میانمار: انٹرنیٹ سروس معطل، ہزاروں افراد کا فوجی بغاوت کے خلاف مظاہرہ

06 فروری 2021
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس بلیک آؤٹ کو 'گھناؤنا اور ناقابل قبول' عمل  قرار دیا ہے—فائل فوٹو: رائٹرز
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس بلیک آؤٹ کو 'گھناؤنا اور ناقابل قبول' عمل قرار دیا ہے—فائل فوٹو: رائٹرز

میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد انٹرنیٹ سروس معطل ہونے کے باوجود ینگون یونیورسٹی کے نزدیک ہزاروں افراد نے آمریت کے خلاف مظاہرہ کیا۔

غیرملکی خبررساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق فوجی بغاوت کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہے کہ مظاہرین کی اتنی بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکلی۔

مزیدپڑھیں: میانمار میں فوجی بغاوت: آنگ سان سوچی پر غیر قانونی آلات کی درآمد کے الزامات عائد

مظاہرین نے 'فوجی آمریت کے خاتمے' کے نعرے لگائے۔

مظاہرین نے معزول رہنماؤں آنگ سان سوچی اور ون مائنٹ کی تصاویر بھی اٹھا رکھی تھیں۔

جن کی پارٹی نے نومبر میں ہونے والے انتخابات میں بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل کی تھی۔

مظاہرے میں شریک ایک شخص نے کہا کہ 'دنیا کو بتائیں کہ یہاں کیا ہوا ہے، دنیا کو جاننے کی ضرورت ہے'۔

دوسری جانب فوج نے احتجاج کو روکنے کی کوشش میں پورے ملک میں انٹرنیٹ سروس معطل کردی ہیں۔

نیٹ بلاکس انٹرنیٹ آبزرویٹری کے مطابق رابطے کا معیار پہلے ہی 16 فیصد تک گر چکا ہے جبکہ فیس بک، ٹوئٹر اور انسٹاگرام بلاک ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: میانمار: آنگ سان سوچی کا عوام پر فوجی بغاوت قبول نہ کرنے کیلئے زور

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس بلیک آؤٹ کو 'گھناؤنا اور ناقابل قبول' عمل قرار دیا ہے۔

انٹرنیٹ سروس معطل ہونے کے باوجود ہزاروں مظاہرین یانگون یونیورسٹی کے قریب جمع ہوئے اور متعدد لوگوں نے سرخ ہیڈ بینڈز پہنے ہوئے تھے جو نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کا رنگ ہے۔

انہوں نے تین انگلیوں کی سلامی میں ہاتھ اٹھایا دراصل یہ اشارہ تھائی جمہوریت نواز مظاہرین کی جانب سے مزاحمت کی علامت ہے۔

مظاہرین کے کم سے کم دو گروپوں نے میانمار کے مرکزی شہر کے دیگر حصوں میں مارچ کیا۔

مقامی میڈیا کے مطابق منڈالے میں تقریباً دو ہزار افراد نے مارچ کیا۔

میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد پولیس نے معزول رہنما آنگ سان سوچی کے خلاف غیر قانونی طور پر مواصلاتی آلات کی درآمد کے الزامات عائد کردیے ہیں۔

مزیدپڑھیں: میانمار میں فوج اقتدار پر قابض، آنگ سان سوچی زیرحراست

انہیں تفتیش کے لیے 15 فروری تک حراست میں رکھا جائے گا۔

پولیس نے 75 سالہ آنگ سان سوچی کے خلاف لگائے جانے والے الزامات کی تفصیلات عدالت پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ دارالحکومت میں ان کے گھر کی تلاشی کے دوران 6 واکی ٹاکی ریڈیو ملے ہیں۔

خیال رہے کہ میانمار میں فوج نے یکم فروری کی صبح جمہوری طور پر منتخب حکومت کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا اور آنگ سان سوچی اور ان کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کے دیگر رہنماؤں کو حراست میں لے لیا تھا۔

فوج کے زیر ملکیت ایک ٹی وی اسٹیشن پر جاری بیان کے مطابق فوج نے کہا تھا کہ اس نے انتخابی دھاندلی کے جواب میں نظربندیاں کی ہیں جس میں فوجی سربراہ من آنگ ہیلنگ کو اقتدار دیا گیا ہے اور ملک میں ایک سال کے لیے ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔

مزیدپڑھیں: 'آنگ سان سوچی کے قابلِ افسوس اقدامات کے باوجود نوبل انعام واپس لینا ممکن نہیں'

بغاوت کی یہ صورتحال سول حکومت اور فوج کے درمیان کئی روز سے جاری کشیدگی میں اضافے کے بعد سامنے آئی جس نے انتخابات کے نتیجے میں بغاوت کے خدشات کو جنم دیا تھا۔

سیاسی کشیدگی اس وقت بڑھ گئی تھی جب ایک فوجی ترجمان نے نئی پارلیمنٹ کے اجلاس سے قبل بغاوت کو مسترد کرنے سے انکار کردیا تھا اور فوجی سربراہ من آنگ ہیلنگ نے آئین ختم کیے جانے کے امکان کو بڑھا دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں