سینیٹ انتخابات کا نتیجہ آچکا اور ایوانِ بالا میں پارٹی پوزیشن بھی واضع ہوچکی ہے۔ قومی اسمبلی کی پولنگ اسٹیشن کی حد تک حکومت کو بڑا دھچکا لگا ہے اور اس بُری خبر کے ردِعمل کا عکس وفاقی وزرا کی پریس کانفرنسز، ترجمانوں کے بیانات اور وزیرِاعظم کے قوم سے خطاب میں اچھی طرح دیکھا جاسکتا ہے۔

یہ سب کیسے ہوگیا؟ جب وفاقی وزیر شیخ رشید احمد اپنا ووٹ کاسٹ کرکے یہ دعویٰ کردیں کہ حفیظ شیخ 180 ووٹ لے کر کامیاب ہوں گے، تو پھر نتائج تو بدلنے نہیں چاہئیں تھے کیونکہ شیخ رشید کی ہر بات میں وزن ہوتا ہے، اور ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ وہ اطلاعات کی بنیاد پر بات کرتے ہیں۔ پھر یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ ان کے ذرائع بڑے مضبوط ہیں جن کی جڑیں پورے ملک میں گہری ہیں۔

لیکن اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے اگرچہ ہر طرح کی اگر، مگر اور مختلف دعووں کے باوجود سینیٹ انتخابات کا ایک قلعہ تو فتح کرلیا، مگر بقول منیر نیازی ایک اور دریا کا سامنا کرنے کے لیے ان کو تیار رہنا پڑے گا، اور وہ دریا چیئرمین سینیٹ کا انتخاب ہے۔

چیئرمین سینیٹ کا انتخاب کتنا اہم؟

جیسا کہ اپوزیشن نے یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین سینیٹ کا امیدوار نامزد کرنے کا بھی اصولی فیصلہ کرلیا ہے اور پی ڈی ایم کی جماعتوں کو ایوانِ بالا میں اکثریت بھی حاصل ہے۔ اگرچہ یہ اکثریت پہلی جتنی نہیں لیکن عددی اعتبار سے پھر بھی اپوزیشن حکومتی اتحاد سے آگے ہے۔ مگر یہاں حکومت نے حکمتِ عملی تبدیل کرتے ہوئے اپوزیشن کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

یعنی اب کی بار بھی حکومت نے اس منصب کے لیے صادق سنجرانی کو ہی نامزد کیا ہے۔ صادق سنجرانی کس قدر مضبوط اور اثر و رسوخ والی شخصیت ہیں اس کا اندازہ 2019ء کو ہونے والے انتخابات سے ہی لگا لینا چاہیے جب اپوزیشن کے 14 سینیٹرز ان کی جھولی میں آکر گرے تھے۔

اگست 2019ء کو سینیٹ میں 64 ممبران کی اکثریت رکھنے والی اپوزیشن نے چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدمِ اعتماد تحریک پیش کی۔ پہلے مرحلے میں 64 ارکان نے تحریک کے حق میں کھڑے ہوکر ووٹ بھی کیا لیکن جب وہ 64 ووٹرز پولنگ بوتھ میں گئے تو ان میں سے 50 ہی وفادار ثابت ہوئے، جبکہ 14 سینیٹرز نے اندر ہی اندر اپنا سودا کرلیا۔

وزیرِاعظم عمران خان نے 26 سینیٹرز پر مشتمل اپنی سب سے بڑی پارٹی کو چھوڑ کر 12 نشستیں رکھنے والی بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کو چیئرمین کے عہدے کی پیشکش کرکے کیا اپنی ہی جماعت پر عدمِ اعتماد کا اظہار نہیں کردیا ہے؟ یا پھر وہ ایک بار پھر وہی کھیل کھیلنے کی کوشش کررہے ہیں جو اس سے پہلے انہوں نے آصف علی زرداری سے ہاتھ ملا کر صادق سنجرانی کو مشترکہ امیدوار نامزد کرکے کھیلا تھا؟

صادق سنجرانی کو اس عہدے پر نامزد کرنے کے کچھ اسباب اور بھی ہیں۔ ایک تو سینیٹ کے ایوان میں حکومتی اتحاد کے پاس اکثریت نہیں، یعنی ان کے پاس کل 43 نشستیں ہیں۔ جن میں سے 26 تحریک انصاف کے پاس، 12 بلوچستان عوامی پارٹی کے پاس، 3 متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے پاس، مسلم لیگ (ق) کے پاس ایک سیٹ ہے، جبکہ ایک آزاد امیدوار بھی ہے۔

دوسری طرف اپوزیشن اتحاد کے پاس کل ملا کر لگ بھگ 53 سینیٹرز ہیں۔ اگر تحریک انصاف اور حکومتی اتحاد کی اکثریت ہوتی تو شاید عمران خان صاحب کبھی بھی اس عہدے کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

اب حکومت نے سینیٹ چیئرمین کے انتخاب کے معاملے پر مکمل ٹاسک صادق سنجرانی اور ان کے ساتھیوں کو سونپ دیا ہے۔ خان صاحب کو بہت حد تک یہ امید ہے کہ سنجرانی صاحب ماضی کی طرح اس بار بھی کچھ کمال کرجائیں گے.

اگر اپوزیشن کی بات کریں تو ان کے لیے یہ حفیظ شیخ کو شکست دینے سے بہت بڑا ٹاسک ہے۔ 12 مارچ کے اس معرکے میں اپوزیشن کے لیے اپنی صفوں میں اتحاد لازمی ہے، اگر ماضی کی طرح گڑبڑ ہوئی تو یہاں حکومت بدلہ لے سکتی ہے۔

وزیرِاعظم کا قوم سے خطاب

چلیے اب کچھ بات کرتے ہیں وزیرِاعظم کے قوم سے خطاب، اعتماد کے ووٹ اور الیکشن کمیشن کے خلاف جاری کی گئی چارج شیٹ پر۔ اگرچہ انہوں نے اس خطاب میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ اس شکست سے ان کو بہت زیادہ فرق نہیں پڑا، لیکن باڈی لینگویج کچھ اور ہی پیغام دے رہی تھی۔

الیکشن کمیشن کے حوالے سے انہوں نے جو کچھ کہا اس پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ کسی وزیرِاعظم نے الیکشن کمیشن کے خلاف اس طرح چارج شیٹ پیش کی ہو۔ لیکن یہ ایک طرفہ معاملہ نہیں ہے، بلکہ اب تو الیکشن کمیشن نے بھی وزیرِاعظم کے اس بیان کا سخت جواب دے دیا ہے۔

مجھے ذاتی طور پر وزیرِاعظم کے اس خطاب میں تضادات نظر آئے۔ مثال کے طور پر ایک طرف وزیرِاعظم آئین اور قانون کی حکمرانی اور اداروں کی تکریم کی بات کرتے ہیں لیکن دوسری طرف وہ ان اداروں پر الزام عائد کررہے ہیں جو قانون کے دائرے میں رہ کر کام کر رہے ہیں۔

جہاں تک اوپن بیلٹنگ کا معاملہ ہے تو الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں اپنا مؤقف واضح کردیا تھا، جسے ملک کی سب سے بڑی عدالت نے احترام کے ساتھ ناصرف قبول کیا لیکن یہ بات تسلیم بھی کی کہ انتخابات کو شفاف بنانے کا ذمہ وار الیکشن کمیشن ہی ہے۔

ماضی میں ہم نے یہ تو دیکھا ہے کہ الیکشن کمیشن پر اپوزیشن جماعتیں ہر طرح کا الزام لگاتی آئی ہیں لیکن جب وزیرِاعظم خود ایسا کریں گے تو ادارے کے اعتماد کو کس قدر نقصان پہنچے گا، یہ سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔

ممکن ہے وزیرِاعظم ڈسکہ کے ضمنی انتخابات میں الیکشن کمیشن کے فیصلے پر بھی غصہ ہوں، لیکن بات پھر بھی وہی ہے کہ اگر وہ یہ باتیں قوم سے خطاب کے دوران نہ کرتے، تو ہی بہتر تھا.

اگر اس خطاب کے دیگر پہلوؤں پر بات کی جائے تو زیادہ تر باتیں وہی تھیں جو وہ پہلے دن سے کرتے آرہے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس مشکل ترین دور میں لوگوں کو شاید اب اچھے خطاب سے زیادہ ریلیف اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے، جو یقینی طور پر اس تقریر میں نہیں تھا۔

یہاں یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ کیا کسی بھی وزیرِاعظم کو ایسا جارحانہ انداز اختیار کرنا چاہیے؟ کیا تمام معاملات تحمل سے عوام کے سامنے رکھ کر اپنی بات میں وزن نہیں پیدا کیا جا سکتا؟

پھر شاید صرف خطاب ہی جذباتی نہیں تھا بلکہ اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ بھی جذباتی پن ظاہر کررہا ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرکے اپنی کرسی بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے کی کوشش کر رہے ہوں۔ لیکن یاد رہے کہ اعتماد کا ووٹ ایک مکمل طور پر آئینی معاملہ ہے۔

یہ عمل صرف اپوزیشن کے مطالبے یا اپنی فرمائش پر نہیں ہونا چاہیے، بلکہ یہ تب ہی ممکن ہے جب صدرِ مملکت یہ سمجھیں کہ ملک کے وزیرِاعظم ایوان کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ اب اگر وزیرِاعظم نے یہ فیصلہ کرلیا ہے تو اس کا دوسرا مطلب یہی ہے کہ صدر کی نظر میں بھی وہ پارلیمنٹ کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ لیکن کیا واقعی صدرِ مملکت ایسا سوچ رہے ہیں؟

اعتماد کے ووٹ سے متعلق آئین کیا کہتا ہے؟

آئین کی شق 91 (7) اعتماد کے ووٹ کے حوالے سے ہے جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ‘وزیرِاعظم صدرِ مملکت کی خوشنودی کے دوران عہدے پر فائز رہے گا، لیکن صدر اس شق (آرٹیکل 91 سب آرٹیکل 7) کے تحت اپنے اختیارات تب تک استعمال نہیں کرے گا جب تک اسے اطمینان نہ ہو کہ وزیرِاعظم کو قومی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کا اعتماد حاصل نہیں ہے۔ اس صورت میں صدر قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرے گا اور وزیرِاعظم کو اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا حکم دے گا’۔

اعتماد کا ووٹ، مطالبات، سفارش، غصے، خوشی، جذبات اور شوقیہ بنیادوں پر نہیں لیا جاسکتا، بلکہ یہ ایک آئینی تقاضہ ہے۔ اس لیے پہلے تو یہ طے ہونا چاہیے کہ کیا صدرِ مملکت سمجھتے ہیں کہ وزیرِاعظم اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کا اعتماد کھو چکے ہیں؟ اگر ایسی بات ہے تو پھر یہ وزیرِاعظم کے سیاسی اور پارلیمانی سفر کی سب سے بڑی شکست ہوگی کہ ان کا اپنا صدر ایسا سوچ رہا ہے۔

آئین کی زبان کو سمجھنا، آئین کا احترام اور تکریم ضروری ہے۔ آئین کے معاملے میں رویہ آمرانہ نہیں ہونا چاہیے۔

وزیرِاعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک نہیں آئی، نہ ہی اپوزیشن کا یہ مطالبہ ہے کہ وزیرِاعظم اعتماد کا ووٹ لیں، تو پھر یہ شوق اور ولولہ کیوں؟ وزیرِاعظم کی آئینی اور قانونی ٹیم کے فیصلوں کو دیکھ کر سمجھ نہیں آتا کہ وہ ٹیم وزیرِاعظم کے ساتھ ہے یا ان کے خلاف؟ اگر ان کے ساتھ ہے تو بار بار ان کو ان محاذوں پر ہزیمت کا سامنے کرنے کے لیے کیوں بھیج دیا جاتا ہے؟

وہ کون سے عناصر اور عوامل ہیں جو وزیرِاعظم کو دفاعی پوزیشن پر کھڑا کردیتے ہیں؟ کبھی ان کو بے بنیاد اور مشکوک قسم کے صدارتی ریفرنس کی سمریوں پر دستخط کرنے پر مجبور کردیا جاتا ہے، کبھی ایسے صدارتی آرڈیننس جاری کروا دیے جاتے ہیں جو ان کے لیے مسائل پیدا کردیتے ہیں۔ اب کی بار بھی اسی قانونی ٹیم نے وزیراعظم کو اعتماد کے ووٹ کے لیے ایسے سمندر میں دھکا دے دیا جہاں بقول وزیرِاعظم ان کی صفوں میں 15 بکاؤ ممبران بیٹھے ہیں۔

اعتماد کے ووٹ کی کامیابی اور ناکامی کی صورت میں 2 الگ الگ منظرنامے

وزیراعظم یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر وہ اعتماد کا ووٹ لینے میں ناکام رہے تو اپوزیشن میں بیٹھ جائیں گے۔ یہ اتنا آسان نہیں جتنا آسان انہوں نے اس خطاب میں صورتحال کو بنادیا ہے۔ اعتماد کے ووٹ کی کامیابی اور ناکامی کی صورت میں 2 الگ الگ منظرنامے بن سکتے ہیں۔

معاملہ یہ ہے کہ یہ کسی بھی طور پر ممکن نہیں کہ ان کی جگہ اپوزیشن کا کوئی بندہ وزیرِاعظم بن جائے۔ یہ فیصلہ تو بعد میں ہونا ہے کہ اعتماد کا ووٹ نہ ملنے کی صورت میں وزیرِاعظم کا تاج کس کے سر پر سجتا ہے۔ اپوزیشن تو اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ معشیت سمیت تمام مسائل کو لے کر خود کو عوام کی نظروں میں گرالے۔

عین ممکن ہے کہ تحریک انصاف کے کسی اور نام پر وزیرِاعظم کے لیے اتفاق ہوجائے اور ایسے نام پر اتفاق ہو۔ ایسا نام جو سیاسی مفاہمت کے لیے تیار ہو، جو مشاورت کا قائل ہو، جو قانون سازی اور قانونی اصلاحات کے لیے اپوزیشن کے پاس جانے سے گھبراتا نہیں ہو، جو مسائل کا حل پارلیمنٹ کے ذریعے حل کرنے پر یقین رکھتا ہو۔

ایسی صورت میں ممکن ہے حکومت اور اپوزیشن مل کر آگے بڑھنے کو ترجیح دیں اور سب سے بڑھ کر انتخابی اصلاحات پر کام ہو۔

لیکن اگر وزیرِاعظم عمران خان اعتماد کا ووٹ لینے میں کامیاب ہوگئے تو پھر دونوں طرف سے شدت پیدا ہوگی۔ عمران خان جہاں اس اعتماد کو لے کر اپوزیشن کے خلاف مزید تیزی سے کارروائی میں اضافہ کریں گے، وہیں اپوزیشن بھی وزیراعظم کے استعفے کے مطالبے میں شدت لائے گی۔

اب تو لانگ مارچ کی ممکنہ تاریخ بھی سامنے آچکی ہے بلکہ پی ڈی ایم کی اسٹیئرنگ کمیٹی نے لانگ مارچ کے ساتھ دھرنے کی بھی سفارش کی ہوئی ہے۔ پھر اس تحریک کا نشانہ شاید صرف عمران خان نہ ہوں اور نہ ہی یہ تحریک اسلام آباد تک محدود رہ سکتی ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ پی ڈی ایم اس تحریک میں جان ڈالنے کے لیے کئی اور شہروں اور راستوں کا انتخاب کرے، جس کا نتیجہ افراتفری اور عدم استحکام کی صورت ہی نکلے گا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Sheets Mar 06, 2021 01:54pm
The article lacks insight.