عالمی عدالت نے اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں میں جنگی جرائم کی تحقیقات شروع کردیں

اپ ڈیٹ 05 مارچ 2021
اسرائیلی وزیر اعظم عالمی عدالت کے فیصلے کو  'انسداد یہودیت کا نچوڑ' بتایا جبکہ فلسطینی حکام نے اسے سراہا ہے۔ - فائل فوٹو:اے ایف پی
اسرائیلی وزیر اعظم عالمی عدالت کے فیصلے کو 'انسداد یہودیت کا نچوڑ' بتایا جبکہ فلسطینی حکام نے اسے سراہا ہے۔ - فائل فوٹو:اے ایف پی

دی ہیگ: بین الاقوامی فوجداری عدالت نے فلسطینی علاقوں میں مبینہ جنگی جرائم کی باضابطہ تحقیقات کا آغاز کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عالمی عدالت کے اس اقدام کو اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے 'انسداد یہودیت کا نچوڑ' بتایا جبکہ فلسطینی حکام نے اسرائیلی مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کے ساتھ جون 2014 سے چاروں طرف سے بند غزہ کی پٹی کی صورتحال کی 'فوری اور ضروری' تحقیقات کے طور پر آئی سی سی کے چیف پراسیکیوٹر فاتو بنسودا کے فیصلے کو سراہا۔

اس اقدام سے ہیگ میں قائم ٹربیونل، جو اسرائیل اور اس کی حلیف امریکا کی طرف سے مسلسل تنقید کا سامنا کرتا رہتا ہے، کو دنیا کے ایک انتہائی مشکل تنازع اور خطرے میں ڈال دیا ہے۔

مزید پڑھیں: فلسطین میں 'جنگی جرائم کی تحقیقات'، عالمی عدالت کے فیصلے پر اسرائیل سیخ پا

فاتو بنسودا نے کہا کہ انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ دونوں اطراف میں 'قابل قبول امکانی کیسز' موجود ہیں اور تحقیقات نے 2014 کے غزہ تنازع پر توجہ مرکوز کی تھی جس میں 2 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

پراسیکیوٹر نے کہا کہ 'آخر میں ہماری مرکزی تشویش فلسطینی اور اسرائیلی، دونوں طرف سے تشدد اور عدم تحفظ کے طویل عرصے سے پیدا ہونے والے جرائم کے متاثرین کے لیے ہونی چاہیے جو ہر طرف گہرے دکھ اور مایوسی کا باعث بنا ہے'۔

آئی سی سی کے ججز نے جنگی جرائم کی تفتیش کی راہ ہموار کردی تھی جب انہوں نے ایک ماہ قبل یہ فیصلہ سنایا تھا کہ فلسطینیوں کی رکنیت کی وجہ سے اس صورتحال پر عدالت کا دائرہ اختیار موجود ہے۔

اس تحقیقات میں توجہ آپریشن پروٹیکٹو ایج پر مرکوز کی جائے گی جو اسرائیل کی طرف سے 2014 کے موسم گرما میں مزاحمت کاروں حماس کی جانب سے ملک میں کیے گئے راکٹ فائر کو روکنے کے بیان کردہ مقصد کے ساتھ شروع کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: فلسطین سے امن معاہدے کے بغیر اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی گنجائش نہیں، سعودی عرب

2014 کی لڑائی میں تقریبا 2 ہزار 250 فلسطینی ہلاک ہوئے تھے جن میں زیادہ تر عام شہری جبکہ 74 اسرائیلی، جن میں بیشتر فوجی تھے۔

آئی سی سی کے اس فیصلے کے بارے میں بینجمن نیتن یاہو نے ٹوئٹر پر ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی جس میں انہوں نے کہا کہ 'آج شام اسرائیل پر حملہ ہوا ہے، دی ہیگ میں قائم بین الاقوامی عدالت نے ایک فیصلے پر پہنچ گئی ہے جو یہود دشمنی کا نچوڑ ہے'۔

اسرائیلی وزیر خارجہ گبی اشکنازی نے کہا کہ ملک 'اپنے شہریوں اور فوجیوں کو قانونی ظلم و ستم سے بچانے کے لیے ہر ضروری اقدام کرے گا'۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ تحقیقات امن عمل پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔

دوسری جانب فلسطینی حکام نے اس فیصلے کو سراہا۔

مزید پڑھیں: فلسطینی صدر کا امریکا، اسرائیل سے تمام معاہدے ختم کرنے کا اعلان

فلسطینی وزیر خارجہ ریاض المالکی نے ایک بیان میں کہا کہ 'فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کی طرف سے کیے جانے والے جرائم، جو منظم اور بڑے پیمانے پر جاری ہیں، اس تحقیقات کو ضروری اور فوری بناتے ہیں'۔

اس فیصلے پر امریکا کی طرف سے فوری طور پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔

امریکی محکمہ خارجہ نے فروری میں کہا تھا کہ آئی سی سی کے دائرہ اختیار سے متعلق فیصلے کے بارے میں اسے 'شدید تحفظات' ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ اسرائیل کو عدالت کا پابند نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہ ممبر نہیں ہے۔

2019 میں فاتو بنسودا نے تحقیقات کے لیے اپنی ابتدائی درخواست میں کہا تھا کہ اسرائیلی دفاعی فورسز، اسرائیلی حکام، حماس اور فلسطینی مسلح گروہوں کے ممبران کی جانب سے جرائم کا ارتکاب کرنے کی ایک 'معقول بنیاد' موجود ہے۔

آئی سی سی کے پراسیکیوٹر نے یہ بھی کہا کہ 2018 کے بعد سے فلسطینی مظاہرین کی ہلاکتوں کی بھی تحقیقات کی گنجائش موجود ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں