سعودی عرب کی حوثی باغیوں کو 'جامع جنگ بندی' کی پیشکش

اپ ڈیٹ 23 مارچ 2021
سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان ریاض میں پریس کانفرنس کررہے تھے — فوٹو: اے پی
سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان ریاض میں پریس کانفرنس کررہے تھے — فوٹو: اے پی

ریاض: سعودی عرب نے یمن کے حوثی باغیوں کو اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ایک جامع جنگ بندی کی پیش کش کی ہے جس کا مقصد تباہ کن چھ سالہ تنازعے کا خاتمہ ہے۔

ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق لیکن حال ہی میں تیل کی تنصیبات سمیت سعودی عرب کی تنصیبات پر حملوں میں تیزی لانے والے ایران کے حمایت یافتہ حوثیوں نے ریاض کے اقدامات کو یہ کہہ کر مسترد کردیا ہے یہ 'کوئی نئی بات نہیں'۔

مزید پڑھیں: سعودی عرب کا حوثی باغیوں کا ڈرون حملہ ناکام بنانے کا دعویٰ

6 سال سے جاری اس تنازع میں حال ہی میں تیزی آئی ہے اور حوثی باغی سعودی عرب کی حمایت یافتہ یمنی حکومت کے زیر اثر شمالی علاقے میں واقع آخری مضبوط گڑھ پر قبضہ کرنے کے انتہائی قریب پہنچ گئے ہیں۔

سعودی حکومت نے مذاکرات کی پیش کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ اس اقدام کے تحت 'اقوام متحدہ کی نگرانی میں ملک بھر میں ایک جامع جنگ بندی' شامل ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ریاض نے باغیوں کے زیر قبضہ دارالحکومت صنعا میں ہوائی اڈے کو دوبارہ کھولنے اور یمنی حکومت اور حوثیوں کے مابین سیاسی مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کی بھی تجویز پیش کی۔

سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے ریاض میں صحافیوں کو بتایا کہ ہم چاہتے ہیں کہ بندوقیں بالکل خاموش ہوجائیں اور جیسے ہی حوثی باغی اس معاہدے پر رضامندی ظاہر کریں گے، اس پر عملدرآمد شروع ہو جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب کو نشانہ بنانے والے حوثیوں کے 4 ڈرون گرائے، عرب اتحاد

حوثیوں نے ریاض کے اقدامات کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ یہ 'کوئی نئی بات نہیں' اور اپنے مطالبے کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ پہلے یمن پر سعودی قیادت میں کی گئی ہوائی اور سمندری ناکہ بندی کو ختم کیا جائے۔

حوثی باغیوں کے المسیرا ٹیلی ویژن کے مطابق حوثیوں کے ترجمان محمد عبد السلام نے کہا کہ سعودی عرب کو جارحیت کے خاتمے کا اعلان اور ناکہ بندی کو مکمل طور پر ختم کرنا چاہیے۔

گزشتہ سال اپریل میں باغیوں سے لڑنے والے سعودی عرب کی زیر قیادت فوجی اتحاد نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے جنگ سے متاثرہ یمن میں عارضی جنگ بندی کا آغاز کیا تھا لیکن حوثیوں نے اس اقدام کو سیاسی چال قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا تھا۔

اس تازہ تجویز کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی جانب سے ایک عرصے سے تعطل کا شکار امن مذاکرات کی بحالی کے لیے ایک نئی تجویز پیش کی گئی ہے۔

امریکا نے حالیہ عرصے میں یمن میں سعودی عرب کی جارحانہ کارروائیوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی عرب پر ڈرون اور میزائل حملوں کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کی مذمت کی ہے۔

مزید پڑھیں: سعودی آئل ریفائنری پر حوثی باغیوں کا ڈرون حملہ

سعودی عرب کی توانائی کی تنصیبات پر رواں ماہ کے دوسرے بڑے حملے میں ایک ڈرون حملے کے نتیجے میں جمعہ کو ریاض کی آئل ریفائنری میں آگ لگ گئی تھی اور اس حملے کی ذمے داری ایران کے حمایت یافتہ باغیوں نے قبول کی تھی۔

حوثی، سعودی حکومت کی حمایت یافتہ یمن کی فورسز پر دباؤ ڈالتے ہوئے یمنی حکومت کے آخری شمالی گڑھ مارب کی طرف بھی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔

گزشتہ ہفتے سعودی عرب کی زیر قیادت اتحاد نے کہا تھا کہ انہوں نے تیل سے مالا مال خطے کے دارالحکومت مارب پر حوثی باغیوں کی تیزی سے پیش قدمی کے پیش نظر باغیوں پر فضائی حملے کیے ہیں تاکہ مقامی فورسز کی مدد کی جا سکے۔

اگر یہ شہر یمنی حکومت کے پاس چلا جاتا ہے تو حکومت کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہو گا لیکن اس سے شہریوں کے لیے تباہ کن خطرہ بھی ہو گا کیونکہ کم از کم 10 لاکھ بے گھر افراد یہاں عارضی پناہ گاہوں میں مقیم ہیں جبکہ بہت سے ارد گرد کے صحرا میں ویران کیمپوں میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔

ریاض نے 2015 میں یمن کی عالمی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کی حمایت میں فوجی اتحاد کی قیادت کرتے ہوئے وہاں چڑھائی کی تھی لیکن انہیں حوثی باغیوں کو ملک سے بے دخل اور ان کے حوصلے پست کرنے میں اب تک مکمل ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا حوثی باغیوں کو عالمی دہشت گرد تنظیم کی فہرست سے نکالنے کیلئے تیار

اس اتحاد نے ایران کی جانب سے باغیوں کو فراہم کیے جانے والے اسلحہ کی روک تھام کے لیے بحری اور ہوائی ناکہ بندی کردی تھی البتہ تہران ان الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔

یمن کو دنیا کا بدترین انسانی بحران قرار دینے والے اقوام متحدہ نے گزشتہ ماہ انتباہ دیا تھا کہ اگر ماریب کی لڑائی جاری رہی تو اس کے عام شہریوں پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔

یمن کی اس طویل جنگ میں کئی ہزار افراد ہلاک اور بے گھر ہو چکے ہیں جس میں سے اکثریت عام شہریوں کی ہے جبکہ اس لڑائی نے معیشت اور صحت کے نظام کو بھی تباہ کردیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں