سول سروس اصلاحات، افسران کی ترقی کا کڑا معیار مقرر، 'جبری' ریٹائرمنٹ کی راہ ہموار

اپ ڈیٹ 21 جنوری 2021
نئے قواعد کے تحت کسی سرکاری افسر کے خلاف انکوائری کا فیصلہ تقریبا 105 روز میں ہوگا—فائل فوٹو: کری ایٹو کامنز
نئے قواعد کے تحت کسی سرکاری افسر کے خلاف انکوائری کا فیصلہ تقریبا 105 روز میں ہوگا—فائل فوٹو: کری ایٹو کامنز

وفاقی حکومت نے سول سروس میں اصلاحات کے لیے مختلف قواعد کی منظوری دے دی جن کے تحت غیر ذمہ دار افسران کی سرکاری ملازمت سے 'جبری' ریٹائرمنٹ کی راہ ہموار جبکہ بیوروکریٹس کی ترقی کا سخت معیار متعارف کروایا گیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیر تعلیم اور کابینہ کمیٹی برائے اصلاحات کے چیئرمین شفقت محمود نے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان اصلاحات کا اعلان کیا۔

انہوں نے بتایا کہ ترقی کے معیار پر نظر ثانی کی گئی ہے جس میں 40 فیصد پرسنل ایویلو ایشن رپورٹس (پی ای آرز) اور 30، 30 فیصد سینٹرل سلیکشن بورڈ کے ذریعے تربیت اور جائزے کا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: سرکاری افسران کی ترقیوں کا معاملہ قانونی پیچیدگی کے باعث التوا کا شکار

انہوں نے مزید بتایا کہ 3 پرفارمنس ایویلو ایشن رپورٹس (پی ای آرز) میں مخالفانہ ریمارکس یا زیادہ تر اوسط پی ای آرز اور 2 مرتبہ برطرفی ڈائریکٹری ریٹائرمنٹ کی بنیاد بن سکتی ہے۔

نئے قواعد کے تحت کسی سرکاری افسر کے خلاف انکوائری کا فیصلہ تقریبا 105 روز میں ہوگا جس میں 14 روز جواب جمع کروانے، 60 روز انکوائری کمیٹی جبکہ 30 روز حکام کے کیس کا فیصلہ کرنے کے ہیں۔

اس سے قبل ایسی کارروائی کے لیے کوئی تکمیل کے لیے کوئی ٹائم فریم مختص نہیں تھا جس کے نتیجے میں اس قسم کے کیسز برسوں لٹکے رہتے تھے۔

علاوہ ازیں حکام یا سماعت کرنے والا افسر اس عہدیدار کو ذاتی سماعت کا موقع بھی دے گا جس کے خلاف انکوائری کی جارہی ہو۔

شفقت محمود نے بتایا کہ پلی بارگین اور رضاکارانہ طور پر واپسی کو مس کنڈنکٹ کی تعریف میں شامل کرلیا گیا ہے اور اس عمل میں ملوث سرکاری ملازمین کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔

مزید پڑھیں: حکومت کا طرز حکمرانی میں بہتری کیلئے اہم سول سروس اصلاحات کا اعلان

نئے قواعد کا سب سے اہم پہلو انکوائری کے کیس سے متعلق ہے اور معاملے کا فیصلہ کرنے کے لیے کسی مجاز افسر کو مقرر کرنے کے بجائے اب کیس کی سماعت اتھارٹی، انکوائری افسر یا کمیٹی کرے گی۔

قبل ازیں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جب بھی کسی عہدیدار کو انکوائری کرنے کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے تو وہ عام طور پر معمولی سزا دے کر یا کسی دباؤ یا اثر کے تحت معاملہ ختم کردیتا تھا۔

وزیر نے بتایا کہ اس افسر کے پاس یہ اختیار بھی ہوتا تھا کہ جتنا وقت اسے مناسب لگے اس میں فیصلہ کرے لیکن اب اتھارٹی کو 30 روز میں فیصلہ کرنا ہوگا۔

نئے قواعد کے مطابق صوبوں میں پاکستان ایڈمنسٹریشن سروس (پی اے سی) اور پولیس سروس پاکستان کے افسران تعینات ہونے کی صورت میں چیف سیکریٹری کو فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ جمع کروانے کے لیے 2 ماہ کی ٹائم لائن فراہم کی گئی ہے جس میں ناکامی پر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن خود کارروائی کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں: ریٹائرمنٹ کے قواعد سرکاری افسران کیلئے تشویش کا باعث

علاوہ ازیں ہر اقدام کے لیے ٹائم لائن متعارف کروائی گئی ہے، جس میں ریکارڈ کی فراہمی، محکمے کے نمائندوں کی جانب سے سست روی، ڈیپوٹیشن/تعطیلات/اسکالر شپ پر موجود افسران کے خلاف کارروائی سے متعلق معاملات بھی نئے قواعد میں واضح کردیے گئے ہیں۔

قواعد میں مزید کہا گیا کہ انکوائریز کو حتمی شکل دینے کے لیے کسی تاخیر سے بچنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن ضمنی احکامات جاری کرنے کا مجاز ہے۔

اگر کسی ایک کیس میں مختلف افسران ملزم پائے گئے تو واحد انکوائری افسر تعینات کرنے کی پابندی لاگو ہوگی تا کہ شفافیت کو یقینی بنایا جاسکے اور ایک کیس میں مختلف فیصلوں سے بچا جاسکے۔

شفقت محمود نے بتایا کہ سول سروس کے لیے مختلف اصلاحات منظور کی گئی ہیں جن میں سول سروس پروموشن (بی-ایس 21) رولز 2019، سول سرونٹس (ڈائریکٹری ریٹائرمنٹ فرام سروس) رولز 2020، ایفیشنسی اینڈ ڈسپلنز رولز 2020، ریوائزڈ ایم پی اسکیل پالیسی 2020، روٹیشن پالیسی 2020 اور ریشنلائزیشن آف کیڈر اسٹرینتھن انٖڈکشن ان پی اے ایس شامل ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں