ترقیاتی فنڈز کیس: تحقیقات کے بجائے جج کو آئینی ذمہ داریاں ادا کرنے سے روکا گیا، جسٹس عیسیٰ

اپ ڈیٹ 21 فروری 2021
جسٹس عیسیٰ سپریم کورٹ کے سینئر ججز میں شامل ہیں—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
جسٹس عیسیٰ سپریم کورٹ کے سینئر ججز میں شامل ہیں—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وزیراعظم کی جانب سے اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز جاری کرنے کے کیس میں اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ تحقیقات کے بجائے جج کو آئینی ذمہ داریاں ادا کرنے سے روکا گیا۔

یاد رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز جاری کرنے سے متعلق اخباری خبر پر نوٹس لیا تھا، جس پر بعد ازاں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے چیف جسٹس کی سربراہی میں سماعت کی تھی اور جسٹس عیسیٰ اس بینچ کے رکن تھے۔

تاہم اس کیس کو دوسری سماعت میں ہی وزیراعظم کی جانب سے خبر کی تردید کے بعد نمٹا دیا گیا تھا اور تحریری فیصلہ بھی جاری کیا تھا، جس میں لکھا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو وزیراعظم سے متعلق مقدمات کی سماعت نہیں کرنی چاہیے۔

عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ جسٹس عیسیٰ کو موصول نہ ہونے پر انہوں نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط بھی لکھا تھا اور اب ان کا اختلافی نوٹ سامنے آیا ہے۔

مزید پڑھیں: ’چیف جسٹس کا فیصلہ مجھ سے پہلے میڈیا کو جاری کرنا چونکا دینے والی بات ہے’

28 صفحات پر مشتمل نوٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا کہ یہ معاملہ جب شروع ہوا جب سپریم کورٹ نے وزیراعظم عمران خان کے وسیع پیمانے پر رپورٹ ہونے والے بیان کا نوٹس لیا، وزیراعظم پاکستان کا بیان بظاہر آئین سے متصادم تھا تاہم اس کا اختتام غیرمتوقع تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا کہ مبینہ خلاف ورزی کی صحیح تحقیقات نہیں کی گئی بلکہ سپریم کورٹ کے ایک جج کی سرزنش کی گئی اور (واضح طور پر) اسے آئینی ذمہ داریاں ادا کرنے سے روکا گیا۔

انہوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ 3 فروری 2021 کو اس عدالت کے جسٹس مقبول باقر اور مجھ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے ایک حکم جاری کیا تھا۔

جس میں لکھا تھا کہ قومی اخبارات بشمول معتبر روزنامے ڈان میں 28 جنوری 2021 کو 'ہر قانون ساز کیلئے 50 کروڑ روپے کی گرانٹ کی منظوری' کی ہیڈ لائن کے تحت یہ رپورٹس سامنے آئی تھیں جس میں ایک وزیر کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ وزیراعظم نے رکن قومی و صوبائی اسمبلی کے لیے 50 کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا ہے تاکہ وہ اپنے حلقوں میں ترقیاتی کام کرواسکیں، اسی طرح یکم فروری کو اسی اخبار نے 'ترقیاتی فنڈز کے عنوان سے ایک اداریہ لکھا جس میں وزیراعظم کی جانب سے اپنی پارٹی کے ہر رکن قومی و صوبائی اسمبلی کو ان کے حلقوں میں ترقیاتی کاموں کے لیے نصف ارب روپے دینے پر سوال اٹھائے گئے تھے۔

اپنے اختلافی نوٹ میں جسٹس عیسیٰ نے لکھا کہ بعد ازاں اس معاملے پر چیف جسٹس نے ایک 5 رکنی بینچ تشکیل دیا جس میں چیف جسٹس گلزار احمد، جسٹس مشیر عالم، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور میں (جسٹس عیسیٰ) شامل تھے، تاہم میں نے اس 5 رکنی بینچ اور اس سے جسٹس مقبول باقر کو نکالنے پر اعتراض کیا اور چیف جسٹس کو خط لکھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا کہ چیف جسٹس نے بینچ کی تشکیل پر اعتراض کا تحریری یا زبانی جواب نہیں دیا کہ کیوں انہوں نے 2 رکنی بینچ کی تشکیل نو کی اور کیوں جسٹس مقبول باقر کو اس سے باہر کیا گیا جبکہ ریکارڈ کے مطابق چیف جسٹس کے زبانی حکم پر 5 رکنی لارجر بنچ بنایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسیٰ نے وزیراعظم کے اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینے کا نوٹس لے لیا

عدالت عظمیٰ کے سینئر جج نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ بعد ازاں 10 فروری کو اس کیس کی سماعت کے بعد جاری کیے گئے حکم میں یہ نہیں کہا گیا کہ ایک مخصوص جج وزیراعظم سے متعلق معاملات کو نہیں سن سکتا جبکہ اٹارنی جنرل، صوبائی حکومتوں اور اسلام آباد کے قانون افسران اور کسی حکومتی ملازم نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔

جسٹس عیسیٰ نے لکھا کہ اس روز سماعت کے بعد مجھے موبائل فون پر پیغام موصول ہوا جس میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت نے این اے 65 میں چوہدری سالک حسین کے لیے مخصوص تعمیراتی کام کے سلسلے میں کئی کروڑ روپے منظور کیے۔

انہوں نے لکھا کہ اٹارنی جنرل نے تحقیقات کے بجائے جج کو شکایت کنندہ بنانے کی کوشش کی، ساتھ ہی انہوں نے لکھا کہ واٹس ایپ پر ملنے والی دستاویزات کھلی عدالت میں ججز اور حکومتی وکلا کو دیں، دستاویزات کی تصدیق نہ ہوتی تو بات وہیں ختم ہوسکتی تھی۔

جسٹس عیسیٰ نے 11 فروری کی عدالتی کارروائی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ چیف جسٹس نے اچانک کیس ختم کرتے ہوئے کھلی عدالت میں (بینچ کے دیگر اراکین سے مشورے کے بغیر) یکطرفہ طور پر قرار دیا کہ ایک جج کو ’وزیراعظم پاکستان سے متعلق معاملات کی سماعت نہیں کرنی چاہیے‘، جس کے بعد وہ اپنی نشست سے اٹھے اور دیگر ججز کو بھی اس کی پیروی پر مجبور کیا اور بعد ازاں شام ہونے تک میڈیا کو معلوم ہوگیا کہ ایک حکم/ فیصلہ جاری کیا گیا اور سپریم کورٹ کے ایک جج کو میڈیا کے ذریعے اس کا معلوم ہوا حالانکہ یہ فیصلہ اس بینچ کی جانب سے جاری کیا گیا جس کا وہ حصہ تھا۔

انہوں نے لکھا کہ یہ حکم نہ انہوں نے پڑھا تھا اور نہ ہی دستخط لے لیے انہیں بھیجا گیا تھا جس پر انہوں نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط لکھا۔

خط میں جسٹس عیسیٰ نے لکھا تھا کہ مجھے معلوم ہوا کہ 11 فروری 2021 کو مذکورہ کیس میں ایک حکم/فیصلہ (پتا نہیں کونسا) جاری کیا گیا تھا جو میڈیا کو جاری کردیا گیا جبکہ یہ ‘چونکا‘ دینے والی بات ہے کہ اب تک مجھے حکم/فیصلہ موصول نہیں ہوا۔

انہوں نے خط میں لکھا تھا کہ یہ ایک روایت ہے کہ بینچ کے سربراہ (مذکورہ کیس میں چیف جسٹس پاکستان) کی جانب سے فیصلہ لکھنے کے بعد اسے اگلے سینئر جج کو بھیجا جاتا ہے اور اس کے بعد آگے، تاہم بظاہر جسٹس اعجاز الاحسن کو یہ موصول ہوگیا ہے لیکن مجھے نہیں ہوا جبکہ دنیا کو میرے دیکھنے سے پہلے معلوم ہوگیا ہے۔

جسٹس عیسیٰ نے اپنے خط میں سوالات کیے تھے کہ مجھے بتایا جائے کہ کیوں مجھے حکم/ فیصلہ نہیں بھیجا گیا؟ کیوں سینئر جج کو فیصلہ بھیجنے کی روایت کو نہیں اپنایا گیا؟ کیوں اسے میرے پڑھنے سے قبل میڈیا جو جاری کردیا گیا (مجھے اس پر دستخط کرکے اتفاق یا اختلاف کرنے کا موقع بھی نہیں دیا گیا)؟ اسے میڈیا کو جاری کرنے کا حکم کس نے دیا ؟ مجھے کیس کی فائل دی جائے تاکہ میں بالآخر حکم/ فیصلہ پڑھ سکوں، جسٹس عیسیٰ نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ تمام ججز کے دستخط ہونے تک حکم نامہ قانونی نہیں ہوسکتا۔

28 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ میں انہوں نے لکھا کہ سینیٹ الیکشن سے قبل وزیراعظم نے اراکین کو ترقیاتی فنڈز دینے کا کہا جبکہ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی ووٹوں کی خرد و فروخت کا کہ رہی ہیں۔

مزید پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ وزیراعظم سے متعلق کیس کی سماعت نہ کریں، سپریم کورٹ

اپنے نوٹ میں جسٹس عیسیٰ نے لکھا کہ وزیراعظم کے نہیں صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواست دائر کی تھی جس میں دیگر 13 افراد کے ساتھ وزیراعظم کو بھی فریق بنایا گیا تھا، اگر وزیراعظم کو فریق بنانا وجہ تھی تو فریق بینچ کے 3 ججز بھی تھے اور سپریم جوڈیشل کونسل کا حصہ 3 ججز بھی بینچ میں شامل تھے۔

اپنے اختلافی نوٹ کے آخر میں جسٹس عیسیٰ نے یہ بھی لکھا کہ میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ یہ حکم لکھنا میرے لیے انتہائی تکلیف دہ تھا، میں معذرت خواہ ہوں کہ اگر اس سے کسی کو تکلیف پہنچی یا کوئی ناراض ہوا کیونکہ یہ میرا ارادہ نہیں، میں نے وہی کہا جو میں نے محسوس کیا۔

جسٹس عیسیٰ نے لکھا کہ ایک مثبت نوٹ کے ساتھ اختتام کرتے ہوئے میں کہنا چاہوں گا کہ سب سے زیادہ بہترین ادارے وہ ہوتے ہیں جہاں خلوص، شفافیت اور جائز اختلاف رائے ہو، میری دعا ہے کہ یہ ادارہ تمام طرح کی آئینی خلاف ورزی کے خلاف اور طاقت کے غلط استعمال کے خلاف لوگوں کے تحفظ کے لیے بلا کسی رکاوٹ کے کھڑا ہو۔

سپریم کورٹ کے جج کے اختلافی نوٹ کے مزید سے متعلق ڈان اخبار میں شائع رپورٹ میں بتایا گیا کہ 28 صفحات پر مشتمل اپنے اختلافی نوٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ غیر منظم صوابدید کی روک تھام کی جائے گی کیوں کہ اس نے نہ کبھی کسی ادارے کی خدمت کی اور نہ ہی لوگوں کا فائدہ ہوا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس نے نان ایشوز کو اٹھایا اور انہیں سنے بغیر فیصلہ کرلیا کہ شاید وہ جانبدار ہیں، 'یوں ایک بے مثال طریقے سے، بغیر کسی ثبوت اور کسی بھی درخواست یا اپیل کا سہارا لیے بغیر سپریم کورٹ کے ایک جج کی ساکھ داغدار کی گئی‘۔

انہوں نے اختلافی نوٹ میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ نتیجتاً عدلیہ کی ساکھ اور سلامتی کو بھی زک پہنچی اور 11 فروری کو عدالت عظمٰی کے 4 سینئر ججز پر مشتمل حکم نامے کو کسی ایسی شے جو آئین کی دفعہ 189 کے تحت فیصلے کے قانونی حکم کی تشکیل کے لیے مقرر کردہ معیار پر پورا نہیں اترتی اور قدرتی انصاف کے اصولوں، آئین، غیر جانبداری، انصاف کے برعکس، عدالت کو مجروح کرنے والی قرار دیا، 11 فروری کے حکم نامے میں واضح نہیں کہ کیا خصوصی دائرہ کار استعمال کیا گیا اور اگر عدالت نے وہ دائرہ کار اختیار کیا جو اس کا نہیں تھا تو ایسا اقدام، حکم ختم کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر 11 فروری کے حکم پر عملدرآمد کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ سپریم کورٹ کا ایک جج صرف پرائیویٹ سول تنازعات کی سماعت کرسکتا ہے کیوں کہ فوجداری مقدمات تک میں ہمیشہ ریاست فریق ہوتی ہے۔

جانبداری پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا وہ عمران خان کو ذاتی طور پر نہیں جانتے اس لیے وہ ان کے خلاف بحیثیت وزیراعظم بھی جانبدار نہیں ہوسکتے ۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اگر عمران خان ان کے خلاف جانبداری کے الزامات لگانے چاہیں تو انہیں خود کرنا پڑے گا لیکن اٹارنی جنرل برائے پاکستان خالد جاوید خان وزیراعظم کے ذاتی وکیل نہیں نہ چیف جسٹس وزیراعظم کی حمایت کرسکتے ہیں اور نہ ہی آئین یا قانون ججز کو ان کے ساتھی ججز کے دلوں میں جھانکنے اور اس بات کا تعین کرنے کی اجازت دیتے ہیں کہ کیا وہ جانبداری کا شکار ہیں، صرف اللہ جانتا ہے کہ دلوں میں کیا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 11 فروری کے حکم نامے میں 20 غیر معقولیتوں اور غیر قانونیت کا ذکر کو اجاگر کیا کہ چیف جسٹس نے 2 رکنی بینچ جو اس معاملے کی سماعت کررہا تھا اسے آگاہ کیے بغیر بینچ کو دوبارہ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا اور اسے توسیع دے کر جسٹس مقبول باقر کو نکال دیا لیکن کسی نے بینچ کے کسی جج پر جانبداری کا الزام نہیں لگایا اور اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیے بغیر چیف جسٹس نے مختصراً اعلان کردیا کہ ایک جج کو وزیراعظم سے متعلق کیسز نہیں سننے چاہیے، چیف جسٹس نے جان بوجھ کر ایک نان ایشو متعارف کروایا جو کہ بینچ کے ایک جج پر جانبداری کا تھا، جسے تحریری حکم کا حصہ بھی نہیں بنایا گیا۔

اسی طرح حکم نامہ جونیئر ججز کو بھیجا گیا جبکہ مذکورہ جج، ان کے سینئر، کو بائی پاس کیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں