کراچی کمیٹی اجلاس میں تکرار پر وزیراعلیٰ اور علی زیدی کا وزیراعظم کو خط، مداخلت کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 23 جنوری 2021
وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور وفاقی وزیر علی حیدر زیدی کے درمیان کراچی کمیٹی کے اجلاس میں تلخ کلامی ہوئی تھی— فائل فوٹوز: ڈان نیوز
وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور وفاقی وزیر علی حیدر زیدی کے درمیان کراچی کمیٹی کے اجلاس میں تلخ کلامی ہوئی تھی— فائل فوٹوز: ڈان نیوز

کراچی کمیٹی کے اجلاس میں تکرار کے بعد وفاقی وزیر علی حیدر زیدی اور وزیر اعلیٰ سندھ آمنے سامنے آگئے ہیں اور دونوں اعلیٰ شخصیات نے وزیر اعظم کو خط لکھ کر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

کراچی میں ترقیاتی کاموں کے لیے قائم کمیٹی کے 16 جنوری کو ہونے والے اجلاس میں وفاقی وزیر علی حیدر زیدی اور وزیر اعلیٰ کے درمیان تلخ کلامی کی رپورٹس سامنے آئی تھیں۔

مزید پڑھیں: وفاق، صوبے میں تعاون کو علی زیدی کی وجہ سے نقصان پہنچا ہے، سعید غنی

علی حیدر زیدی نے آج سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنی ٹوئٹس کے سلسلے میں اس بات کی تصدیق کرنے کے ساتھ ساتھ مراد علی شاہ اور ان کی جانب سے وزیر اعظم کو لکھے گئے خطوط اور اس حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ کراچی ٹرانسفارمیشن کمیٹی کے 16 جنوری کو ہونے والے اجلاس کے حوالے سے کئی افواہیں/ کہانیاں زیر گردش ہیں اور اصل سچ یہ ہے کہ میں نے وزیر اعلیٰ سے درخواست کی کہ سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی جیسے اداروں کو ڈویژنل/ضلعی سطح پر تحلیل کریں جس کا انہوں نے چند ماہ قبل وعدہ کیا تھا۔

اگلی ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ نے مجھے جواب دیا کہ میں آپ کو جوابدہ نہیں ہوں تو اگر وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ اپنے صوبے سے منتخب قومی اسمبلی کے رکن تک کو جوابدہ نہیں ہیں تو مجھے اس اجلاس میں بیٹھ کر مزید وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور میں اجلاس سے باہر گیا۔

اس موقع پر انہوں نے وزیر اعلیٰ اور اپنی جانب سے وزیر اعظم کو لکھے گئے خطوط کی تصاویر بھی شیئر کیں اور مراد علی شاہ کی جانب سے لکھے گئے خط کے متن پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے آداب کے منافی قرار دیا۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے 17 جنوری کو وزیراعظم کو لکھے گئے خط میں موقف اختیار کیا ہے کہ ستمبر 2020 میں ہمارے اجلاس کے نتیجے میں کراچی کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس میں وفاقی اور صوبائی حکومت دونوں کے تین، تین اراکین شامل کیے گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ اس کمیٹی میں علی زیدی بھی شامل تھے جس کا مقصد ترقیاتی کاموں میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنا تھا اور تمام تر اختلافات کے باوجود وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان بہتر روابط پر توجہ مرکوز کرنا تھا اور اس سلسلے میں متعدد اجلاس منعقد بھی ہوئے۔

خط کے متن میں کہا کہ 16جنوری 2021 کو وزیر اعلیٰ ہاؤس میں کمیٹی کا دوبارہ اجلاس منعقد ہوا جس کے اختتام پر علی زیدی نے میرے خلاف کمیٹی کے تمام اراکین کے سامنے انتہائی معاندانہ اور جھگڑالو رویہ اپنایا جس کی وفاقی وزیر سے ہرگز توقع نہیں تھی اور اس پر فوری کارروائی ہونی چاہیے تھی لیکن کمیٹی کے اغراض و مقاصد کو مدنطر رکھتے ہوئے ان کے رویے کو نظر انداز کردیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ علی زیدی نے اس طرح کا رویہ اپنایا ہو اور اس خط کے ذریعے میں علی زیدی کے رویے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے توقع کرتا ہوں کہ آپ ان کے خلاف کارروائی کریں گے۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے خط کے اختتام میں کہا کہ میں توقع کرتا ہوں کہ مستقبل میں اتنی اہم عہدے پر تقرری کرتے ہوئے کسی حد تک سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے گا۔

وزیر اعلیٰ سندھ کے خط کے جواب میں علی حیدر زیدی نے وزیر اعظم کو لکھے گئے خط میں موقف اپنایا کہ کراچی ترقیاتی منصوبے کے حوالے سے کمیٹی کے اجلاس میں میرے خراب رویے کے حوالے سے لگائے گئے الزامات مافیا کے عزائم کی عکاسی کرتے ہیں۔

انہوں نے اجلاس کا احوال بتاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اجلاس کے اختتام پر میں نے وزیر اعلیٰ سندھ کو ایک مرتبہ پھر یاد دہانی کرائی کہ وہ سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی جیسے اداروں کو ڈویژنل/ضلعی سطح پر تحلیل کرنے کے وعدے کو پورا کریں اور اس کام کی تکمیل کی مدت کے ساتھ ساتھ اسے 'منٹس آف دی میٹنگ' میں بھی شامل کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے مستقل تین مرتبہ اصرار کے باوجود وہ اس سے انکار کرتے رہے، ہر مرتبہ ان کا جواب یہ ہوتا کہ 'میں آپ کو جوابدہ نہیں ہوں'، میں وہاں ذاتی حیثیت میں موجود نہیں تھا بلکہ وفاقی حکومت کی نمائندگی کر رہا تھا، لہٰذا وہ کمیٹی کے اراکین کو جوابدہ ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 'علی زیدی میرے ساتھ کسی بھی ٹی وی چینل پر بیٹھنے کو تیار نہیں ہے'

ان کا کہنا تھا کہ میں اس کراچی شہر سے منتخب رکن قومی اسمبلی ہوں جہاں یہ ترقیاتی منصوبے مکمل کیے جائیں گے لہٰذا وزیر اعلیٰ مجھے جوابدہ ہیں۔

رکن قومی اسمبلی نے لکھا کہ وزیر اعلیٰ نے گزشتہ 6 ماہ کے دوران متعلقہ اداروں کو ڈویژنل سطح پر تحلیل کرنے کا مختلف مذاکرات میں وعدہ کیا ہے لیکن اس سلسلے میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی، وہ تحلیل کے حوالے سے گفتگو سے مستقل پہلو تہی برت رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ کے الزامات احتساب سے بچنے کی کوشش ہے اور ان کی حکومت جان بوجھ کر اس کی اجازت دے رہی ہے، کئی دہائیوں سے جاری ان کی حکومت کی منافقت اور نااہلی کی وجہ سے ان کے پاس دکھانے کو لوٹ مار کے سوا کچھ نہیں، وفاقی حکومت نے کراچی کے انفراسٹرکچر میں بہتری اور سندھ کی ترقی کے سلسلے میں ان کی مدد کے لیے اضافی اقدامات کیے لیکن یہ انتہائی ناقابل معافی اور شرم کی بات ہے کہ وزیر اعلیٰ کی سازش کے نتیجے میں اعلیٰ سطح کی کمیٹی کے محض اس بات پر متعدد اجلاس ہوئے ہیں کہ برساتی نالوں اور کچرے کی صفائی جیسے بنیادی امور کیسے انجام دیے جائیں گے۔

علی زیدی نے کہا کہ ان بنیادی شہری مسائل پر کوئی اقدامات نہیں کیے گئے اور وزیر اعلیٰ سندھ اپنی نااہلی چھپانے کے لیے بے بنیاد باتیں کر رہے ہیں، اگر مراد علی شاہ کراچی کے ان مسائل کے حل کے لیے مخلص نہیں ہیں تو افسوسناک امر یہ ہے کہ کوئی پیشرفت نہیں ہو سکے گی اور کراچی کے عوام اس کا نتیجہ بھگتیں گے کیونکہ شہر کو تباہ ہونے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔

اپنے خط کے اختتام میں انہوں نے وزیر اعلیٰ کی جانب سے اپنائے گئے لہجے پر احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے اسے آداب کی خلاف ورزی قرار دیا اور کہا کہ ان کے پاس منصوبوں کی تکمیل کی مدت کے حوالے سے جواب طلبی کا پورا حق ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں