پی ڈی ایم اجتماعی استعفوں کے بعد حکمت عملی بتانے میں ناکام رہی، پیپلز پارٹی

اپ ڈیٹ 18 مارچ 2021
انہوں نے مزید کہا کہ آپ 20 یا 30 نشستوں پر ضمنی انتخابات کر سکتے ہیں لیکن 161 نشستوں پرنہیں۔ 
---فائل فوٹو: اے ایف پی
انہوں نے مزید کہا کہ آپ 20 یا 30 نشستوں پر ضمنی انتخابات کر سکتے ہیں لیکن 161 نشستوں پرنہیں۔ ---فائل فوٹو: اے ایف پی

اسمبلیوں سے اجتماعی استعفوں سے متعلق پاکستان پیپلز پارٹی نے دعوی کیا ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں شامل جماعتیں واضح روڈ میپ اور استعفے کے بعد کی حکمت عملی فراہم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی پی پی کے سیکریٹری جنرل نیئر بخاری نے الزام عائد کیا کہ 9 جماعتوں نے پارٹی استعفوں کو لانگ مارچ سے جوڑ دیا ہے ان سے متعدد مرتبہ اس حکمت عملی کے بارے میں پوچھا گیا جو وہ اسمبلیوں سے استعفے پیش کرنے کے بعد اختیار کریں گے لیکن ’وہ ہمارے سوالات کے جوابات دینے میں ناکام رہے‘۔

مزید پڑھیں: 'ایک تھی پی ڈی ایم، جو ماضی کا حصہ بن چکی ہے'

نیئر بخاری نے ان خبروں کی تردید کی کہ پیپلز پارٹی استعفوں سے بھاگ رہی ہے کیونکہ اگر پارٹی نے اسٹیبلشمنٹ سے معاہدہ کیا ہوتا تو یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ کے انتخاب میں ایسی شکست کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔

انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم جماعتیں استعفے پیش کرنے کے بعد صورتحال پر ہمیں مطمئن کرنے میں ناکام رہیں۔

رہنما پیپلز پارٹی نے کہا کہ پی ڈی ایم کے اعلامیے پر عمل پیرا ہونے کے لیے پارٹی اب بھی پرعزم ہے اور گزشتہ برس ستمبر میں ان کی کثیر الجماعتی کانفرنس (ایم پی سی) کے بعد جاری کردہ ایکشن پلان کو ہر چیز کے لیے پی پی پی کو مورد الزام ٹھہرانا غلط تھا۔

پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ ایکشن پلان میں عدم اعتماد کے ووٹ اور لانگ مارچ سمیت دیگر تمام آپشنز کو بروئے کار لانے کے بعد استعفوں کے استعمال کو آخری حربے کے طور پر ذکر کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: استعفوں سے متعلق حتمی فیصلہ آئندہ ہفتے ہوگا، پی ڈی ایم

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی، پی ڈی ایم کے ایجنڈے کو نافذ کرنے کے لیے پرعزم ہے جس میں حکومت کو ختم کرنا بھی شامل ہے۔

پیپلز پارٹی کے ایک اور سینئر رہنما نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی لانگ مارچ سے استعفوں کو جوڑ نے پر پی ڈی ایم کی حکمت عملی پر حیرت زدہ ہے۔

دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ نواز (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے اس بات کی تردید کی کہ انہوں نے استعفے کے بعد کا کوئی روڈ میپ فراہم نہیں کیا۔

مزید پڑھیں: ملتان میں پی ڈی ایم کا پاور شو، گھنٹہ گھر چوک جلسہ گاہ میں تبدیل

انہوں نے کہا کہ ہم نے پی ڈی ایم اجلاس میں اس کے بارے میں پوری طرح سے بات کی تھی اور یہاں تک کہ ممکنہ طور پر بدترین حالات پر بھی بحث ہوئی۔

احسن اقبال نے اس پر افسوس کا اظہار کیا کہ پیپلز پارٹی نے طویل عرصے سے سیاسی اور پارلیمانی تجربہ رکھنے والی 9 جماعتوں کی رائے کا احترام نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ 9 جماعتوں کا اجتماعی نظریہ ہے کہ حزب اختلاف کے اراکین اسمبلی کے استعفے پیش کرنے کے بعد حکومت منہدم ہوجائے گی کیونکہ 450 سے زیادہ حلقوں میں ضمنی انتخابات میں جانا ممکن نہیں ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کو اجلاس میں بتایا گیا کہ وہ پہلے مرحلے میں صرف قومی اسمبلی سے استعفے پیش کرنے پر غور کرسکتی ہیں اگر پارٹی سندھ میں اپنی صوبائی حکومت کو قربان نہیں کرنا چاہتی ہے۔

احسن اقبال نے کہا حکومت کے لیے یہ ممکن نہیں ہوگا کہ 161 نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوں اس سے ’نظام کی قانونی حیثیت کا سوال پیدا ہوجائے گا‘۔

مزیدپڑھیں: حکومت دو دن میں پی ڈی ایم جلسے کی اجازت کے متعلق فیصلہ کرے، لاہور ہائیکورٹ

انہوں نے مزید کہا کہ آپ 20 یا 30 نشستوں پر ضمنی انتخابات کر سکتے ہیں لیکن 161 نشستوں پر نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 9 جماعتوں کو یقین ہے کہ اپوزیشن کے بڑے پیمانے پر استعفوں کے بعد پورا نظام ختم ہوجائے گا۔

بدترین صورتحال کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے اسپیکر غیر معینہ مدت یا طویل مدت کے لیے اپنے استعفے نہیں دے سکے گا۔

انہوں نے کہا کہ اگر اسپیکر اور حکومت کے لیے اپوزیشن کے اراکین نے ان سے استعفے قبول کرنے کو کہا تو وہ روزانہ ان کا محاصرہ کرنا شروع کردیں اور ملک میں ایک ڈراما ہوگا۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ یہاں تک کہ اگر حکومت خالی نشستوں پر بھی مرحلہ وار اور اپنے وقت اور مقام کی اپنی پسند کے مطابق ضمنی انتخابات کرانے کا فیصلہ کرتی ہے تو پھر پی ڈی ایم دوبارہ مشترکہ طور پر انتخابات لڑ سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک عدم اعتماد کا فیصلہ پی ڈی ایم کرے گی، مریم نواز

انہوں نے مزید کہا کہ نشستوں سے استعفیٰ دینا ’مستقل بحران‘ پیدا کرے گا کیونکہ ایک وقت پر آپ کو خطرہ مول لینا ہوگا سیاست میں 2 جمع 2 ہمیشہ چار نہیں ہوتے ہیں۔

علاوہ ازیں پشاور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پی ڈی ایم کے صدر اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے پیپلز پارٹی کے رویے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں 9 جماعتوں کی رائے اور نقطہ نظر کا احترام کرنا چاہیے تھا۔

انہوں نے اس اُمید کا اظہار کیا کہ پیپلز پارٹی اپنی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی (سی ای سی) کے اجلاس میں 9 جماعتوں کی اجتماعی رائے پر غور اور احترام کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ وہ پی پی پی کو پی ڈی ایم کی صفوں میں رکھنا چاہتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے سابق صدر آصف علی زرداری کی پی ڈی ایم سے متعلق تقریر سے متعلق کہا کہ پی ڈی ایم کے اجلاس میں ہونے والی بات چیت امانت تھی جسے ایسے ہی خفیہ رکھا جانا چاہیے اور اس کارروائی کو ظاہر کرنا اعتماد کی خلاف ورزی کرنے کے مترادف ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'پی ڈی ایم کی تحریک اقتدار کی جنگ نہیں ہے'

دوسری طرف پیپلز پارٹی کے رہنما نیئر بخاری نے مولانا فضل الرحمٰن کی تنقید کا جواز پیش کیا کہ یہ اجلاس پیپلز پارٹی کے احاطے میں نہیں ہوا تھا اور اس کی میزبانی مسلم لیگ (ن) نے کی تھی اور ویڈیو لنک کا انتظام بھی مسلم لیگ (ن) نے کیا تھا۔

قبل ازیں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنما راجا پرویز اشرف نے کہا کہ پارٹی جمہوریت پر یقین رکھتی ہے اور اس نے ہر جمہوری حکومت کو اپنے جمہوری اقدامات سے شکست دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی پی پی نے پی ڈی ایم میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کو ضمنی انتخابات میں حصہ لینے پر راضی کیا اور پی ڈی ایم نے چاروں صوبوں میں کامیابی حاصل کی۔

راجا پرویز اشرف نے کہا کہ پی ڈی ایم میں پیپلز پارٹی کے مشورے پر لیے گئے تمام فیصلے درست اور پختہ ثابت ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ استعفے پہلے یا دوسرا آپشن نہیں بلکہ سرکاری پیکنگ بھیجنے کا آخری آپشن تھا۔

راجا پرویز نے کہا کہ پیپلز پارٹی پنجاب اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک لانا چاہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے لانگ مارچ کی تیاری کرلی ہے لیکن جب لانگ مارچ سے استعفے منسلک ہوگئے تو پیپلز پارٹی نے اپنی سی ای سی سے مشورہ کرنے کے لیے وقت مانگا۔


یہ خبر 18 مارچ 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں