این سی ایچ آر، این سی ایس ڈبلیو میں تعیناتیوں سے متعلق کابینہ کا فیصلہ کالعدم قرار

30 مارچ 2021
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو پبلک نوٹس /اشتہار واپس لینے کی ہدایت کردی —فائل فوٹو: ہائی کورٹ ویب سائٹ
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو پبلک نوٹس /اشتہار واپس لینے کی ہدایت کردی —فائل فوٹو: ہائی کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر) اور قومی کمیشن برائے حیثیت خواتین (این سی ایس ڈبلیو) کے چیئرپرسنز کی تعیناتیوں سے متعلق وفاقی کابینہ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے وزات انسانی حقوق کو قانونی دفعات پر عمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق این سی ایچ آر ایکٹ 2012 کی دفعہ 4 کے مطابق وفاقی حکومت کو کمیشن کے اراکین اور چیئرپرسنز کی تعیناتیوں کے لیے موزوں افراد سے متعلق تجاویز طلب کرنے کا اختیار ہے۔

مناسب اسکروٹنی کے بعد وفاقی حکومت کو موزوں افراد کی فہرست وزیراعظم اور قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر کے پاس جمع کروانی ہوگی، این سی ایس ڈبلیو میں بھی تعیناتی کا طریقہ کار یہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:قومی کمیشن برائے انسانی حقوق 6 ماہ سے غیر فعال

بعدازاں وزیراعظم اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے پارلیمانی کمیٹی کو 3 نام بھجوائیں گے تا کہ ہر عہدے پر تعیناتی کے لیے سماعت اور توثیق کی جاسکے، تاہم اگر اتفاق رائے نہ ہوا تو دونوں پارلیمانی کمیٹی کو علیحدہ فہرست فراہم کریں گے۔

چنانچہ ایک شہری نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو ایک پٹیشن کے ذریعے بتایا کہ کابینہ کے 17 نومبر کے فیصلے کے بعد وزارت انسانی حقوق نے متعدد روزناموں میں پبلک نوٹسز شائع کروائے تھے جس میں سے ایک اشتہار کی نقل عدالت میں جمع بھی کروائی گئی۔

عدالت نے پبلک نوٹسز کا جائزہ لیا اور کہا کہ تجاویز کے ساتھ ساتھ دلچسپی رکھنے والے افراد سے درخواستیں بھی مانگی گئی ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے نشاندہی کی کہ این اسی ایچ آر کا ایکٹ 2012 واضح کرتا ہے کہ قانون ساز دلچسپی رکھنے والے افراد سے درخواستیں نہیں طلب کرسکتے۔

مزید پڑھیں: انسانی حقوق کے لیے قائم قومی کمیشن سال بھر سے فعال نہ ہوسکا

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ مذکورہ ایکٹ کی دفعہ 4 میں استعمال ہوئی زبان واضح ہے ، موزوں امیدواروں کے لیے تجاویز کی طلبی اور دلچسپی رکھنے والے افراد سے درخواست کی طلبی میں فرق ہے اور آخر الذکر جملے کا ایکٹ میں ذکر نہیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ دفعہ 4 میں مضمر ہے کہ شہری یا ادارے تجاویز دیں گے مثلاً پاکستان بار کونسل، ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشنز، انسانی حقوق کمیشن پاکستان اور فیڈرل یونین آف جرنلسٹ وغیرہ۔

عدالت نے کہا کہ کابینہ کا فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ اس نے اپنے سامنے موجود سمری کی بنیاد پر متعلقہ وزارت کو اس عمل کے آغاز کی ہدایت کی۔

عدالت نے قرار دیا کہ کابینہ کو ارسال کردہ سمری این سی ایچ آر ایکٹ کی دفعہ 4 کی غلط تشریح پر بنیاد کرتی تھی اور درخواستوں کی طلبی اس ایکٹ کی دفعہ 4 کی خلاف ورزی ہے۔

نتیجتاً اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو پبلک نوٹس /اشتہار واپس لینے کی ہدایت کردی اور کہا کہ اس عمل کو بامعنی اور مؤثر بنانے کے لیے وزارت انسانی حقوق تجاویز کے نوٹسز شائع کروانے کے بعد متعلقہ اسٹیک ہولڈرز سے رابطہ کرے۔

تبصرے (0) بند ہیں