لکھاری سابق سفیر ہیں اور جارج ٹاؤن اینڈ سائراکس یونیورسٹی سے بطور ایڈجنکٹ فیکلٹی وابستہ ہیں۔
لکھاری سابق سفیر ہیں اور جارج ٹاؤن اینڈ سائراکس یونیورسٹی سے بطور ایڈجنکٹ فیکلٹی وابستہ ہیں۔

ماضی قریب میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی بنیاد چین اور بھارت کے حوالے سے امریکا کی پالیسی، افغان جنگ اور بین الاقوامی دہشتگردی کے حوالے سے امریکا کے تحفظات رہے ہیں۔ اس وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات بہتر بھی نہیں رہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے بھی ان تعلقات کے مستقبل کے حوالے سے کوئی اشارہ نہیں دیا ہے کہ آگے کیا ہوگا۔

سرکاری بیانات اور تھنک ٹینکس کی رپورٹس کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان ایسے تعلقات کی امید رکھتا ہے جن میں امریکا بھارت اور پاکستان کے درمیان توازن قائم رکھے اور پاک چین تعلقات میں مداخلت نہ کرے۔ تاہم پاکستان کے طرزِ عمل سے اس بات کا کوئی اشارہ نہیں مل رہا کہ پاکستان ان متصادم مقاصد کو حاصل کرنے اور امریکی پالیسی میں مطلوبہ تبدیلی لانے کے لیے کیا اقدامات کرے گا۔ ہمیں صرف یہ بات بتائی جارہی ہے کہ پاکستان عالمی سیاست سے آگے بڑھ کر عالمی تجارت کی جانب جارہا ہے۔

درحقیقت صرف تجارت سے کچھ نہیں ہوگا، خاص طور پر تب، جب ایک اقتصادی شراکت دار کے طور پر پاکستان کی حیثیت واضح ہے۔ یہاں تاریخ پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ پاکستان اور امریکا کے قریبی تعلقات کی بنیاد تاریخی اعتبار سے سیاسی ہی رہی ہے (1954ء سے 1965ء تک اور پھر 1979 سے 1990ء تک) یا پھر ان تعلقات کی وجہ امریکا اور عالمی امن کو لاحق خطرات رہے (2001ء سے 2011 تک)۔ اور یہیں ان تعلقات نے منطقی صورت اختیار کی۔

ان دونوں ممالک کے تعلقات کی بنیاد آج بھی سیاسی ہی ہے تاہم اب یہ تعلقات تنازعات کا باعث بن رہے ہیں۔ لیکن افغانستان کے استحکام اور انسدادِ دہشتگردی جیسے شعبوں میں اب بھی تعاون ممکن ہے۔

امریکا کا خیال ہے کہ اگر افغانستان میں شورش جاری رہی تو اس سے دہشتگردی پروان چڑھے گی، یہ دہشتگردی ناصرف افغانستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہوگی بلکہ اس سے پاکستان میں بھی دہشتگردی کو ہوا ملے گی اور یوں ایک ایٹمی ملک عدم استحکام کا شکار ہوسکتا ہے۔ دوسری جانب بھارت کو بھی جہادیوں سے خطرہ ہے اور اس کا اثر امریکا کی چین کے حوالے سے پالیسی پر پڑسکتا ہے۔ یہی شعبے دونوں ممالک کے درمیان تاثر، پالیسی اور مفادات کے تصادم کا باعث بھی ہیں۔

امریکا ان مسائل کو کس طرح حل کرے گا اس کا دار و مدار امریکا کی چین اور افغان پالیسوں پر تو ہوگا ہی کہ جن پر اس وقت نظرثانی جاری ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ امریکا کی جانب سے یہ بھی دیکھا جائے گا کہ پاکستان کی پالسیاں امریکی مفادات سے کس حد تک مطابقت رکھتی ہیں۔

امریکا افغانستان میں ایک نئی جنگ کا آغاز نہیں چاہتا اور نہ ہی وہ فروری 2020ء کے معاہدے کو مکمل طور پر ختم کرنا چاہتا ہے۔ امریکا شاید یہ جنگ تو ہار چکا ہو لیکن وہ اب بھی افغانستان کو عدم استحکام سے بچانے کی صلاحیت ضرور رکھتا ہے۔ تاہم اس کام کے لیے اسے پاکستان کی مدد ضرور درکار ہوگی۔ لیکن اس وقت افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی کوئی واضح پالیسی نظر نہیں آرہی۔

امریکی پالیسیوں میں تواتر کے ساتھ اعتماد کا فقدان نظر آرہا ہے۔ جو لوگ ایک اتحادی کی حیثیت سے امریکا کے حوالے سے شبہات کا شکار ہیں انہیں پاکستان کی تاریخ پر بھی نظر ڈالنی چاہیے۔

ماضی میں امریکا پاکستان کو لاحق اقتصادی اور دفاعی چلنجز سے نمٹنے میں مدد کرتا رہا ہے۔ لیکن 1980ء کی دہائی اور 9/11 کے بعد معاملات پیچیدہ ہونا شروع ہوئے اور جنرل ضیا اور جنرل مشرف کو امریکا کی جانب سے مالی اور سیاسی مدد کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے امریکا سے تعلقات میں پاکستان کے مفادات کے بجائے اپنے مفادات کو ترجیح دی۔ بدقسمتی سے پاکستان غیروں سے زیادہ اپنوں کی بنائی گئی غلط پالیسیوں اور اقدامات کی بھینٹ چڑھ گیا۔

پاکستان کی پالیسیوں کو دوسروں سے پہلے اپنوں کی حمایت درکار ہوگی، اور اگر پاکستان اب سیاست سے تجارت کی جانب بڑھنا چاہتا ہے تو اسے امریکا کے ساتھ اسٹریٹجک اور دفاعی معاملات پر کسی نتیجے پر پہنچنا ہوگا ورنہ یہ مسائل بار بار اقتصادی شراکت کی راہ میں حائل ہوتے رہیں گے۔

پاکستان کو اقتصادی شراکت دار کے طور پر اپنی حیثیت کو بھی مستحکم کرنا ہوگا اور اس کے لیے پاکستان کو اپنی معیشت کو مضبوط بنانا ہوگا، ساتھ ساتھ قومی مقاصد کے گرد قائم سلامتی کے معاملات سے باہر نکلنا ہوگا اور ایسی پالیسیاں اپنانی ہوں گی جو اس کے محل وقوع کو واقعی ایک اثاثہ بنائیں۔

اقتصادی شراکت دار کے طور پر پاکستان کی اہمیت اس وقت تک واضح نہیں ہوگی جب تک افغانستان میں استحکام نہیں آجاتا اور پاکستان، وسط ایشیا کے لیے پائپ لائنوں اور تجارت کا مرکز نہیں بن جاتا۔

پاکستان کو امریکا کے ساتھ تعلقات میں بہت زیادہ تبدیلی کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ امریکا ان تعلقات کو زیادہ وسعت دینا نہیں چاہتا۔ پاکستان کو چاہیے کہ افغانستان کے معاملے اور انسدادِ دہشتگردی کے معاملات کے ساتھ آغاز کرے اور اعتماد سازی کی کوشش کرے۔ اس کے بعد بات چیت کو بڑھاتے ہوئے متفقہ معاملات پر تعاون کرے اور اختلافات کو حل کرنے کی کوشش کرے۔ طویل مدت میں دیکھا جائے تو امریکا پاکستان کو مکمل طور چین پر منحصر نہیں چھوڑ سکتا اور یہی وہ معاملہ ہے جہاں دونوں کا تعاون ممکن ہے۔

پاکستان کو ذوالفقار علی بھٹو کے ’دو طرفیت‘ کے نظریے پر نظرثانی کرنی چاہیے اور اس فکر کو چھوڑ دینا چاہیے کہ امریکا سے تعلقات استوار کرنے میں وہ چین کو کھو دے گا۔ پاکستان کو خود کو اتنا مضبوط بنانا ہوگا کہ امریکا اور چین دونوں کو ہی پاکستان کی ضرورت ہو۔ اس کے برعکس ایک کمزور پاکستان کو بھی امریکا اور چین دونوں کی ضرورت ہوگی لیکن ایسا پاکستان کسی ایک کے ساتھ ہی تعلقات رکھ سکتا ہے۔


یہ مضمون 13 مارچ 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں