سندھ ہائی کورٹ نے 'اسپوتنک فائیو' ویکسین فروخت کرنے کی اجازت دے دی

اپ ڈیٹ 02 اپريل 2021
سندھ ہائی کورٹ نے اسپوتنک فائیو ویکسین فروخت کرنے کی اجازت دی— فائل فوٹو: اے ایف پی
سندھ ہائی کورٹ نے اسپوتنک فائیو ویکسین فروخت کرنے کی اجازت دی— فائل فوٹو: اے ایف پی

سندھ ہائی کورٹ نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کی استدعا مسترد کرتے ہوئے نجی کمپنی کو روسی کورونا ویکسین 'اسپوتنک فائیو' کی فروخت کی اجازت دے دی۔

سندھ ہائی کورٹ میں کورونا ویکسین اسپوتنک فائیو کی ریلیز سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی۔

مزید پڑھیں: ویکسین کی 10 لاکھ خوراکوں کیلئے ڈیڑھ ارب روپے مختص کردیے، عثمان بزدار

دوران سماعت ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان نے توہین عدالت کی درخواست پر جواب جمع کرادیا جس میں کہا گیا کہ 31 مارچ کو ویکسین ریلیز کردی تھی۔

عدالت نے ڈریپ سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے ویکسین کی ریلیز میں کوئی رکاوٹ ڈالی تھی؟

ہائی کورٹ نے کہا کہ ویکسین جتنی جلدی لوگوں کو لگ سکتی ہے لگ جائے کیونکہ ایسی صورتحال میں ویکسی نیشن روکنا مناسب نہیں ہے۔

ڈریپ حکام نے کہا کہ ہم نے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی تھی۔

عدالت نے مزید استفسار کیا کہ کیا قیمت مقرر ہونے کے بعد معاملہ حل ہو جائے گا؟ جس پر درخواست گزار نجی کمپنی کے وکیل نے جواب دیا کہ نہیں قیمت فکس ہونے سے بھی معاملہ حل نہیں ہو گا۔

یہ بھی پڑھیں: فائزر کی ویکسین کم عمر بچوں کے لیے 100 فیصد مؤثر قرار

کمپنی کے وکیل نے اس موقع پر عدالت میں سوال اٹھایا کہ اگر ویکسین کی قیمت 8 ہزار روپے مقرر ہوجاتی ہے تو کیا ہم فروخت کر سکتے ہیں یا نہیں۔

ڈریپ کے وکیل نے جواب دیا کہ جب ویکسین کی درآمدات کی اجازت دی گئی تھی تو اس وقت بھی قیمت مقرر نہیں کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ ویکسین کی قیمت فکس کرنے کا معاملہ ابھی چل رہا ہے۔

سندھ ہائی کورٹ نے کہا کہ عدالت ویکسین فروخت کرنے سے روکنے نہیں جارہی، آخر حکومت اب تک کیا کر رہی تھی، قیمت فکس کیوں نہیں کی گئی۔

ڈریپ کے وکیل نے استدعا کی کہ آئندہ ہفتے تک ویکسین کی فروخت روک دیں، اس دوران ہم قیمت فکس کردیں گے۔

اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کو تو جلدی کرنی چاہیے کیونکہ کورونا کی تیسری لہر آچکی ہے۔

مزید پڑھیں: سائینوفارم ویکسین کی مزید 5 لاکھ خوراکیں آگئی ہیں، معاون خصوصی

ڈریپ کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ اگر یہ ویکسین فروخت کر رہے ہیں تو کس کو فروخت کر رہے ہیں جس پر نجی کمپنی کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ ہم پرائس ڈیٹا دینے کو تیار ہیں۔

درخواست گزار کمپنی نے کہا کہ 10 لاکھ خوراکوں کا معاہدہ کرلیا تھا جس میں سے 50 ہزار منگوالی تھیں، کمپنی نے ویکسین کی قیمت 12 ہزار 226 روپے مقرر کر رکھی ہے اور ہر شہری کی مرضی ہے وہ کتنے پیسوں میں ویکسی نیشن کراتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے غیر ملکی کمپنی سے 20 لاکھ ویکسینز کا معاہدہ کر رکھا ہے اور معاہدے کے مطابق غیر ملکی کمپنی سے یہ ویکسین لینی ہے ورنہ بھاری نقصان ہوگا۔

عدالت نے کورونا ویکسین اسپوتنک فائیو کی فروخت کی اجازت دیتے ہوئے درخواست کی مزید سماعت 12 اپریل تک ملتوی کردی۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کورونا ویکسین کی نجی شعبے کو درآمد کی اجازت نہ دیں، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز سندھ ہائی کورٹ کے ڈویژنل بینچ نے ایک رکنی بینچ کو ہدایت کی تھی کہ وہ کووڈ-19 ویکسین کی درآمدات کے سلسلے میں ڈریپ کی جانب سے نجی کمپنی کو دیے گئے استثنیٰ کی واپسی کے خلاف حکم امتناع کا فیصلہ کرے۔

دلائل کے دوران ڈویژن بینچ کو بتایا گیا کہ ڈریپ نے 2 فروری کو جاری کردہ نوٹیفکیشن کو واپس لے لیا ہے جس کے تحت اس نے 6 ماہ کی مدت یا مارکیٹ میں ویکسین کی قیمتوں کی دستیابی تک ہسپتالوں اور اداروں میں فروخت کے لیے کووڈ-19 ویکسین کی درآمد کے لیے استثنیٰ دیا تھا۔

اس حوالے سے مزید دلیل دی گئی کہ اس طرح فرم نے کووڈ-19 ویکسین (اسپوتنک-فائیو) کی 10 لاکھ خوراکیں فی یونٹ 45 ڈالر کی شرح سے درآمد کے لیے غیر ملکی فروخت کنندہ / برآمد کنندہ کے ساتھ ویکسین کی فراہمی کا معاہدہ کیا اور ویکسین کی مقدار پہلے ہی کراچی پہنچ چکی ہے لیکن یہ نوٹیفکیشن واپس لے لیا گیا۔

25 مارچ کو سندھ ہائی کورٹ کے ایک رکنی بینچ نے قانونی فرم کے عبوری حکم پر ویکسین کی درآمد کی اجازت دینے والے مذکورہ نوٹیفکیشن کو منسوخ کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: اہلخانہ کو 'کورونا ویکسین لگوانے' پر وفاقی وزیر پر تنقید

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے دیگر قانون افسران اور وکلا کے ہمراہ دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ استثنیٰ کا نوٹیفکیشن واپس لینے کے بعد ڈریپ نے کووڈ-19 ویکسین کی قیمتیں طے نہیں کی تھیں اور معاملہ زیر التوا ہے اور قیمتوں کا تعین کیے بغیر مذکورہ ویکسین کی فروخت غیر قانونی ہو گی۔

انہوں نے استدلال کیا کہ ڈریپ ایک ہفتے میں ویکسین کی قیمت مقرر کرے اور ایک ہفتے میں اس سلسلے میں پیشرفت پر رپورٹ کرے۔

فارما کمپنی کے وکلا نے کہا کہ ایسے استثنیٰ کی بنیاد پر فرم نے معاہدہ کیا اور جب کھیپ کراچی پورٹ پہنچی تو انہوں نے اچانک اس نوٹیفکیشن کو واپس لے لیا جو بلاجواز ہے۔

درخواست دہندگان کے وکیل نے کہا کہ قیمتوں کے تعین سے قبل فرم کو ویکسین فروخت کرنے سے روکنا چاہیے، فرم کے وکیل نے دلیل دی کہ لاٹ کی ریلیز کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے باوجود کراچی میں فیڈرل ڈرگ انسپکٹر متعلقہ دستاویزات پر دستخط نہیں کر رہے، لہٰذا جب تک یہ مشق مکمل نہیں ہوتی اس وقت تک ویکسین کی فروخت ممکن نہیں۔

واضح رہے کہ نجی کمپنی اے جی پی لمیٹڈ نے روس سے اسپوتنک ویکسین درآمد کرنے کا معاہدہ کیا تھا اور 18 مارچ کو ویکسین کی 50 ہزار خوراکیں پاکستان پہنچ گئی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت سندھ نے چین سے براہِ راست ویکسین خریدنے کیلئے 50 کروڑ روپے مختص کردیے

اسپوتنک ویکسین کو سوویت دور کی سیٹلائٹ کا نام دیا گیا ہے اور اسے کلینیکل ٹرائل سے کئی ماہ قبل ہی روس میں استعمال کی منظوری دے دی گئی تھی جس پر ابتدائی طور پر ماہرین نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

البتہ 20 ہزار شرکا پر کیے گئے ویکسین کے نئے تجربے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ کووڈ-19 کی یہ ویکسین 90 فیصد افادیت کی حامل ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں