پی ایل ایل نے ایل این جی کارگو طے شدہ ڈالر کے نرخ میں طلب کرلیا

اپ ڈیٹ 23 مارچ 2021
بولی لگانے والے بولی کے دستاویز کا بغور جائزہ لیں کیونکہ اس عمل میں کچھ اہم اصلاحات نافذ کی گئیں ہیں، پی ایل ایل - فائل فوٹو:رائٹرز
بولی لگانے والے بولی کے دستاویز کا بغور جائزہ لیں کیونکہ اس عمل میں کچھ اہم اصلاحات نافذ کی گئیں ہیں، پی ایل ایل - فائل فوٹو:رائٹرز

اسلام آباد: خریداری کے قواعد میں نرمی کے ساتھ ہی پاکستان نے 30 اپریل سے 28 جون کے درمیان سپلائی کے لیے ڈالر کی طے شدہ قیمت پر 8 امپورٹڈ لیکیفیڈ نیچرل گیس (ایل این جی) کارگو طلب کرلیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ایل این جی لمیٹڈ (پی ایل ایل)، جو ایل این جی درآمد کرنے کے ذمہ دار عوامی شعبوں میں سے ایک ہے، نے پیر کو مئی اور جون میں 8 کارگو کی فراہمی کے لیے بولی کی دعوت دی تھی اور 30 مارچ کی آخری تاریخ (تقریباً ایک ہفتے کا وقت) طے کیا تھا۔

کمپنی معاہدوں کی بولی کی جانچ پڑتال اور ایوارڈ کے درمیان وقت کو بھی کم کرے گی۔

مزید پڑھیں: کمپنیوں کا گیس کی قیمتوں میں 220 فیصد اضافے کا مطالبہ

30 اپریل کو ایک کارگو کی فراہمی اور اس کے بعد مئی میں چار ہفتوں اور جون میں تین ہفتوں کے لیے بولی کی دعوت دی گئی ہے۔

پی ایل ایل نے اپنی ویب سائٹ پر لکھا کہ 'بولی دہندگان سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ بولی دستاویز کا بغور جائزہ لیں کیونکہ اس عمل میں کچھ اہم اصلاحات نافذ کی گئیں ہیں'۔

کمپنی نے بولی دہندگان سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اپنی بولیاں برینٹ کروڈ پرائز سے منسلک کرنے کے بجائے طے شدہ ڈالر کے نرخ میں پیش کریں۔

کچھ مہینوں قبل چند ہنگامی ٹینڈرز کے علاوہ پی ایل ایل نے ہمیشہ برینٹ کروڈ پرائز کے طور پر بولی طلب کی تھی۔

اس کے نتیجے میں مختلف اقسام کی حدود اور بولی کی قیمتیں زیادہ ہوگئیں کیونکہ سپلائی کرنے والوں کو اپنے جہازوں اور ایل این جی کو روکنا پڑا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: لائسنس کے اجرا میں تاخیر نے ایل این جی ٹرمینلز کی تعمیر روک دی

یہ اقدام نجی اسپاٹ پلیئرز کے برعکس تھا جو مختصر نوٹس پر حتمی فیصلے کرسکتے ہیں۔

گزشتہ مہینے کے آخر میں وفاقی کابینہ نے پی ایل ایل کو پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (پی پی آر اے) کے قواعد 35 سے جزوی چھوٹ دے دی تھی جس میں تشخیصی رپورٹ کے اعلان اور اسپاٹ کارگو کے لیے ٹینڈرز دینے کے درمیان مدت میں نرمی کی گئی تھی۔

واضح رہے کہ پاکستان کی کل ایل این جی کی نصف سے زیادہ درآمدات طویل المدتی معاہدوں پر مبنی ہیں جبکہ باقی ضروری مقدار اسپاٹ ٹینڈرز کے ذریعے پوری کی جاتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں