پاکستان نے چین کی کمپنی فائنو فارم کی تیار کردہ کووڈ 19 ویکسین کی ہنگامی حالات میں استعمال کی منظوری دے دی ہے۔

اس منظوری کے بعد ویکسین کو پاکستان میں لانے کی راہ ہموار ہوگئی ہے، جس کی 11 لاکھ ڈوز کی بکنگ کرائی جاچکی ہے۔

اس سے قبل 16 جنوری کو ڈریپ نے برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی اور دوا ساز کمپنی ایسٹرا زینیکا کی کووڈ 19 ویکسین کی پاکستان میں استعمال کی منظوری دی تھی، تاہم اس کی آمد جلد متوقع نہیں۔

اس ویکسین کو سائنو فارم کے لیے بیجنگ انسٹیٹوٹ آف بائیولوجیکل پراڈکٹس نے تیار کیا ہے، جسے بی بی آئی بی پی۔ کور وی کا نام دیا گیا ہے۔

2020 کے آغاز میں چین میں کورونا وائرس کی وبا کے ساتھ اس ویکسین کے ٹرائلز کا آغاز ہوا تھا اور جنوری کے شروع میں چین میں اس کے استعمال کی منظوری دی گئی۔

بحرین، مصر اور متحدہ عرب امارات میں بھی اس کے استعمال کی منظوری دی جاچکی ہے اور استعمال بھی کیا جارہا ہے۔

کورونا وائرسز سے تیار کردہ ویکسین

یہ ویکسین مدافعتی نظام کو نئے کورونا وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز تیار کرنے کی تربیت دیتی ہے، یہ اینٹی باڈیز وائرل پروٹینز یعنی اسپائیک پروٹینز سے منسلک ہوتی ہیں۔

اسپائیک پروٹینز ہی کورونا وائرس کو انسانی خلیات میں داخلے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

ویکسین کو تیار کرنے کے لیے بیجنگ انسٹیٹوٹ کے محققین نے چین کے ہسپتالوں میں زیرعلاج مریضوں سے کورونا وائرس کی 3 اقسام کو حاصل کیا تھا اور اس میں سے اس قسم کا انتخاب کیا جو بندر کے گردوں کے خلیات میں بہت تیزی سے اپنی تعداد بڑھانے میں کامیاب ہوئی۔

ویکسین کے لیے اس وائرس کی ناکارہ قسم کا استعمال کیا گیا ہے جو بیمار نہیں کرتی بلکہ مدافعتی نظام کی تربیت میں مدد فراہم کرتی ہے۔

وائرس کو ختم کرنا

ایک بار جب محققین نے کورونا وائرسز کے ذخائر بڑھانے میں کامیاب ہوگئے، تو اس کے بعد انہوں نے اس کو ایک کیمیکل بیٹا پرو پائیولیکٹون میں ڈبو دیا۔

یہ مرکب کورونا وائرسز کے جینز کو آپس میں جوڑ کر غیرفعال کردیتا ہے، جس کے بعد وہ اپنی نقول نہیں بناپاتے، مگر ان کے پروٹینز بشمول اسپائیک پروٹینز موجود رہتے ہیں۔

اس کے بعد محققین نے ان غیرفعال وائرسز کو اکٹھا کیا اور انہیں المونیم پر مبنی ایک مرکب ایڈجونٹ میں مکس کردیا۔

یہ مرکب مدافعتی نظام کو متحرک کرکے ایک ویکسین کے لیے اس کے ردعمل کو مضبوط بناتا ہے۔

ویکسینز کی تیاری کے لیے غیرفعال وائرسز کا استعمال عرصے سے کیا جارہا ہے، 1950 کی دہائی میں اسی طریقے سے پولیو ویکسین تیار ہوئی تھی اور ہیپاٹائٹس اے اور دیگر ویکسینز بھی اس طریقہ کار کے تحت تیار کی گئیں۔

مدافعتی ردعمل کو متحرک کرے

چونکہ اس ویکسین میں موجود کورونا وائرسز ناکارہ ہوتے ہیں، تو ان کو جسم میں داخل کرنے سے کووڈ 19 کا سامنا نہیں ہوتا۔

مگر جسم کے اندر جانے کے بعد ان میں سے کچھ غیرفعال وائرسز کو ایک قسم کے مدافعتی خلیات نگل لیتے ہیں جن کو اینٹی جن سیل بھی کہا جاتا ہے۔

یہ خلیات کورونا وائرس کے ٹکڑے کردیتے ہیں اور اس کے کچھ ذرات اپنی سطح پر چھوڑ دیتے ہیں، جس کے بعد مددگار ٹی سیل ان ذرات کو شناخت کرتا ہے۔

اگر یہ ذرات اس کی سطح کے پروٹینز میں کسی ایک سے مطابقت رکھتا ہو تو وہ متحرک ہوتا ہے اور دیگر مدافعتی خلیات کو اکٹھا کرکے ویکسین کے لیے ردعمل کو بناتا ہے۔

اینٹی باڈیز کی تیاری

ایک اور قسم کے مدافعتی خلیات بی سیل کا بھی سامنا اس غیرفعال کورونا وائرس سے ہوسکتا ہے۔

بی سیلز کی سطح میں مختلف ساخت کے پروٹینز ہوتے ہیں اور ان میں سے کچھ کورونا وائرس کو اپنی جانب للچا سکتے ہیں۔

جب بی سیل کورونا وائرس کو جکڑ لیتا ہے تو وہ وائرس کو اپنے اندر کھینچ کر کورونا وائرس کے ذرات کو اپنی سطح پر پھیلا دیتا ہے۔

مددگار ٹی سیل کورونا وائرس کے خلاف متحرک ہوکر انہیں ان ذرات کی جانب کھینچتا ہے، جب ایسا ہوتا ہے تو بی سیلز بھی متحرک ہوجاتے ہیں۔

اس کے نتیجے میں اینٹی باڈیز کا جسم میں اخراج ہوتا ہے جو وائرس کے خلاف لڑتی ہیں۔

وائرس کو روکنا

اس ویکسین کے استعمال کے بعد مدافعتی نظام زندہ کورونا وائرسز سے ہونے والی بیماری کے خلاف ردعمل ظاہر کرتا ہے، بی سیلز اینٹی باڈیز بناتے ہیں جو حملہ آور وائرس سے چپک جاتی ہیں۔

اینٹی باڈیز اسپائیک پروٹین کو ہدف بناکر وائرس کو خلیات میں داخلے سے روکتی ہیں، دیگر اقسام کی اینٹی باڈیز ممکنہ طور پر وائرس کو دیگر طریقوں سے بلاک کرسکتی ہیں۔

وائرس کو یاد رکھنا

اس ویکسین کے کلینیکل ٹرائلز میں دریافت کیا گیا کہ اس کے استعمال سے لوگوں کو کووڈ 19 کے خلاف تحفظ ملتا ہے، تاہم یہ ابھی کہنا ممکن نہیں کہ یہ تحفظ کتنے عرصے تک برقرار رہ سکتا ہے۔

ایسا ممکن ہے کہ چند ماہ بعد اینٹی باڈیز کی سطح میں کمی آجائے، مگر مدافعتی نظام میں ایسسے خصوصی خلیات بھی ہوتے ہیں جن کو میموری بی سیلز کہا جاتا ہے، جو ممکنہ طور پر برسوں یا دہائیوں تک کورونا وائرس سے متعلق معلومات کو اپنے اندر محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

افادیت

چین میں اس ویکسین کے ٹرائل کے نتائج میں بتایا گیا تھا کہ یہ کووڈ 19 سے تحفظ فراہم کرنے میں 79.34 فیصد مؤثر ہے۔

تجزیے میں بتایا گیا کہ یہ ویکسین محفوظ ہے اور جن افراد کو اس کے 2 ڈوز استعمال کرائے گئے، ان میں وائرس کے خلاف 99.52 فیصد اینٹی باڈیز کی سطح پیدا ہوئی۔

9 دسمبر کو متحدہ عرب امارات کے حکام نے بتایا تھا کہ یہ ویکسین آخری مرحلے کے ابتدائی تجزیے میں بیماری کو روکنے میں 86 فیصد تک مؤثر ہے۔

چین میں اس ویکسین کا استعمال جولائی 2020 سے ہنگامی استعمال کے پروگرام کے تحت ہورہا ہے۔

اس ویکسین کو روایتی ٹرانسپورٹ اور اسٹوریج کے ساتھ زیادہ پروڈکشن گنجائش کا فائدہ حاصل ہے، یعنی اس کو 2 سے 8 ڈگری درجہ حرارت میں ٹرانسپورٹ کیا جاسکتا ہے اور 24 ماہ تک اس کی حالت مستحکم رہتی ہے۔

اس کے لیے جو کولڈ اسٹوریج سہولیات درکار ہیں وہ پہلے ہی بیشتر ممالک میں موجود ہیں۔

ووہان اور بیجنگ میں سینوفارم کے 2 مراکز اگلے سال تک ویکسین کے ایک ارب ڈوز تیار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں