اسلام آباد ہائیکورٹ کا فٹ بال گراؤنڈ پر وکلا کی غیر قانونی تعمیرات ختم کرنے کا حکم

اپ ڈیٹ 16 فروری 2021
عدالت نے وفاقی حکومت کو ہدایت کی کہ بلا تاخیرجوڈیشل کمپلیکس کی تعمیر شروع کی جائے —فائل فوٹو:  ہائیکورٹ ویب سائٹ
عدالت نے وفاقی حکومت کو ہدایت کی کہ بلا تاخیرجوڈیشل کمپلیکس کی تعمیر شروع کی جائے —فائل فوٹو: ہائیکورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے دارالحکومت کے سیکٹر ایف-8 میں موجود فٹ بال گراؤنڈ پر وکلا کی جانب سے کی گئی تمام غیر قانونی تعمیرات ختم کرنے اور گراؤنڈ کو بحال کرنے کے بعد وہاں فٹ بال ٹورنامنٹ منعقد کرنے کی ہدایت کی ہے۔

اسلام آباد کی رہائشی شہناز بٹ نے اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے خلاف درخواست دائر کی تھی جس پر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلہ سنایا۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ اسلام آباد ڈسٹرک بار کی جانب سے بغیر قانونی اختیار اور دائرہ کار کے کھیل کے میدان میں دیگر مقامات پر مطلوبہ الاٹمنٹس کی گئیں ان غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث عہدیداروں کو بے نقاب کرنے کے علاوہ ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد: 'غیر قانونی چیمبرز' مسمار کرنے پر وکلا کا احتجاج، ہائی کورٹ پر دھاوا

اسی طرح اندراج شدہ وکلا نے بھی قبول کیا کہ مطلوبہ غیر قانونی الاٹمنٹ کے تحت ریاستی اراضی پر چیمبرز تعمیر کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔

حکم نامے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ اسلام آباد ڈسٹرک بار کی جانب سے کھیل کے میدان میں کی گئی الاٹمنٹس غیر قانونی، غلط اور کسی دائرہ اختیار کے بغیر تھیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے واضح کیا کہ کسی بھی ریاستی زمین پر تجاوزات اور کوئی بھی تعمیر 1960 کے آرڈیننس اور قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی ہیں اور انہیں فوری ختم کیا جائے۔

عدالت نے قرار دیا کہ جو وکیل قانون کو اپنے ہاتھ میں لے یا کسی بھی انداز میں قانون کی خلاف ورزی کرے وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے 'درست اور مناسب' سرٹیفکیشن اور سپریم کورٹ میں اپیل کرنے اور پیش ہونے کا اہل نہیں ہے۔

مزید پڑھیں:اسلام آباد ہائی کورٹ میں توڑ پھوڑ کرنے والے وکلا کے خلاف مقدمہ درج

حکم نامے میں کہا گیا کہ اسی طرح کوئی وکیل جو قانون کو خود سے اپنے ہاتھ میں لے اسے ہائی کورٹ کے ایڈووکیٹ کے طور پر اندراج کے لیے 'کردار اور طرزِ عمل' کا سرٹیفکیٹ نہیں دیا جاسکتا۔

عدالت کا کہنا تھا کہ غیر قانونی چیمبرز کی تعمیر سے اسلام آباد ڈسٹرک بار کے مجموعی اراکین کا چھوٹا سا حصہ مستفید ہوا اس لیے ہم پُراعتماد ہیں کہ اصل اسٹیک ہولڈرز یعنی عوام کے لیے بار اراکین غیر قانونی تعمیرات ختم اور کھیل کے میدان کو عوام کے لیے بحال کردیں گے۔

عدالت نے حکم دیا کہ اگر 28 مارچ 2021 سے پہلے یا اس تاریخ تک کھیل کا میدان بحال نہ ہوا تو وفاقی حکومت اور کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) 23 مارچ سے پہلے عوامی استعمال کے لیے کھیل کے میدان کو بحال کرے گی۔

ساتھ ہی عدالت نے وفاقی حکومت کو ہدایت کی کہ برصغیر کے سب سے بڑے وکیل اور بانی قوم قائد اعظم کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے 23 مارچ کو سرکاری اسکول کے طلبہ کے مابین فٹ بال ٹورنامنٹ کروانے کے انتظامات کیے جائیں۔

یہ بھی پڑھیں: مجھے ساڑھے تین گھنٹوں تک یرغمال رکھا گیا، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ

حکم نامے میں ہدایت کی گئی کہ اسلام آباد ڈسٹرک بار وفاقی حکومت کی جانب سے وکلا کے استعمال کے لیے 5 ایکڑ کے پلاٹ سے متعلق منظوری اور غور کے لیے کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو منصوبہ تجویز کرسکتی ہے۔

عدالت نے وفاقی حکومت کو ہدایت کی کہ بلا تاخیر ضلعی عدالتوں کے لیے جدید سہولیات سے آراستہ کمپلیکس کی تعمیر شروع کی جائے اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔

ساتھ ہی عدالت نے رجسٹرار کو اس حوالے سے ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو آگاہ کرنے کی بھی ہدایت کی۔

عدالت نے ہدایت کی کہ وفاقی حکومت آئندہ یومِ پاکستان یعنی 23 مارچ 2022 سے قبل جوڈیشل کمپلیکس کی فعالیت یقینی بنائے۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ حملہ کیس: وکلا کی ضمانت مسترد، 7 روزہ ریمانڈ پر جیل منتقل

ساتھ ہی عدالت نے یہ بھی ہدایت کی وفاقی حکومت عوامی عہدیداروں کی سست روی کی تحقیقات اور جو عہدیدار عوام کو ان کے آئینی حقوق سے محروم رکھنے کے ذمہ دار ہیں ان کے خلاف کارروائی کرے۔

فٹ بال گراؤنڈ پر تجاوزات کا معاملہ

خیال رہے کہ اسلام آباد کے سیکٹر-8 میں موجود فٹ بال گراؤنڈ کو وکلا کے سابق عہدیداران نے 5 بلاکس میں تقسیم کیا تھا جس میں وکلا کے چیمبرز غیر قانونی طور پر قائم کیے گئے تھے، سال 2013 میں سی ڈی اے نے 30 کے قریب چیمبرز کو مسمار کیا تھا تاہم نصف پلاٹ سے وکلا کا قبضہ نہ چھڑایا جاسکا تھا۔

چنانچہ فروری 2018 میں اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے فٹ بال گراؤنڈ پر وکلا کے 500 چیمبر کی 'غیر قانونی' تعمیر پر از خود نوٹس بھی لیا تھا تاہم 10 ماہ تک معاملہ زیر التوا رہنے کے بعد اسے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بھجوادیا گیا تھا۔

مذکورہ معاملہ دوبارہ اس وقت شدت کے ساتھ منظر عام پر آیا جب 7 فروری (اتوار) کی رات ضلعی انتطامیہ، کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) اور مقامی پولیس نے اسلام آباد کے سیکٹر ایف-8 کی ضلعی عدالتوں کے اطراف میں انسداد تجاوزات آپریشن کیا تھا۔

اس آپریشن کے دوران وکلا کے غیرقانونی طور پر تعمیر کردہ درجنوں دفاتر کو مسمار کردیا گیا تھا اور اس آپریشن کے خلاف مزاحمت پر 10 وکلا کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔

آپریشن کے ردِ عمل پر پیر کی صبح تقریباً 400 وکلا ضلعی عدالتوں پر جمع ہوئے اور بعدازاں بغیر کسی رکاوٹ کے 100 کاروں کے قافلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچ گئے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچنے کے بعد وکلا نے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے چیمبر پر دھاوا بولا اور املاک کو نقصان پہہنچایا، کھڑکیاں اور گملے توڑے گئے اور ججز کو کئی گھنٹوں تک محصور رکھا گیا۔

بعدازاں پولیس نے اس واقعے میں ملوث ملزمان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر کے چند ملزمان کا ریمانڈ بھی حاصل کرلیا تھا۔

اس سلسلے میں مختلف درخواستیں اسلام آباد ہائی کورٹ اور انسداد دہشت گردی عدالت میں زیر سماعت ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں