احسان اللہ احسان کے فرار میں ملوث فوجیوں کے خلاف کارروائی کی جاچکی ہے، ترجمان پاک فوج

اپ ڈیٹ 24 فروری 2021
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ فی الوقت انہیں علم نہیں ہے کہ احسان اللہ احسان کہاں ہیں — فائل فوٹو / ڈان نیوز
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ فی الوقت انہیں علم نہیں ہے کہ احسان اللہ احسان کہاں ہیں — فائل فوٹو / ڈان نیوز

پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے فوج کی تحویل سے فرار ہونے میں چند فوجی افسران ملوث تھے جن کے خلاف کارروائی کی جاچکی ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی رپورٹ کے مطابق اپنے دفتر میں غیر ملکی میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ احسان اللہ احسان کا فرار ہو جانا ایک بہت سنگین معاملہ تھا اور اس کی مکمل تحقیقات کے بعد ذمہ دار فوجی افسران کے خلاف کارروائی کی جا چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کارروائی سے متعلق پیش رفت جلد میڈیا کے ساتھ شیئر کی جائے گی، احسان اللہ احسان کی دوبارہ گرفتاری کی کوششیں بھی جاری ہیں لیکن فی الوقت انہیں علم نہیں ہے کہ احسان اللہ احسان کہاں ہیں۔

تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان کی جانب سے نوبیل انعام یافتہ سماجی کارکن ملالہ یوسفزئی کو ٹوئٹر پر دھمکی کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ 'میری معلومات کے مطابق جس ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ملالہ کو دھمکی دی گئی وہ ایک جعلی اکاؤنٹ تھا۔‘

مزید پڑھیں: احسان اللہ احسان کو ایک آپریشن میں استعمال کررہے تھے کہ وہ فرار ہوگیا، ترجمان پاک فوج

یاد رہے کہ گزشتہ برس فروری کے آغاز میں ایسی خبریں سامنے آئی تھیں کہ احسان اللہ احسان مبینہ طور پر سیکیورٹی فورسز کی حراست سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا تھا۔

بعد ازاں 17 فروری کو وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے احسان اللہ احسان کے فرار سے متعلق میڈیا میں چلنے والی خبروں کی تصدیق کی تھی۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کی فروری میں پہلی مبینہ آڈیو ٹیپ سامنے آئی تھی جس میں انہوں نے 11 جنوری 2020 کو 'پاکستانی سیکیورٹی اتھارٹیز کی حراست سے’ فرار ہونے کا انکشاف کیا تھا۔

انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ ترکی میں موجود ہیں جبکہ متعدد ذرائع کا ماننا ہے کہ دہشت گرد گروہ کے سابق ترجمان افغانستان میں ہیں۔

اگست 2020 میں میجر جنرل بابر افتخار نے پریس کانفرنس کے دوران احسان اللہ احسان کے فرار اور اس کے بعد مبینہ آڈیو ٹیب سے متعلق سوال پر تصدیق کی تھی کہ ایک آپریشن کے دوران احسان اللہ احسان کو استعمال کیا جارہا تھا اور وہ اس دوران فرار ہوگیا۔

17 اپریل 2017 کو پاک فوج نے دعویٰ کیا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے خود کو سیکیورٹی فورسز کے حوالے کردیا۔

'لاپتا افراد کا معاملہ بہت جلد حل ہو جائے گا'

ترجمان پاک فوج نے جبری طور پر لاپتا افراد کے حوالے سے سوال پر کہا کہ ’لاپتا افراد کے معاملے پر بننے والے کمیشن نے بہت پیش رفت کی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ 'اس کمیشن کے پاس 6 ہزار سے زائد افراد کے گمشدہ ہونے کے مقدمات تھے جن میں سے 4 ہزار حل کیے جا چکے ہیں جبکہ یہ معاملہ بہت جلد حل ہو جائے گا‘۔

واضح رہے کہ حال ہی میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے چند لاپتا افراد کے اہل خانہ نے اسلام آباد میں اپنا دھرنا کئی روز جاری رکھنے کے بعد ختم کیا ہے۔

لاپتا افراد کے اہل خانہ نے یہ دھرنا وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کی اس یقین دہانی کے بعد ختم کیا کہ اگلے ماہ وزیر اعظم عمران خان ان سے ملاقات کریں گے اور ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں گے۔

'قبائلی علاقوں میں حالیہ تشدد جارحانہ کارروائیوں کا نتیجہ ہے'

ملک کے سابق قبائلی علاقوں بالخصوص شمالی وزیرستان میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات سے متعلق ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ان علاقوں میں منظم شدت پسند تنظمیوں کو تو بہت پہلے ختم کر دیا گیا تھا اور اب ان میں اس علاقے میں بڑا حملہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے لیکن کچھ عرصے سے ان علاقوں میں ایک بار پھر تشدد کے واقعات رپورٹ کیے جارہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے سیکیورٹی اداروں نے بچے کچے شدت پسندوں کے خلاف بہت جارحانہ کارروائیاں کی ہیں اور تازہ تشدد اسی کا نتیجہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’آپ جب بھی شدت پسندوں کی پیچھے جارحانہ انداز میں جاتے ہیں تو اس کا لازمی ردعمل آتا ہے اور سیکیورٹی فورسز کا بھی نقصان ہوتا ہے اور عمومی طور پر بھی تشدد میں وقتی اضافہ ہوتا ہے‘۔

میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ گزشتہ دنوں خواتین کی کار پر حملہ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی تاہم اب اس علاقے میں دہشت گردوں کا کوئی منظم گروہ باقی نہیں رہ گیا اور چھوٹے موٹے شدت پسند مختلف ناموں سے کارروائیاں کر رہے ہیں جن کا جلد ہی مکمل خاتمہ کر دیا جائے گا۔

'کان کنوں کے قتل میں ملوث چند افراد کی گرفتاریاں ہوئی ہیں'

میجر جنرل بابر افتخار نے اپنی گفتگو میں انکشاف کیا کہ گزشتہ ماہ بلوچستان کے علاقے مچھ میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے 11 کان کنوں کے قتل کے واقعے میں مبینہ طور پر ملوث چند افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بہت اہم گرفتاریاں ہیں لیکن ان کی مزید تفصیل دینے سے معذرت کی۔

خیال رہے کہ 3 جنوری کو بلوچستان کے ضلع بولان کے علاقے مچھ میں مسلح افراد نے بندوق کے زور پر کمرے میں سونے والے 11 کان کنوں کو بے دردی سے قتل کردیا تھا۔

اس واقعے سے متعلق سامنے آنے والی معلومات سے پتا لگا تھا کہ ان مسلح افراد نے اہل تشیع ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے ان 11 کوئلہ کان کنوں کے آنکھوں پر پٹی باندھی، ان کے ہاتھوں کو باندھا جس کے بعد انہیں قتل کیا گیا۔

مذکورہ واقعے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔

مزید پڑھیں: ہزارہ برادری کا دھرنا ختم کرنے اور میتوں کی تدفین کا اعلان

ان افراد کے قتل کے خلاف کوئٹہ میں ہزارہ برادری نے جنازے رکھ کر کئی روز تک دھرنا دیا تھا جو وزیر اعظم عمران خان کے کوئٹہ جاکر لواحقین سے ملاقات کے بعد ختم کیا گیا تھا اور واقعے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کروائی گئی تھی۔

'یہ ہرگز ممکن نہیں کہ طالبان دوبارہ کابل پر قابض ہوں اور پاکستان ان کی حمایت کرے'

افغانستان کے حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان ہر قیمت پر افغانستان میں امن چاہتا ہے اور اس سلسلے میں اس سے جو کچھ ہو سکتا تھا وہ کر چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے طالبان پر اپنا اثر و رسوخ جس قدر ممکن تھا وہ استعمال کر لیا ہے، اس کی گواہی تو اب افغان رہنما بھی دے رہے ہیں کہ پاکستان نے افغانستان میں امن کے لیے اخلاص کے ساتھ ہر ممکن کوشش کر لی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کا مستقبل کیا ہوگا، مذاکرات آگے کیسے بڑھیں گے اور کس فریق کو کیا کرنا ہے، یہ سب افغانستان کے شہریوں اور حکومت کے کرنے کے کام ہیں، ہمارا صرف ایک مقصد ہے اور وہ ہے افغانستان میں دیرپا امن کا قیام ہے۔‘

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ’اب افغانستان 90 کی دہائی والا نہیں ہے کہ اس کا ریاستی ڈھانچہ اتنی آسانی سے ڈھے جائیں جبکہ پاکستان بھی بدل چکا ہے، یہ ہرگز ممکن نہیں ہے کہ کابل پر طالبان دوبارہ سے قابض ہوں اور پاکستان ان کی حمایت کرے‘۔

'پاکستان میں شدت پسندوں کی مدد افغانستان سے کی جا رہی ہے'

پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ پاکستان میں شدت پسندوں کی مدد افغانستان سے کی جا رہی ہے اور ہمارے پاس ایسے شواہد ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان مخالف شدت پسندوں کو بھارت، ناصرف اسلحہ اور پیسے دے رہا ہے بلکہ ان کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے نئی ٹیکنالوجی بھی دی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ بات بعید از قیاس نہیں ہے کہ یہ سب کارروائی افغان انٹیلی جنس کے علم میں ہے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں