اسامہ ستی قتل کیس میں تفتیشی افسر تبدیل

اپ ڈیٹ 26 جنوری 2021
اسامہ ستی کے والد کی درخواست پر تفتیشی افسر کو تبدیل کیا گیا ہے، استغاثہ کا عدالت میں بیان - فائل فوٹو:شکیل قرار
اسامہ ستی کے والد کی درخواست پر تفتیشی افسر کو تبدیل کیا گیا ہے، استغاثہ کا عدالت میں بیان - فائل فوٹو:شکیل قرار

اسامہ ستی قتل کیس کے استغاثہ نے اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) کو کیس کے تفتیشی افسر کی تبدیلی کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے زیر حراست 5 سابق پولیس عہدیداروں کا مزید جسمانی ریمانڈ طلب کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اے ٹی سی جج راجا جواد عباس حسن نے سوال کیا کہ 22 دن کے جسمانی ریمانڈ میں تحقیقات کیوں نہیں مکمل ہوسکیں۔

استغاثہ نے چار روز کے ریمانڈ کی استدعا کی تاہم عدالت نے ریمانڈ میں 3 روز کی توسیع کی اور ہدایت کی کہ اس مدت کے اندر تحقیقات ختم کریں۔

استغاثہ نے ملزم مدثر اقبال، شکیل احمد، محمد مصطفٰی، سعید احمد اور افتخار احمد کو عدالت میں پیش کیا۔

وکیل راجا فیصل یونس نے عدالت کو بتایا کہ اسامہ ستی کے والد کی درخواست پر تفتیشی افسر کو تبدیل کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: اسامہ ستی کسی ڈکیتی میں ملوث نہیں تھا، جوڈیشل انکوائری رپورٹ

انہوں نے کہا کہ واقعے کے ایک عینی شاہد نے بھی رضاکارانہ طور پر اس معاملے میں بیان قلمبند کرنے کا مطالبہ کیا ہے لہذا مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کو تفتیش کے اختتام کے لیے مزید وقت دیا جاسکتا ہے۔

عدالت کی کارروائی کے دوران اسامہ ستی کے اہلخانہ نے فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس (ایف جے سی) کے باہر پرامن احتجاج کیا۔

نوجوان اسامہ ستی کا قتل

واضح رہے کہ 3 جنوری کو اسلام آباد پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے 5 اہلکاروں نے فائرنگ کرکے ایک نوجوان اسامہ ستی کو جاں بحق کردیا تھا۔

بعدازاں وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد میں نوجوان اسامہ ستی کے قتل کا نوٹس لیتے ہوئے وزارت داخلہ شیخ رشید احمد کو ہدایت کی تھی کہ وہ 24 گھنٹوں میں رپورٹ پیش کریں۔

علاوہ ازیں جوڈیشل مجسٹریٹ نے قتل میں ملوث 5 اہلکاروں کو 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔

ایف آئی آر میں والد ندیم ستی نے مؤقف اپنایا تھا کہ قتل سے ایک دن قبل ان کے بیٹے کا سی ٹی ڈی اہلکاروں کے ساتھ جھگڑا ہوا تھا اور پولیس اہلکاروں نے اسے مزہ چکھانے کی دھمکی دی تھی۔

مذکورہ ایف آئی آر کے مطابق 2 جنوری کی رات 2 بجے جب اسامہ سیکٹر ایچ-11 میں ایک دوست کو چھوڑ کر واپس آرہا تھا تو پولیس حکام نے اس کی گاڑی کو روکا اور چاروں طرف سے فائر کیے جس سے اس کی موت واقع ہوئی۔

تاہم پولیس کے ترجمان کے بیان میں یہ کہا گیا تھا کہ سیکیورٹی اہلکاروں کو تقریباً ڈیڑھ بجے کال موصول ہوئی کہ سفید گاڑی میں موجود کچھ ڈکیت سیکٹر ایچ-13 تھانہ شمس کالونی کی حدود میں ڈکیتی کرکے آرہے ہیں، اطلاع موصول ہونے پر پیٹرول ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکاروں نے ردعمل دیا اور سیاہ شیشوں والی سوزوکی کار کو روکنے کی کوشش کی۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ تاہم پولیس حکام کی جانب سے متعدد مرتبہ کہنے کے باوجود ڈرائیور نے گاڑی نہیں روکی، جس پر پولیس اہلکاروں نے 5 کلومیٹر تک اس کا پیچھا گیا لیکن ڈرائیور نے گاڑی ہلکی نہیں کی، بالآخر پولیس نے گاڑی پر فائر کیے لیکن بدقسمتی سے وہ ڈرائیور کو لگے اور وہ زخمی ہوگیا۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم نے نوجوان کے قتل کا نوٹس لے لیا، 24 گھنٹوں میں رپورٹ طلب

اس بیان میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) محمد عامر ذوالفقار خان نے فوری طور پر ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی جس کی سربراہی ڈی آئی جی وقار الدین سید کو سونپی گئی اور سب انسپکٹر افتخار احمد اور کانسٹیبلز مدثر مختار، شکیل احمد، سعید احمد اور محمد مصطفیٰ کی گرفتاری کا حکم دیا۔

بعد ازاں اسامہ ستی کے قتل سے متعلق تمام ریکارڈ سینئر افسران کی ہدایت کے تحت اسلام آباد پولیس نے سیل کردیا گیا تھا۔

پولیس افسران نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا تھا کہ ریکارڈ سیل کردیے گئے ہیں کیونکہ اس میں تضاد ہے۔

دو ریکارڈ میں دیکھا گیا تھا کہ پولیس نوجوان کی گاڑی روکنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔

علاوہ ازیں کمشنر کی ہدایت پر واقعے کی عدالتی انکوائری بھی شروع کردی گئی تھی۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ رانا محمد وقاص نے پولیس عہدیداروں کے بیانات بھی ریکارڈ کیے اور جائے وقوع کا معائنہ کیا تھا۔

بعد ازاں 8 جنوری 2021 کو سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) اسلام آباد نے قتل کیس میں ملوث محکمہ انسداد دہشت گردی کے پانچوں اہلکاروں کو برطرف کردیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں