ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر طارق بنوری نے خیبر پختونخوا کی سرکاری جامعات ملک کی مہنگی ترین درس گاہ قرار دے دیا۔

ڈان کی رپورٹ کے مطابق گورنر ہاؤس میں پبلک سیکٹر کی جامعات کے انتظامی اور مالی امور کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر طارق بنوری نے کہا کہ صوبے کی جامعات میں غیر ضروری اخراجات اور زائد ملازمین کی وجہ سے وہ مہنگی تدریس کے طور پر سامنے آئی ہیں۔

مزیدپڑھیں: پیپلز پارٹی کا سرکاری جامعات کے مالی بحران پر تحفظات کا اظہار

صوبائی اور وفاقی حکام کے اجلاس کی صدارت خیبرپختونخوا کے گورنر اور سرکاری جامعات کے چانسلر شاہ فرمان کی زیر صدارت ہوئی۔

جامعات کے مسائل کو حل کرنے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے بلائے جانے والے اجلاس میں وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود، خیبرپختونخوا وزیر اعلی کے معاون خصوصی برائے اعلی تعلیم کامران بنگش، ایچ ای سی کے سربراہ طارق بنوری اور وزیر اعظم کے ٹاسک فورس سائنس کے چیئرمین ڈاکٹر عطا الرحمٰن نے شرکت کی۔

خیبرپختونخوا کی بیشتر جامعات کو گزشتہ کئی برس سے مالی اور انتظامی مسائل کا سامنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سرکاری جامعات کا سنگین مالی بحران

اجلاس میں شریک ایک عہدیدار نے بتایا کہ ایچ ای سی کے چیئرمین طارق بنوری نے اصرار کیا کہ جامعہ پشاور نے ایک طالب علم پر سالانہ 3 لاکھ روپے خرچ کیے اور یہ اخراجات بہت زیادہ ہیں۔

انہوں نے گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسمعیل خان اور پشاور کی زراعت یونیورسٹی میں بھی ضرورت سے زیادہ تعلیمی اخراجات کے بارے میں بھی شکایت کی۔

ذرائع نے بتایا کہ تینوں جامعات شدید مالی بحران کے سبب تنخواہ اور پنشن کی ادائیگی کے لیے کوشش کر رہی ہیں۔

صوبائی انسپیکشن ٹیم کی حالیہ تحقیقات کے مطابق یونیورسٹی آف پشاور میں گزشتہ ایک دہائی میں 2 ہزار 756 ملازمین کی غیر قانونی تقرری اور غیر مجاز ملازمین کو متعدد الاؤنسز کی ادائیگی کی وجہ سے سخت مالی بحران کا سامنا ہے۔

مزیدپڑھیں: دنیا کی 500 بہترین جامعات میں قائداعظم یونیورسٹی ایک مرتبہ پھر شامل

63 صفحات پر مشتمل انکوائری رپورٹ کے مطابق جامعہ پشاور سیکڑوں ملازمین کو ہر سال لاکھوں روپے اپنے ملازمین کو ادا کررہی ہے جس کے وہ حقدار نہیں ہیں۔

اس موقع پر گورنر نے کہا کہ سرچ اینڈ سکروٹنی کمیٹی کو وائس چانسلرز کے انتخاب اور شارٹ لسٹنگ کے طریقہ کار کا جائزہ لینا چاہیے۔

ایک عہدیدار نے بتایا کہ گورنر نے ڈاکٹر عطا الرحمٰن سے امیدوار کی انتظامی صلاحیتوں کو مزید ’ویٹ ایج‘ دینے کے لیے کہا۔

انہوں نے یہ بھی اصرار کیا کہ اس قانون میں ایڈمنسٹریٹر کے لیے گنجائش موجود ہونی چاہیے صرف ایک ماہر تعلیم ہی وائس چانسلر بن سکتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں