ہیں لیکن مجھ جیسا غریب آدمی ان کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتا‘۔ اسلام آباد کے کچھ نجی کلینک پشاور کے کلینک کی نسبت سستے تھے اور انہوں نے ایسے ہی ایک کلینک کا انتخاب کیا۔

اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے منشیات و جرائم (UNODC) نے 2013ء میں پاکستان میں منشیات کے استعمال پر شائع ہونے والی اپنی رپورٹ میں بتایا کہ پاکستان میں نشے کے عادی افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے اور گزشتہ سال ملک میں نشہ کرنے والے افراد کی تعداد 67 لاکھ تھی۔ اس کے علاوہ 42 لاکھ افراد ایسے ہیں جو ممکنہ طور منشیات استعمال کرتے ہیں۔ ملک میں نشے سے بحالی کے مراکز اور ماہرین کی تعداد بہت کم ہے اور وہ صرف سال میں 30 ہزار افراد کو دستیاب ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر علاج مفت بھی نہیں کیا جاتا۔

اس سروے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں نشے سے چھٹکارا حاصل کرنے والے خواہش مند 99.7 فیصد افراد اس علاج کے اخراجات ہی برداشت نہیں کرسکتے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان سب سے زیادہ متاثرہ صوبے ہیں اور یہاں ہزاروں کی تعداد میں افراد اور خاص طور پر نوجوان افیم کی لت کا شکار ہیں۔

نشہ آور اشیا کے استعمال میں خیبر پختونخوا سب سے اوپر ہے، یہاں آبادی کا تقریباً 10.9 فیصد حصہ گزشتہ سال کسی نہ کسی غیر قانونی چیز کا نشہ کرچکا ہے۔ دوسری جانب بلوچستان کی آبادی کا 1.6 فیصد حصہ افیم، ہیروئن یا دونوں کا عادی ہے۔

راولپنڈی میں موجود اے این ایف ہیڈکوارٹر کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ای او ایس کو بتایا کہ اگرچہ محدود گنجائش کے بحالی مراکز ملک کے مختلف حصوں میں ضرور قائم ہیں لیکن یہ مریضوں کی بڑی تعداد کے لیے کافی نہیں ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ کوئٹہ میں 45 بستروں پر مشتمل MATRC قائم کیا گیا تھا لیکن عملے کی عدم دستیابی کی وجہ سے وہ جنوری 2016ء سے بند پڑا ہے۔ پشاور، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور سابقہ فاٹا میں اے این ایف کے تحت نشے سے بحالی کا کوئی مرکز موجود نہیں ہے۔

اے این ایف کی دستاویزات کے مطابق اسلام آباد میں قائم 36 بستروں کے MATRC کی انتظار کی فہرست میں 2 ہزار 650 مریض موجود ہیں۔ MATRC کے پراجیکٹ ڈائریکٹر جبران یوسف زئی کا کہنا تھا کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے مراکز کو گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور سابقہ فاٹا کے مریضوں کا بھی علاج کرنا ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ مرکز زیادہ سے زیادہ مریضوں کا علاج کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن جب ان مریضوں کو جگہ نہ ہونے کے باعث واپس بھیجا جاتا ہے تو مریض ان کی نیت پر شک کرتے ہیں۔ ان مراکز سے رحمت اور عبید کی طرح کے بے شمار لوگ رابطہ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’MATRC سالانہ 400 مریضوں کے علاج کی صلاحیت رکھتا ہے اور ہم نے سال 2005ء سے 2019ء تک 5 ہزار 747 مریضوں کا علاج کیا ہے‘۔

پشاور میں موجود ایک اے این ایف افسر کے مطابق صوبائی حکومت نے اے این ایف کے ساتھ مل کر پشاور میں 100 بستروں پر مشتمل ایک مرکز قائم کیا تھا، لیکن اس کی تکمیل کے بعد حکومت نے اسے صوبے کے محکمہ سماجی بہبود کے حوالے کردیا کیونکہ اس محکمے کو گزشتہ سال وزیرِاعظم کی جانب سے احساس پناہ گاہ کے افتتاح کے لیے کسی عمارت کی ضرورت تھی۔

خیبر پختونخوا کے محکمہ سماجی بہبود کے سیکرٹری ادریس خان کے مطابق عمارت کی جگہ نشے کے عادی افراد کے لیے موزوں نہیں تھی اور محکمہ جلد ہی اس مرکز کے لیے پشاور میں ایک عمارت کرائے پر حاصل کرے گا۔

انہوں نے ای او ایس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کا منصوبہ ہے کہ صوبے کے ہر ضلع میں نشے سے بحالی کا ایک مرکز قائم کیا جائے۔ وہ اس حوالے سے محکمہ صحت کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں۔ لیکن اے این ایف افسر کے مطابق پشاور میں صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر ایک اور اسپتال شروع کرنے کا منصوبہ سیکرٹری کی جانب سے رد کردیا گیا تھا۔

کوئٹہ میں مقیم ایک سماجی کارکن ڈاکٹر سید رمضان نشے سے بحالی کے مراکز کی کمی کا ذمہ دار صوبائی حکومت کو قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر کوئٹہ میں نشے سے بحالی کا ایک جدید طرز کا مرکز قائم کیا تھا لیکن 2 سال بعد ہی وہ مرکز بند ہوگیا۔

اس مرکز کے بند ہونے کی کئی وجوہات تھیں۔ ڈاکٹر سید اور ان کی ٹیم کو منشیات فروشوں کی طرف سے دھمکیاں دی گئیں، اس کے علاوہ صوبائی محکمہ سماجی بہبود نے بھی ان پر عمارت کے استعمال کے حوالے سے مقدمہ دائر کردیا۔ جن دنوں یہ مرکز فعال تھا ایک صوبائی وزیر نے بھی اس کا دورہ کیا تھا اور اس کی مدد کرنےکا وعدہ بھی کیا تھا لیکن وہ کبھی پورا نہ ہوا۔

ڈی ٹاکسیفیکیشن اینڈ ری ہیبلیٹیشن کمپلیکس (DRC) کوئٹہ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر جاوید بلوچ کے مطابق ’کوئی بھی ذمہ داری اٹھانے کو تیار نہیں ہے‘۔ ان کے مطابق 2008ء سے 2019ء تک DRC کو ادوایات کی خریداری کے لیے صرف 10 لاکھ روپے اور مریضوں کی خوراک کی مد میں صرف 30 لاکھ روپے دیے گئے۔ جہاں تک سہولیات کی بات ہے تو یہاں بھی صورتحال MATRC کی طرح ہے۔

ڈاکٹر جاوید بلوچ کے مطابق ’ہمارے پاس 250 بستروں پر مشتمل مرکز ہے، لیکن یہ تمام مریضوں کے علاج کے لیے کافی نہیں ہے۔ چونکہ مریضوں کی تعداد گنجائش سے زیادہ ہے اس لیے ہم ان کا نام انتظار والی فہرست میں ڈال دیتے ہیں‘۔

ڈاکٹر جاوید نے خبردار کیا ہے کہ اگر ریاستی اداروں نے اس مسئلے پر توجہ نہیں دی تو حالات قابو سے باہر ہوجائیں گے۔ انہوں نے پاک- افغان سرحدی علاقوں میں منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال پر بھی توجہ دلائی ہے۔

UNODC کی ایک اور رپورٹ The Global Afghan Opium Trade 2011 کے مطابق 2009ء میں پاکستان کے راستے اسمگل ہونے والی 350 سے 400 ٹن افغان افیم میں سے 132 ٹن افیم پاکستان میں ہی استعمال ہوگئی۔ ایک اندازے کے مطابق 2009ء میں ہی افغاستان سے کل 160 ٹن ہیروئن پاکستان میں داخل ہوئی اور اس میں سے تقریباً 20 ٹن ہیروئن یہیں استعمال ہوئی۔

ڈاکٹر سید کے مطابق منشیات کی آسانی سے دستیابی اور بحالی مراکز کی کمی نے بلوچستان میں صورتحال بہت سنگین بنادی ہے۔

آخر کون ذمہ داری اٹھائے گا؟

2014ء میں اقوامِ متحدہ نے یہ تجویز پیش کی کہ نشے کی عادت کو ایک طبّی مسئلے کے طور پر دیکھا جائے اور رکن ممالک اپنے نظام ہائے صحت کے ذریعے اس کا حل تلاش کریں۔

پاکستان میں UNODC کے مشیر ڈاکٹر منظور الحق کا کہنا ہے کہ ’اس مسئلے کے حوالے سے ریاستی اداروں کے اقدامات میں ہم آہنگی نہیں ہے۔ اقوامِ متحدہ نے منشیات کی لت کو صحت کے لیے خطرہ قرار دیا ہے اور اس کے لیے ریاست کی جانب سے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہ ایک طبّی معاملہ ہونا چاہیے لیکن پاکستان میں اسے محکمہ سماجی بہبود کے حوالے کردیا گیا ہے جس کا اصل کام ان مریضوں کی بحالی ہونا چاہیے جن کا علاج مکمل ہوچکا ہو‘۔

سائیک ایڈ (PsychAid) اسلام آباد کے ڈائریکٹر فرمان علی طوری کا کہنا ہے کہ ’اگر حکومت ایچ آئی وی ایڈز کو صحت کے لیے خطرہ قرار دے سکتی ہے تو پھر منشیات کے حوالے سے تذبذب کا شکار کیوں ہے؟ آخر انجیکشن کے ذریعے استعمال کی جانے والی منشیات بھی ایچ آئی وی ایڈز کی بڑی وجہ ہے‘۔

وفاقی سیکرٹری صحت، جناب اللہ بخش کے مطابق ان کی وزارت گلوبل فنانسنگ فیسیلیٹی (GFF) کے تحت بحالی مراکز کے لیے صوبوں کی مدد کررہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد اور پورے پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں میں منشیات کے عادی افراد کے لیے خصوصی وارڈز قائم ہیں۔

تاہم مریضوں کے ساتھ بہت ہی بُرا رویہ روا رکھا جاتا ہے۔ اسلام آباد کے پمز ہسپتال کے ایک ماہرِ نفسیات نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’ہسپتال میں 20 بستروں کا نفسیاتی وارڈ تو موجود ہے لیکن وہ اس میں منشیات کے عادی افراد کے بجائے دیگر مریضوں کو رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے مطابق منشیات کے عادی مریض کو رکھنا ’وقت اور پیسے کا ضیاع ہے‘ کیونکہ ’99 فیصد مریض تعاون نہیں کرتے اور مریض کے تعاون کے بغیر نشے کی لت کا علاج ممکن نہیں ہے‘۔

وزارت انسدادِ منشیات کے ایک سینئر بیوروکریٹ کا کہنا تھا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز نے منشیات کے عادی افراد کے علاج کے لیے الگ طریقہ اختیار کیا ہوا ہے۔ ان میں سے اکثر کلینک انسدادِ منشیات ایجنسی کی جانب سے دیے گئے عالمی معیارات کا خیال نہیں رکھتے اور انہیں تربیت یافتہ عملے کی بھی قلت کا سامنا ہوتا ہے۔ وزارت انسدادِ منشیات نے ایک نئی ریگولیٹری اتھارٹی کے بل کا خاکہ ارسال کیا ہے اور وزیرِاعظم نے اسے منظوری کے لیے وزارتِ صحت کو ارسال کردیا ہے۔

اس بل پر اب تک کوئی کام نہیں ہوا ہے۔

DRC کوئٹہ کے جاوید بلوچ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ آگے بڑھنے کا صرف یہی راستہ ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کی ذمہ داریوں کا تعین کیا جائے۔ مزید یہ کہ منشیات کے عادی افراد کا علاج محکمہ صحت کی ذمہ داری ہونی چاہیے اور ان کی بحالی کی ذمہ داری محکمہ سماجی بہبود کی ہونی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اگر تمام اسٹیک ہولڈرز کے اقدامات میں ہم آہنگی ہوگی تو ہی اس صورتحال پر قابو پایا جاسکتا ہے، لیکن موجودہ حالات میں تو یہ ناممکن نظر آتا ہے‘۔

اگرچہ منشیات ملک میں لاکھوں زندگیوں کو تباہ کرچکی ہیں لیکن ریاست اور معاشرہ اب بھی اس کو سنجیدہ مسئلے کے طور پر نہیں دیکھ رہا۔ فرمان طوری کا کہنا تھا کہ ’یہ منشیات ہماری صحت، معیشت اور سیاست پر بلواسطہ یا بلاواسطہ اثرانداز ہورہی ہیں۔ ہمیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ منشیات کی لت نے ہمارے معاشرے میں اپنی جڑیں مضبوط کرلی ہیں‘۔

نوجوان عبید کی طرح منشیات کی لت کے شکار افراد کو فوری مدد کی ضرورت ہے۔ ان کو عام طرح سے زندگی جینے سے مزید نہیں روکنا چاہیے۔


یہ مضمون 15 نومبر 2020ء کو ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں