نوشہرہ ضمنی انتخاب میں پی ٹی آئی کی شکست، پرویز خٹک کے بھائی کو صوبائی کابینہ سے نکال دیا گیا

اپ ڈیٹ 21 فروری 2021
پرویز خٹک کے بھائی خود کو بے اختیار وزیر بھی کہہ چکے تھے—فائل فوٹو: فیس بک
پرویز خٹک کے بھائی خود کو بے اختیار وزیر بھی کہہ چکے تھے—فائل فوٹو: فیس بک

پشاور: اپوزیشن جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نوشہرہ کے ضمنی انتخاب میں کامیابی نے قبائلی ضلع کرم میں قومی اسمبلی کی نشست پر پاکستان تحریک انصاف کی کامیابی کے جشن کو ماند کردیا اور اس کا نتیجہ وزیر دفاع پرویز خٹک کے بھائی کی صوبائی کابینہ سے اخراج کی صورت میں نکلا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے امیدوار ملک فخر زمان این اے 45 کرم کے ضمنی انتخاب میں 16 ہزار 911 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جبکہ ان کے مقابلے میں جے یو آئی (ف) کے ملک جمیل چمکنی کو 15 ہزار 761 ووٹ ملے۔

تاہم نوشہرہ میں مسلم لیگ (ن) کے افتخار ولی نے پی ٹی آئی امیدوار عمر کاکاخیل کو 4 ہزار سے زائد ووٹوں کے مارجن سے شکست سے دوچار کیا۔

پی کے 63 کے ضمنی انتخاب میں پی ٹی آئی کی شکست پر کچھ ہی گھنٹوں میں خیبرپختونخوا حکومت نے ردعمل دیا اور انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کی حمایت کرنے پر صوبائی وزیر لیاقت خٹک کو برطرف کردیا۔

لیاقت خٹک، وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک کے چھوٹے بھائی ہیں لیکن پی کے 63 انتخاب میں ان کے بیٹے احد خٹک کو ٹکٹ دینے سے انکار پر ان کے اپنے بڑے بھائی اور حکمران پی ٹی آئی سے کئی ماہ سے اختلافات چل رہے تھے۔

مزید پڑھیں: چاہوں تو عمران خان کی حکومت ایک دن بھی نہیں چل سکتی، پرویز خٹک

ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ کے جاری کردہ ایک نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ گورنر نے آئین کے آرٹیکل 132 کے کلاز 3 کے ساتھ آرٹیکل 105 کے کلاز کیو کے تحت تفویض کردہ اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے لیاقت خٹک کو بطور وزیر آب پاشی ڈی نوٹی فائی کردیا۔

دوسری جانب ایک ویڈیو پیغام میں ترجمان صوبائی حکومت کامران خان بنگش کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ محمود خان نے پی کے 63 ضمنی انتخاب میں لیاقت خٹک کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کی حمایت کرنے سے متعلق رپورٹ طلب کرلی۔

انہوں نے کہا کہ لیاقت خٹک اور ان کے گھر والوں نے پی ٹی آئی اُمیدوار کے خلاف مہم چلائی تھی۔

ترجمان نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان سے اس معاملے پر مشاورت کی گئی تھی اور ان کی منظوری کے بعد لیاقت خٹک کو صوبائی کابینہ سے ہٹا دیا گیا۔

تاہم پی ٹی آئی کے سیکریٹری اطلاعات نجی اللہ خٹک نے لیاقت خٹک کے خلاف ان کے اقدامات پر کسی فوری تادیبی کارروائی کو مسترد کردیا۔

انہوں نے ڈان کو بتایا کہ اس طرح کا فیصلہ صورتحال کے اچھی طرح جائزے کے بعد پارٹی کی جانب سے لیا جاتا ہے جس میں کچھ وقت لگے گا۔

خٹک قبیلے میں اختلاف کی خبریں کافی مہینوں سے زیرگردش تھیں تاہم لیاقت خٹک کے بیٹے احد خٹک کو پی کے 63 کا ٹکٹ دینے سے انکار نے اس کو مزید بھڑکا دیا۔

واضح رہے کہ پی کے 63 کی نشست پی ٹی آئی کے قانون ساز میاں جمشید الدین کاکا خیل کے کووڈ 19 سے انتقال پر خالی ہوئی تھی۔

پرویز خٹک کی جانب سے ضمنی انتخاب کے لیے جمشید الدین کاکا خیل کے بیٹے میاں عمر کو اپنے بھتیجے احد خٹک پر ترجیح دی گئی تھی جو خاندان میں دراڑ کا باعث بنی اور نوشہرہ کی سیاست میں پرویز خٹک کی ناقابل تسخیر تصویر کو شکست دینے کا سبب بنی۔

گزشتہ ماہ پرویز خٹک نے ایک اجتماع میں دعویٰ کیا تھا کہ ’اگر انتخابات میں، میں کسی خشک لکڑی کے حصے کی بھی حمایت کروں تو وہ جیت جائے گا‘۔

نوشہرہ کے عوامی اجتماع میں پرویز خٹک کا یہ خطاب سوشل اور مرکزی میڈیا میں طوفان بھر کے ابھرا اور بظاہر ان کے چھوٹے بھائی کے لیے بھی طوفان ثابت ہوا۔

اپنی تقریر میں انہیں یہ کہتے سنا گیا تھا کہ اگر وہ کچھ گڑ بڑ کریں تو وزیراعظم عمران خان کی حکومت ایک دن بھی نہیں ٹک سکے گی۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر دفاع کے بھائی نے خود کو بے اختیار وزیر قرار دے دیا

علاوہ ازیں رواں ماہ کے اوائل میں لیاقت خٹک نے بھی ایک عوامی اجتماع سے خطاب میں خود کو بے اختیار وزیر قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ وزیراعظم کو بتائیں گے کہ کون ان کا ڈپارٹمنٹ چلا رہا ہے۔

یہاں یہ مدنظر رہے کہ گزشتہ برس اکتوبر میں نوشہرہ کلاں کے علاقے نواں کلی میں دونوں کے حامیوں کے درمیان مسلح تصادم کے نتیجے میں پرویز خٹک کے حمایتی کی موت کے بعد معاملات کو حل کرنے کے لیے جرگے نے کوشش کی تھی جس کے بعد لیاقت خٹک نے اپنے بڑے بھائی کے دفتر کا دورہ کیا تھا اور دونوں بھائیوں میں وقتی صلح ہوگئی تھی۔

مرنے والا حامی خورشید ٹھیکیدار پرویز خٹک کے لیے ایک جلسے کا انعقاد کرنے کے لیے تیار تھے لیکن وہ تصادم میں ہلاک ہوگیا، مزید یہ کہ اگرچہ دونوں بھائیوں نے اس موقع پر ایک دوسرے کو گلے لگایا لیکن یہ خٹک قبیلے میں اختلافات کو کم کرنے میں ناکام رہا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ احد خٹک جو پہلے نوشہرہ کے تحصیل ناظم کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں انہیں صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ کے لیے علاقے سے بڑی تعداد میں ناظم اور کونسلرز کی حمایت حاصل تھی۔

تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے نامزدگی سے انکار پر انہوں نے 180 سے زائد کونسلرز اور ناظمین پر ’کونسلر اتحاد‘ تشکیل دیا تھا، اس اتحاد نے پی کے 63 کی نشست کے لیے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کی حمایت کی تھی۔


یہ خبر 21 فروری 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں