لکھاری ماہر ماحولیات ہیں۔
لکھاری ماہر ماحولیات ہیں۔

اکثریت کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ پاکستان کو 2020ء کے لیے گرین کلائیمیٹ فنڈ (جی سی ایف) بورڈ کا شریک سربراہ بنایا گیا تھا۔ کم لوگ ہی اس بات کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔

جی سی ایف کے پاس 17 ارب ڈالر کے فنڈز ہیں اور یہ ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے ایک اہم عالمی فنڈ ہے۔

چونکہ پہلی دنیا کے ممالک اس فنڈ میں تعاون کرتے ہیں اس وجہ سے ان کے مفادات بورڈ میں رکھے گئے لیکن پاکستان نے کینیڈا کے ساتھ مل کر ان فنڈز کو تیسری دنیا کے 130 سے زیادہ ممالک کے لیے تقسیم کیا۔ یہ وہ ممالک تھے جو ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

کورونا کے باوجود گزشتہ سال واقعات سے بھرپور تھا۔ پاکستانی سیاسی قیادت نے عالمی سطح پر پُراعتماد کارکردگی دکھاتے ہوئے اپنے قد میں اضافہ کیا ہے، اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں کہ جب عالمی اداروں سے پاکستان کی آواز غائب ہوتی جارہی تھی۔

آن لائن بورڈ میٹنگوں سے جی سی ایف کا کام بغیر کسی رکاوٹ کے چلتا رہا۔ جی سی ایف نے دنیا بھر میں تقریباً 2 ارب ڈالر کے 37 منصوبے منظور کیے۔ ہماری سربراہی میں جی سی ایف نے ایک بہتر اسٹریٹجک پلان منظور کیا جس سے اس فنڈ کی سمت کا تعین ہوا۔

مزید پڑھیے: کورونا وائرس کے بعد زمیں کو نئی زندگی مبارک ہو!

گزشتہ سال کو دیکھا جائے تو 4 اہم نکات ہمارے سامنے آتے ہیں:

دنیا تبدیل ہورہی ہے۔ اس کے ساتھ چلیں

  • پاکستان کے پالیسی ساز افراد ماحولیاتی تبدیلی کو مستقبل کے مسئلے کے طور پر دیکھتے ہیں لیکن حقیقیت اس سے مختلف ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو آج بھی دنیا کے کئی ممالک کی پالیسیوں پر اثر انداز ہورہا ہے۔ 2015ء کا پیرس کلائیمیٹ چینج ایگریمنٹ بھی اسی بات کا اظہار تھا۔ دنیا نے اس مسئلہ پر کام شروع کردیا ہے۔ یورپی یونین 2030ء تک 55 فیصد آلودگی کم کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔ دوسری جانب چین 2060ء اور برطانیہ 2050ء تک صفر آلودگی کا ہدف حاصل کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔ بائیڈن کی زیر قیادت امریکا بھی اس معاہدے میں دوبارہ شامل ہوگیا ہے اور اس سے ان کوششوں کو مزید تقویت ملے گی۔

ان تاریخوں سے کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔ عالمی تبدیلی شروع ہوچکی ہے اور اس کے اثرات بھی نظر آرہے ہیں۔ عالمی سطح پر مالی معاملات بھی اب ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات سے مشروط ہوگئے ہیں۔ یورپی گرین ڈیل کا مقصد مستقبل میں ہونے والے تجارتی معاہدوں میں ’کاربن کے رساؤ‘ کو حل کرنا ہے۔

ماحول دوست پیداوار کسی بھی ملک کی برآمدات میں اضافہ کرسکتی ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ بھی اس کی تیاری کرے اور اس کا فائدہ اٹھائے ورنہ یہ موقع ہاتھ سے جاسکتا ہے۔ ملک کے مالی معمالات اور تجارتی اور معاشی مسابقت کا دار و مدار ہماری توانائی اور صنعتی پالیسی کے حوالے سے لیے جانے والے فیصلوں اور معاشی اور معاشرتی پالیسیوں میں کاربن کے اخراج کو مدنظر رکھنے پر ہوگا۔

یہ جانیں کہ پیسا کہاں موجود ہے اور اس تک کیسے رسائی حاصل کی جائے

  • پاکستان کی معاشی ترقی میں مددگار، ترقیاتی امداد کی شرائط بھی تبدیل ہورہی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک پر ماحولیات کے حوالے سے مالی معاونت کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔ کورونا کی وجہ سے آنے والی معاشی گراوٹ نے ترقیاتی امداد اور ماحولیاتی امداد کے درمیان فرق کو دھندلادیا ہے۔ پاکستان کو بھی اب اس تبدیلی کو سمجھنا ہوگا۔

عالمی سطح پر ملنے والا ماحولیاتی فنڈ ایک اچھا موقع ہے۔ اگر انہیں بہتر طریقے سے استعمال کیا جائے تو حکومت اور نجی شعبے کی جانب سے اربوں ڈالر سے نئی صنعتیں لاگائی جاسکتی ہیں اور ماحول دوست روزگار فراہم کیا جسکتا ہے۔

ماحولیات کے حوالے ملنے والی مداد کو صرف سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کا ذریعہ نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ یہ شعوری طور پر عالمی معیشت کے ساتھ جڑنے اور پائیدار ترقی کے حصول کا ایک ذریعہ بھی ہے۔

شراکت داری قائم کریں اور ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھائیں

  • جیسے جیسے دنیا ماحول دوست معیشت کی جانب بڑھ رہی ہے ویسے ویسے ماحول دوست ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری حاصل کرنے کے مواقع بھی بڑھ گئے ہیں۔ پاکستان کو بھی ان مواقعوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ کچھ ایسے فائدے ہیں جو ہم آسانی سے حاصل کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اس سال جی سی ایف نے تقریباً 25 کروڑ ڈالر کے منصوبوں کی منظوری دی ہے، جن کے تحت ترقی پذیر ممالک میں ٹیکسٹائل کی صنعت کو مالی امداد دی جائے تاکہ ٹیکسٹائل صنعت پرانی اور زیادہ توانائی استعمال کرنے والی مشینوں کی جگہ نئی اور ماحول دوست مشینوں پر منتقل ہوسکیں۔ اگر پاکستان بھی ایسا ہی کوئی اقدام اٹھائے تو ہم بھی نہ صرف آلودگی کے اخراج کو تقریباً ڈیڑھ کروڑ ٹن کم کرسکتے ہیں بلکہ اشیا کی کم قیمت میں برآمد سے ہمیں مسابقتی فائدہ بھی ہوسکتا ہے۔

مزید پڑھیے: ہمارے ماحول کی بقا کے ضامن جنگلی حیات خطرے میں

کاروبار کرنے کی آسانی میں بھی پاکستان کی درجہ بندی بہتر ہورہی ہے۔ اگر حکومت سرمایہ کاری لانے اور نجی شعبہ اس سرمایہ کاری کو درست ٹیکنالوجی اور شراکت داری کی جانب موڑنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو پاکستان ماضی کے کاربن پر مبنی معاشی راستے کے بجائے مستقبل کے ماحول دوست معاشی راستے پر اپنا سفر شروع کرسکتا ہے۔

ماحولیاتی تبدیلی کو خارجہ پالیسی کے آلے کے طور پر استعمال کریں

  • پاکستان نے ایک طویل عرصے سے بین الاقوامی پالیسی سازی فورمز میں اپنی شرکت کو بہت محدود رکھا اور ہمیں اس کی قیمت بھی ادا کرنی پڑی ہے اور ہم کثیر الجہتی فیصلہ سازی کے عمل سے باہر ہوتے گئے۔ جی سی ایف میں ہماری کارکردگی سے ہمیں یہ سیکھنا چاہیے کہ پاکستان بین الاقوامی سطح پر اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔ اگر پاکستان خود کو ماحولیاتی تحفظ کے اہم کردار کے طور پر منوالیتا ہے تو اس طرح پاکستان ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے ایک توانا آواز بن جائے گا اور اس آواز کو ترقی یافتہ ممالک میں بھی سنا جائے گا۔ اس طرح ماحولیاتی تحفظ پر اٹھنے والی یہ آواز دیگر سیاسی اور معاشی مسائل کا بھی احاطہ کرنے لگے گی۔

یہ مضمون 19 جنوری 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں