منی لانڈرنگ کیس میں حمزہ شہباز کی ضمانت منظور

اپ ڈیٹ 24 فروری 2021
حمزہ شہباز کو 11 جون 2019 کو گرفتار کیا گیا تھا —فائل فوٹو: ڈان نیوز
حمزہ شہباز کو 11 جون 2019 کو گرفتار کیا گیا تھا —فائل فوٹو: ڈان نیوز

لاہور ہائی کورٹ نے منی لانڈرنگ کیس میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کی ضمانت منظور کرلی۔

صوبائی دارالحکومت میں عدالت عالیہ کے جسٹس سرفراز ڈوگر اور اسجد جاوید گورال پر مشتمل دو رکنی بینچ نے منی لانڈرنگ کیس میں حمزہ شہباز شریف کی ضمانت کی درخواست پر سماعت کی، اس موقع پر نیب کی جانب سے سینئر وکیل فیصل بخاری عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران نیب کے وکیل نے حمزہ شہباز کے وکیل کی جانب سے دیے گئے گزشتہ روز کے دلائل پر جوابی دلائل دیے اور درخواست ضمانت کی مخالفت کی۔

مزید پڑھیں: حمزہ شہباز کا درخواست ضمانت پر جلد سماعت کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع

نیب وکیل نے کہا کہ حمزہ شہباز کے اثاثے 2003 میں چند لاکھ تھے، 2018 میں ان کے اثاثے 537 ملین (53 کروڑ 70 لاکھ) ہوگئے۔

انہوں نے کہا کہ حمزہ شہباز کے ذاتی اکاؤنٹس میں کروڑوں روپے غیرقانونی آئے، مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثوں کی انکوائری شروع ہوئی۔

وکیل نے کہا کہ حمزہ شہباز کو نوٹس دیے گئے لیکن حمزہ شہباز نے رقم کے بارے میں کوئی جواب نہیں دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ انویسٹی گیشن مکمل کرنے کے بعد 2020 میں نیب نے ریفرنس دائر کردیا، 20 ملزمان کے خلاف نیب نے ریفرنس دائر کیا، جن میں 6 ملزمان اشتہاری ہو چکے ہیں جبکہ چار ملزمان ریفرنس میں وعدہ معاف گواہ بن گئے ہیں۔

نیب کے وکیل کا کہنا تھا کہ 11 نومبر کو ملزمان پر فرد جرم عائد کردی گئی اور اب ٹرائل جاری ہے، اس سے پہلے بھی لاہور ہائیکورٹ سے حمزہ شہباز کی درخواست ضمانت مسترد ہو چکی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ حمزہ شہباز کو بیرون ملک سے 81 ملین کی ٹی ٹیز آئیں، حمزہ شہباز نے اپنی ٹرانزیکشنز اور وصول رقم کا آج تک کوئی ذریعہ (سورس) نہیں بتایا۔

اس موقع پر نیب کے وکیل نے منی لانڈرنگ سے متعلق تیار کیا گیا چارٹ بھی عدالت میں پیش کیا اور کہا کہ ماڈل ٹاؤن آفس سے منی لانڈرنگ کا نیٹ ورک چلایا جاتا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ نصرت شہباز، حمزہ شہباز، رابعہ عمران، جویریہ علی اور سلمان شہباز کے نام پر ٹی ٹیز آتی رہیں، ٹی ٹیز وصولی کے بعد حمزہ شہباز اور سلمان شہباز نے مخلتف جگہ سرمایہ کاری کی۔

عدالت میں دلائل دیتے ہوئے نیب وکیل نے کہا کہ مشتاق چینی نے کئی لاکھ کا جعلی قرضہ حمزہ شہباز کے اکاؤنٹ میں بھیجا، کوئی پاپڑ والا تو کوئی دودھ والا حمزہ شہباز کے اکاؤنٹ میں پیسے بھیجتا رہا، پاپڑ والے بیچارے کو تو پتا نہیں کہ ان کا شناختی کارڈ یا بینک اکاؤنٹ کہاں استعمال ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حمزہ شہباز منی لانڈرنگ کے بینفشری ہیں، کیس میں صرف ہارڈشپ کو نہیں میرٹس کو بھی دیکھا جاتا ہے، مزید یہ کہ ٹرائل میں تین تاریخیں حمزہ شہباز کے وکلا نے لی ہیں جس سے کیس تاخیر میں جائے گا جبکہ نیب نے ٹرائل میں آج تک ایک بھی تاریخ نہیں مانگی۔

بعد ازاں انہوں نے مزید دلائل دیے جس کے بعد عدالت نے دونوں فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ سنایا اور حمزہ شہباز کی ضمانت منظور کرلی اور انہیں جیل سے رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

واضح رہے کہ حمزہ شہباز کو منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں11 جون 2019 کو گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد وہ 84 روز تک جسمانی ریمانڈ پر نیب کی تحویل میں بھی رہے تھے۔

انہوں نے اس سے قبل بھی ضمانت کی درخواست کی تھی تاہم 11 فروری 2020 کو لاہور ہائی کورٹ نے حمزہ شہباز کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست خارج کردی تھی جبکہ 22 جنوری 2021 کو سپریم کورٹ نے بھی درخواست واپس لینے کی بنیاد نمٹا دی تھی۔

منی لانڈرنگ ریفرنس

خیال رہے کہ 17 اگست کو نیب نے احتساب عدالت میں شہباز شریف، ان کے دو بیٹوں اور کنبے کے دیگر افراد کے خلاف منی لانڈرنگ کا 8 ارب روپے کا ریفرنس دائر کیا تھا۔

بعد ازاں 20 اگست کو لاہور کی احتساب عدالت نے شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف منی لانڈرنگ ریفرنس سماعت کے لیے منظور کیا تھا۔

ریفرنس میں بنیادی طور پر شہباز شریف پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ اپنے خاندان کے اراکین اور بے نامی دار کے نام پر رکھے ہوئے اثاثوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں جن کے پاس اس طرح کے اثاثوں کے حصول کے لیے کوئی وسائل نہیں تھے۔

یہ بھی پڑھیں: نیب نے حمزہ شہباز کو احاطہ عدالت سے گرفتار کرلیا

اس میں کہا گیا کہ شہباز خاندان کے کنبے کے افراد اور بے نامی داروں کو اربوں کی جعلی غیر ملکی ترسیلات ان کے ذاتی بینک کھاتوں میں ملی ہیں، ان ترسیلات زر کے علاوہ بیورو نے کہا کہ اربوں روپے غیر ملکی تنخواہ کے آرڈر کے ذریعے لوٹائے گئے جو حمزہ اور سلیمان کے ذاتی بینک کھاتوں میں جمع تھے۔

ریفرنس میں مزید کہا گیا کہ شہباز شریف کا کنبہ اثاثوں کے حصول کے لیے استعمال ہونے والے فنڈز کے ذرائع کا جواز پیش کرنے میں ناکام رہا۔

اس میں کہا گیا کہ ملزمان نے بدعنوانی اور کرپٹ سرگرمیوں کے جرائم کا ارتکاب کیا جیسا کہ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کی دفعات اور منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 میں درج کیا گیا تھا اور عدالت سے درخواست کی گئی کہ انہیں قانون کے تحت سزا دے۔

مذکورہ ریفرنس میں شہباز شریف ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز شریف سمیت 10 ملزمان پر 11 نومبر کو فرد جرم عائد کی گئی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں