آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق اسٹیٹ بینک کو خود مختار بنایا جائے گا

اپ ڈیٹ 10 مارچ 2021
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ تعلقات جو ایک سال سے رکے ہوئے تھے، باضابطہ طور پر بحال ہوگئے ہیں، وزیر خزانہ - فوٹو:وائٹ اسٹار
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ تعلقات جو ایک سال سے رکے ہوئے تھے، باضابطہ طور پر بحال ہوگئے ہیں، وزیر خزانہ - فوٹو:وائٹ اسٹار

اسلام آباد: بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے رکے ہوئے پروگرام کی بحالی سے متعلق شرائط کو پورا کرنے کے لیے وفاقی کابینہ نے پارلیمنٹ میں تین اہم بل پیش کرنے کے لیے منظوری دے دی جس میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو غیر معمولی خود مختاری کی اجازت دینے کے حوالے سے بل بھی شامل ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کابینہ کے اجلاس کے بعد ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ 'ہم ان بلوں پر قانون سازی کو تیز تر کریں گے'۔

ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ تعلقات جو ایک سال سے 'وقفے' میں تھے، باضابطہ طور پر بحال ہوگئے ہیں اور آئی ایم ایف بورڈ جلد جائزہ مکمل کرنے کے لیے اجلاس کرے گا اور پاکستان کو اس کے قرضے کی ادائیگی فوری طور پر دوبارہ شروع ہوجائے گی۔

مزید پڑھیں: کابینہ اجلاس میں اسٹیٹ بینک ترمیمی بل 2021 کی منظوری

کابینہ سے منظور شدہ دیگر دو بلز میں کارپوریٹ انکم ٹیکس چھوٹ (انکم ٹیکس سیکنڈ ترمیمی ایکٹ 2021) سے دستبرداری، جس سے یکم جولائی 2021 سے 70 سے 140 ارب روپے اضافی ریونیو حاصل ہوگا اور ریاستی ملکیت والے کاروباری اداروں (حکومت اور آپریشن) بل 2021 شامل ہے۔

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ جن کے ساتھ وزیر برائے صنعت حماد اظہر، وزیر اعظم کے مشیر برائے اصلاحات و سادگی ڈاکٹر عشرت حسین، سیکریٹری خزانہ اور ایف بی آر چیئرمین تھے، نے کہا کہ ایس او ایز ملک میں الجھن کا شکار ہیں اور مختلف وزارتوں اور ریگولیٹرز کو رپورٹ کر رہی ہیں تاہم اب ان پر وزارتوں کی مداخلت سے پاک، متعلقہ بورڈ کے ذریعے حکومت کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت بورڈ آف ڈائریکٹرز کا تقرر کرے گی اور عوامی شعبے میں پیشہ ورانہ مہارت لانے کے لیے سیکریٹریز اور وزرا کی بجائے بورڈ آف ایس او ایز کے چیئرمین اور چیف ایگزیکٹو آفیسرز کا تقرر کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: سونے کی قیمتوں میں کمی کے باوجود مارکیٹ میں مندی کا رجحان

نیز ان تجارتی ایس او ایز کو خریداری کے قواعد کے اطلاق سے مستثنیٰ قرار دیا جائے گا تاکہ وہ آزادانہ فیصلے لیں اور فوری فیصلہ سازی کے ذریعے نجی شعبے کا مقابلہ کریں۔

وزیر نے کہا کہ مجوزہ بلوں سے ملکی اداروں اور اس کے نتیجے میں معیشت کو تقویت ملے گی، مرکزی بینک کے لیے زیادہ سے زیادہ خودمختاری عالمی خودمختاری پرائس کنٹرول کے مینڈیٹ کے ساتھ ہے اور حکومت کی مداخلت کے بغیر یہ ایک خودمختار طریقے سے زر مبادلہ کی شرح اور مالیاتی پالیسی کو اپناتے ہوئے مہنگائی کے خلاف جنگ کرسکے گا۔

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ اس مسودہ قانون نے موجودہ تین سال کی بجائے اسٹیٹ بینک کے گورنر کو 5 سالہ گارنٹی میعاد فراہم کی ہے اور مرکزی بینک سے قرض لینے کے لیے حکومت کے حق کو سرینڈر کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مالیاتی پالیسی اور مالیاتی رابطہ بورڈ کو ختم کیا جارہا ہے اور وفاقی حکومت متعدد کمیٹیوں کے ذریعے مرکزی بینک سے رابطہ کرے گی۔

مزید پڑھیں: یورپی کمیشن نے برآمد کنندگان کی باسمتی چاول سے متعلق درخواست قبول کرلی

ایک سوال کے جواب میں وزیر اور ان کے ساتھیوں نے کہا کہ گورنر یا اسٹیٹ بینک پوری خودمختاری کے باوجود احتساب سے بالاتر نہیں رہیں گے اور وہ پارلیمنٹ میں جوابدہ ہوں گے جہاں وہ وفاقی حکومت کی بجائے اپنی رپورٹ پیش کریں گے۔

ان سے جب سوال کیا گیا کہ حکومت کو ایس بی پی کے لیے ‘مکمل خودمختاری‘ سے متعلق اپنے مؤقف کو تبدیل کرنے کی کیا وجہ تھی تو انہوں نے جواب دینے سے گریز کیا۔

ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک ترمیمی بل پارلیمنٹ میں پیش کرنا آئی ایم ایف کو اپنے ایگزیکٹو بورڈ کے ذریعے توسیعی فنڈ کی سہولت کی بحالی کے لیے پاکستان کے معاملے کو اٹھانے کے لیے مطلوب پیشگی کارروائی تھی لہذا کابینہ نے قانون سازی کے معاملات کو ختم کرنے سے متعلق کابینہ کی کمیٹی سے بھی پرانے اور متنازع بل کی لازمی کلیئرنس کی ضرورت کو معاف کردیا جس نے وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک کی جانب سے پہلے ہی ایک ترمیم شدہ ‘مفاہمت’ کا مسودہ اٹھایا تھا۔

اسٹیٹ بینک ترمیمی بل کے تحت مرکزی بینک کا سرمایہ 500 ارب روپے ہوگا اور اسٹیٹ بینک کو حکومت کی رضامندی سے مشروط قرارداد کے ذریعے مجاز سرمایہ کو بڑھانے کا اختیار دیا جائے گا۔

اسٹیٹ بینک کا ادائیگی شدہ سرمایہ 100 ارب ڈالر ہوگا جو بونس حصص کے اجرا کے ذریعے منافع یا عام ریزرو کے ذریعے یا وفاقی حکومت کے ذریعے نقد رقم میں حصص کی خریداری کے ذریعے حاصل کیا جائے گا۔

حکومت کی جانب سے پیشگی منظوری والا بورڈ ادائیگی کیپٹل میں بھی اضافہ کر سکے گا۔

گورنر کی سربراہی میں اسٹیٹ بینک بورڈ اپنے افعال پر عملدرآمد کے سلسلے میں بینک کی عمومی داخلی پالیسیاں اور قواعد و ضوابط کی وضاحت، منظوری اور اس کا تعین کرنے اور داخلی قواعد کی منظوری اور غیر ملکی زرمبادلہ ریزرو مینجمنٹ، اسٹریٹجک سرمایہ کاری اور رسک پالیسی کی تشکیل اور نگرانی کرنے کے لیے آزاد ہو گا۔

بورڈ کو مرکزی بینک کا بجٹ، سالانہ رپورٹس اور مالی بیانات کی منظوری اور داخلی اور بیرونی آڈٹ، تعمیل، داخلی کنٹرول اور رسک مینجمنٹ سے متعلق اسٹیٹ بینک کی پالیسیاں اپنانے اور مانیٹر کرنے کا اختیار بھی حاصل ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں