پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت جب سے قائم ہوئی ہے اس وقت سے کپتان اپنی ٹیم کے انتخاب اور تشکیل میں ہی مصروف ہیں۔ کوئی مہینہ ایسا نہیں گزرتا جس میں کپتان اپنی ٹیم میں کوئی تبدیلی نہ کریں۔

کپتان نے 22 سال کی جدوجہد کے بعد جن لوگوں کو آل راؤنڈر یا اٹیک باؤلر یا اوپنگ بیٹسمین قرار دے کر ٹیم میں شامل کیا تھا، اچانک انہیں ہی 12واں کھلاڑی قرار دے کر پانی پلانے کی ذمہ داری دے دی جاتی ہے یا پھر انہیں ان فٹ قرار دے کر ٹیم سے باہر کردیا جاتا ہے۔ لیکن پھر کچھ عرصے بعد انہیں بڑی دھوم دھام سے دوبارہ ٹیم کا حصہ بنا لیا جاتا ہے۔ ان میں سے اکثر تو ایسے ہیں کہ جنہیں ٹیم کا حصہ تو بنالیا جاتا ہے مگر کپتان ان سے ملنا بھی گوارا نہیں کرتے ہیں۔

ایسے ہی ایک فرد کو کپتان نے ملے بغیر ہی ٹیم کا حصہ بنایا اور پھر پاکستان کے خزانوں کی کنجی ان کے حوالے کردی۔ عبدالحفیظ شیخ کو ٹیم میں شامل کرنے کے لیے کپتان نے اپنے پوسٹر کھلاڑی اسد عمر کو واٹس ایپ پر میسج کرکے فارغ کردیا تھا۔ اس طرح فارغ کیے جانے پر اسد عمر بہت پریشان بھی ہوئے تھے۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ اسد عمر نے جھنڈے والی گاڑی دوبارہ حاصل کرنے کے لیے بنی گالہ کے بجائے دیگر ذرائع استعمال کیے۔

عبدالحفیظ شیخ کی جب تقرری ہوئی تھی، اس وقت راقم نے ایک تحریر لکھی تھی جس کا عنوان تھا ناکام اسد عمر کی جگہ ناکام ترین عبدالحفیظ شیخ۔ اس تحریر میں پہلے ہی نشاندہی کردی گئی تھی کہ عبدالحفیظ شیخ معیشت میں ضروری اصلاحات کرنے میں ناکام رہیں گے اور وہ اس طرح ڈیلیور نہیں کرسکیں گے جس کا دعویٰ تقرری کے وقت کپتان اور ان کے ترجمانوں کی ٹیم کررہی تھی۔

عبدالحفیظ شیخ کو تقرری کے 2 سال مکمل ہونے پر عہدے سے فارغ کردیا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ چند ہفتے قبل تک وفاق سے سینیٹ کی نشست کے لیے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار بھی تھے۔ کپتان نے عبدالحفیظ شیخ کو جتوانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور ناکامی کے باوجود بھی کپتان نے حفیظ شیخ کو اپنی ٹیم کے حصہ بنائے رکھا۔

پھر حفیظ شیخ نے آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے قرض کا پروگرام بحال کروایا اور اس کام کے فوری بعد انہیں یہ کہہ کر فارغ کردیا گیا کہ وہ مہنگائی کو قابو کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو عبدالحفیظ شیخ پر ہر الزام لگ سکتا ہے، لیکن مہنگائی کا الزام نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر معیشت اوور ہیٹ ہو تو یہ کام اسٹیٹ بینک کا ہے اور اگر اجناس کی فراہمی کا معاملہ ہو تو یہ کام وزارتِ فوڈ سیکیورٹی یا صوبائی حکومتوں کا ہے۔

خان صاحب کے علم میں ہو یا نہ ہو مگر راقم بخوبی جانتا تھا کہ عبدالحفیظ شیخ ملکی معیشت میں ضروری اور اہم اصلاحات کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے ہیں۔ یا اگر ان میں اہلیت ہے بھی تو وہ اس کا استعمال کم از کم پاکستان کے لیے تو نہیں کریں گے۔ اب دیکھ لیجیے وہی ہوا کہ مہنگائی قابو نہ کرنے کے الزام میں عبدالحفیظ شیخ وزارت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

عبدالحفیظ شیخ کی ریکارڈ بک

عبدالحفیظ شیخ جب بھی پاکستان آئے ہیں جھنڈے والی گاڑی پر ہی سوار ہوئے ہیں۔ اگر مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت کو نکال دیا جائے تو وہ سال 2000ء سے لے کر اب تک کسی نہ کسی شکل میں اقتدار کا حصہ رہے ہیں۔ جس دور میں وہ اقتدار میں نہیں ہوتے تو ملک سے باہر ہوتے ہیں۔

عبدالحفیظ شیخ کو بیرون ملک سے بلا کر سال 2000ء میں سندھ کے وزیر برائے مالیات اور منصوبہ بندی تعینات کیا گیا۔ اس کے بعد انہیں مسلم لیگ (ق) کی نشست پر 2003ء میں سینیٹر منتخب کروایا گیا اور وہ 2003ء سے 2006ء تک وفاقی وزیر برائے نجکاری رہے۔ اس دوران انہوں نے ملک کے 30 سے زائد اثاثوں کو فروخت کیا مگر پی ٹی سی ایل کی نجکاری کا معاہدہ تاحال تکمیل کو نہیں پہنچ سکا ہے۔

عبدالحفیظ شیخ جب بھی پاکستان آئے جھنڈے والی گاڑی میں ہی آئے
عبدالحفیظ شیخ جب بھی پاکستان آئے جھنڈے والی گاڑی میں ہی آئے

بعد ازاں پاکستان پیپلز پارٹی نے انہیں وفاقی وزیر برائے خزانہ ہی نہیں بلکہ انہیں سندھ سے سینیٹر بھی بنوایا۔ جس انداز میں عبدالحفیظ شیخ نے بطور وزیر کام کیا اس سے یہ بات ظاہر ہوگئی تھی کہ وہ معیشت میں کسی طرح کی بہتری لانے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔ ان کے دور میں معیشت کا وہی حال تھا جو اس وقت معیشت میں دیکھا جارہا ہے۔

کرکٹ میں کسی بھی کھلاڑی کی ریکارڈ بک بہت اہم ہوتی ہے اور عمران خان صاحب اگر عبدالحفیظ شیخ کی پیپلز پارٹی کے دور کی ریکارڈ بک اٹھا کر دیکھ لیتے تو شاید وہ ان کی تقرری ہی نہ کرتے اور یوں قوم کے 2 سال ضائع بھی نہیں ہوتے۔

اگر عبدالحفیظ شیخ کے خلاف چارج شیٹ تیار کی جائے تو سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ وہ معیشت میں اصلاحات کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ وہ ٹیکس بیس اور ٹیکس نیٹ میں اضافہ نہیں کرسکے اور ٹیکس کا بوجھ انہی افراد پر ڈالا گیا جو پہلے سے ٹیکس دہندہ تھے۔ اسی طرح ایف بی آر میں اصلاحات نہ ہوسکیں اور نہ ہی ٹیکس نظام میں کرپشن ختم ہوسکی۔

دونوں ادوار میں صنعتی شعبہ بُری طرح متاثر ہوا اور منفی زون میں رہا ہے، بلکہ ان کی پالیسی کے سبب معیشت مسلسل سکڑتی رہی جس سے معیشت میں ملازمت کے مواقع پیدا ہونے کے بجائے بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان کو جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ ڈالر آمدنی میں اضافہ نہ ہونے کا ہے اور دونوں ہی ادوار میں وہ معیشت کو اس قابل بنانے میں ناکام رہے جہاں معیشت میں ڈالر کمانے کی صلاحیت پیدا ہوسکے۔

حماد اظہر کی وزارتِ خزانہ میں انٹری

حماد اظہر ایک سیاسی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں اور سابق گورنر پنجاب میاں اظہر کے صاحبزادے ہیں۔ وہ سال 2011ء میں پی ٹی آئی سے وابستہ ہوئے تھے اور 2013ء میں الیکشن ہار گئے تھے، لیکن 2018ء میں انہیں کامیابی مل گئی۔

حماد اظہر کا نام ورلڈ اکنامک فورم نے جنوبی ایشیا کے نوجوان لیڈران میں شامل کیا ہے۔ انہیں 40 سال سے کم عمر سیاسی قائد کے طور پر اس فہرست کا حصہ بنایا گیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے قیام سے اب تک حماد اظہر کابینہ کا حصہ رہے ہیں مگر ان کے 4 سے زائد محکمے تبدیل ہوچکے ہیں۔

حماد اظہر کا قلمدان اب تک 4 مرتبہ تبدیل ہوچکا ہے
حماد اظہر کا قلمدان اب تک 4 مرتبہ تبدیل ہوچکا ہے

حماد اظہر کو وزیرِ مملکت برائے مالیات بنایا گیا اور اگلے ہی دن ان کا عہدہ وزیرِ مملکت سے بڑھا کر وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور کردیا گیا۔ اس کے بعد صنعت و پیداوار کا قلمدان دے دیا گیا اور اب خزانے کی کنجی حماد اظہر کو تھمادی گئی ہے۔ لیکن کابینہ کا مستقل حصہ ہونے کے باوجود حماد اظہر کوئی کامیاب پالیسی متعارف کروانے اور معیشت کو سہارا دینے میں ناکام نظر آتے ہیں۔

حماد اظہر بطور وفاقی وزیر برائے مالیات کوئی اہم کام نہیں کرسکے اور ان کی وزارت کے دور میں ٹیکس کی وصولی بڑھنے کے بجائے کم ہوئی۔ اس کے ساتھ ٹیکس دہندگان اور ٹیکس ریٹرن فائل کرنے والوں کی تعداد میں کمی دیکھی گئی۔ حماد اظہر نے متعدد مرتبہ ٹیکس اصلاحات کا دعویٰ تو کیا مگر وہ کوئی نئی ٹیکس پالیسی لانے میں ناکام نظر آئے۔

بطور وزیرِ صنعت بھی حماد اظہر کی کارکردگی کسی طور پر متاثر کن نہیں رہی۔ اس وقت بھی ملک میں کوئی صنعتی پالیسی موجود نہیں ہے کہ ملک میں کس پیمانے پر اور کن مقامات پر صنعتی زون بنائے جانے ہیں، کس قسم کی صنعتیں لگانی ہیں اور انہیں کیا انفرااسٹرکچر فراہم کرنا ہے۔

ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے بھی حماد اظہر کو جو ٹاسک دیا گیا تھا وہ اس کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ٹاسک فورس کی جانب سے کئی مرتبہ رعایت ملنے کے باوجود وہ ملک کو گرے لسٹ سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ حماد اظہر نے جو بل اسمبلی میں پیش کیا تھا اس میں غیر ملکی اداروں کو کسی بھی پاکستانی شہری کو لے جانے کا اختیار دیا گیا تھا جس کو بعد ازاں اپوزیشن کے اعتراض پر تبدیل کیا گیا۔

سابقہ وزارتوں میں کوئی نمایاں کارکردگی نہ دکھانے والے حماد اظہر کو خزانے کا قلمدان دے تو دیا گیا ہے مگر ان کے ہاتھ بھی آئی ایم ایف کے پروگرام کی وجہ سے بندھے ہوئے ہیں۔ یہ وہی پروگرام ہے جس کے لیے مذاکرات عبدالحفیظ شیخ نے کیے تھے اور جس کی منظوری کابینہ نے دے دی ہے۔ اس پروگرام میں بجلی کی قیمتوں میں اضافہ سب سے اہم اور ناگزیر شرط ہے۔ بجلی کی فی یونٹ قیمت بڑھنے سے ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا ہوگا اور حماد اظہر کے پاس اس کو قابو کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہوگا۔

اگر سادہ الفاظ میں کہا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ جس طرح عبدالحفیظ شیخ مہنگائی کو قابو کرنے میں ناکامی پر نکالے گئے ہیں اسی طرح حماد اظہر بھی جلد یا بدیر اسی طرح کے کسی بوسیدہ اور ناقابلِ فہم الزام میں کابینہ سے الگ کیے جاسکتے ہیں۔

تبصرے (9) بند ہیں

شاہد محمود Apr 01, 2021 06:58am
کامران صاحب، مجھے آپ کے تجزئیے سے ناصرف اتفاق نہی ہے بلکہ اس سے مایوسی بھی ہوئی کہ پاکستان کا اتنا بڑا اخبار ایسے کالم نگاروں کوجو چاہئے دوسرے موضوعات پر اچھا بھی لکھتے ہوں لیکن جنہیں معیشت بارے ذرہ برابر بھی علم نہی انہیں اس موضوع پر قلم اٹھانے کی اجازت کیوں دیتا ہے۔ کامران صاحب کسی معیشت دان کو اس بات پر نہی پرکھا جاتا کہ اس کے فنانس منسٹر ہوتے کتنی ترقی ہوئی، کتنی کم مہنگائی ہوئی یا شرح نمو کیا تھی۔ اسے اس پر جانچا جاتا ہے کہ جس حالت میں اسے معیشت ملی اس کا اس نے کیا کیا۔ پاکستان میں دو دفعہ ایسا معاشی بحران آیا ہے جسے سدھارنے کے لئے کسی قابل بندے کی ضرورت تھی۔ ایک دفعہ جب زرداری کو حکومت ملی اور ہمارا بیرونی خسارہ آٹھ ارب ڈالر تھا اور دوسری دفعہ جب پی ٹی آئی حکومت آئی اور یہی خسارہ بیس ارب ڈالر تھا۔ زرداری حکومت میں حفیظ شیخ نے وہی کیا جو ان حالات میں کیا جاتا ہے اور فنانشل ڈسپلن کے ساتھ یہ خسارہ کم کر کے اڑھائی ارب پر لا کر ن لیگ کو دیا۔ ن لیگ کو بنا بنایا بہترین اکنامک سپیکٹرم ملا لیکن انہوں نے روپئے کو ایک سو روپئے پر دبا کر اور امپورٹس کے گیٹ کھول کر عوام کو بہت خوش کیا لیکن اس کی قیمت یہ ہوئی کہ جب وہ گئے تو بیس ارب ڈالر سالانہ کا خسارہ تھا اور گیارہ ارب ڈالر کی قسط یعنی اسی ڈگر پر چلتے لوگوں کو خوش کرتے تو پاکستان کو بیرونی خسارے کو پورا کرنے کے لئے پانچ سال میں ۲۰۰ ارب ڈالر قرض چاہیئے ہوتا۔ جو نہ تو مل سکتا تھا اور اگر مل جاتا تو بھی ہم ڈوب جاتے کہ سالانہ قسط ۲۵ ارب ڈالر کی ہوتی۔ ایسے میں پھر حفیظ شیخ کو لایا گیا اور اس نے فنانشل ڈسپلن سے ۲۰ ارب ڈالر کے خسارے کو ایک ا
Martin Masih Apr 01, 2021 10:20am
جو وزیر کارکردگی نہیں دکھائے گا، اس سے قلمدان واپس لے لیا جانا چاہئے۔ کابینہ میں ردوبدل ایک عام اور کامن پریکٹس ہے، اس پر لمبے لمبے تجزیے کرنے کا کیا فائدہ۔ وزیراعظم کا ان قلمدانوں پر استحقاق ہے جو کہ بالکل آئینی ہے، لہذا ان تبدیلیوں پر سوال جواب نہیں بنتا۔
Asad Ali Khan Apr 01, 2021 11:50am
Why the father's name or previous positions are so important, i.e general's son or previous politician's son. Can IK find other than Asad than a Pashtoon or Punjabi. Tareen is Ok but Sheikh is no good. Tareen is a crook and criminal. Why he is a candidate for the job, just because he is a Tareen?.
S.Jamil Mehdi zaidi Apr 01, 2021 03:04pm
Is there any cabinet member who can claim that his performance is good including P M. All people have been compelled to think that all cabinet is burden on not only on economy but on state. the poverty rate is growing rapidly inflation is out of control. Every sector of the economy, education, political are being ruined either deliberately or inadvertently who is responsible for all this music and who will be accountable for this disaster.
Talha Apr 01, 2021 03:07pm
Steel aur mehnga ho ga.....
عرفان Apr 02, 2021 03:53am
بحثیت عوام میں سمجھ رہا ہوں کہ قحط الرجال کیا ہے ، ہمارے پاس اچھے اکنامسٹ ہی نہیں ہیں اور جو ہیں مجبوری میں انکو لیا جاتا ہے ، بشرط کہ وہ اپنی سیاسی پارٹی سے منسلک نہ ہوں تو وہ بچارے کیا تیر ما لیں گے۔
Chota Apr 02, 2021 04:32pm
dollar coming down, exports increased, reserves increasing but here they are saying that finance minister failed.could not understand this logic?
Irfan Abbasi Apr 03, 2021 11:34am
IK is doing his best to streamline the economy. To day he is to reap the crop whose seeds were sown by falooday wala and godfather. If he fails then no one else can fix it.
عام آدمی Apr 03, 2021 11:14pm
بالکل صحیح کہا، ہر صحافی اپنی کمائی کیلئے ہر حکومت پر تنقید کرتا ہے..