لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔
لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں موجود ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ ہاتھ دھونے، ماسک لگانے، سماجی فاصلے کا خیال رکھنے اور پُرہجوم جگہوں پر نہ جانے جیسی ایس او پیز کا خیال رکھ کر وائرس کے پھیلاؤ کو روکا تو جاسکتا ہے لیکن اس کو ختم کرنے اور عام زندگی کی جانب لوٹنے کے لیے بڑے پیمانے پر ویکسینیشن کی ضرورت ہے۔

اسی وجہ سے اکثر ممالک نے بڑے پیمانے پر ویکسینیشن کے پروگرام شروع کردیے ہیں۔ ان ممالک میں لاکھوں اور کروڑوں کی تعداد میں ویکسین لگ چکی ہیں۔ کچھ ممالک میں جہاں اس عمل کو شروع ہوئے کچھ وقت ہوچکا ہے وہاں دیگر بیماریوں کے شکار افراد اور بزرگوں (جنہیں ابتدائی مرحلے میں ویکسین لگائی گئی تھی) میں وائرس کے پھیلاؤ میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ کئی ممالک میں صحت کے عملے اور بزرگوں کے بعد اب عام لوگوں کو بھی ویکسین لگانے کا عمل شروع ہوگیا ہے۔

پاکستان میں ہمیں صرف چند لاکھ خوراکوں کا ’تحفہ‘ ملا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ خریداری کے کچھ معاہدے ابھی کیے جارہے ہیں اور خریدی گئی کچھ ویکسین ابھی راستے میں ہیں۔

ہماری آبادی کل 22 کروڑ ہے اور آج کی تاریخ تک ویکسین کی کل 10 لاکھ خوراکیں بھی نہیں لگائی گئی ہیں۔ اگر ہم یہ مان لیں کہ ہماری نصف آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کے لیے یہ وائرس نسبتاً کم مہلک ہے (اگرچہ یہ وائرس پھیلانے کا سبب بن سکتے ہیں) پھر بھی ملک کی تقریباً 10 کروڑ آبادی ایسی ہے جسے ویکسین کی ضرورت ہے۔

تو آخر ہم ان کو ویکسین لگوانے کے لیے کیا اقدامات کر رہے ہیں؟ اور ہم اتنی ویکسین کہاں سے لائیں گے؟ اگر ہم موجودہ رفتار سے ہی چلتے رہے تو ہمیں کورونا کے باعث ہونے والے نقصانات کے ازالے میں کتنا وقت لگے گا؟

31 مارچ کو ملک میں کورونا کے 4 ہزار 797 نئے کیس سامنے آئے اور مجموعی طور پر مریضوں کی تعداد 53 ہزار 127 ہوگئی۔ مزید یہ کہ 96 لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ وائرس کے پھیلاؤ اور اس سے ہونے والی اموات کے حوالے سے یہ تیسری لہر بہت ہی خطرناک ثابت ہوئی ہے۔ حکومت اپنے طور پر پابندیاں تو عائد کر رہی ہے لیکن وائرس کی اس تیسری لہر کا زور اب بھی باقی ہے۔

ان پابندیوں کی بڑی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔ وزیرِاعظم بارہا یہ بات دہراتے رہے ہیں کہ ہم مکمل لاک ڈاؤن برداشت نہیں کرسکتے۔ جزوی لاک ڈاؤن کی بھاری قیمت ہوتی ہے۔ شاید ویکسین کی خریداری اور اسے لگانے کی قیمت سے بھی زیادہ۔

میں لاہور کے جس علاقے میں رہتا ہوں وہاں اتوار کی رات سے لاک ڈاؤن نافذ ہے۔ قریبی واقع بازار بھی بند ہے۔ ریسٹورنٹس، بیکری اور میڈیکل اسٹورز کے علاوہ تمام دکانیں بند ہیں۔ شاید یہ سلسلہ اگلے ایک ہفتے تک جاری رہے۔

سوال یہ ہے کہ اس علاقے میں جن لوگوں کے کاروبار اور دفاتر موجود ہیں ان پر کیا اثر پڑے گا؟ علاقے کی سڑکیں بند ہیں جس سے لوگوں کے کام میں رکاوٹ پیدا ہورہی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ لوگوں کی صحت مقدم ہے لیکن کوئی یہ بات نہیں کر رہا کہ ہمیں لوگوں کی صحت کی فکر نہیں ہونی چاہیے۔ مدعا یہ ہے کہ ان کی صحت کے تحفظ کا ایک نسبتاً سستا حل بھی موجود ہے اور وہ ہے بڑے پیمانے پر ویکسینیشن۔ جس وقت اس وائرس پر قابو پانے کا کوئی اور ذریعہ نہیں تھا اس وقت لاک ڈاؤن قابلِ قبول تھے لیکن اب، جبکہ ایک سستا حل موجود ہے تو پھر لاک ڈاؤن کیوں لگائے جائیں؟

تو کیا حکومت ویکسین کی خریداری میں تاخیر کررہی ہے؟ کیا ہم نے اپنی امیدیں دیگر ممالک سے ملنے والی امدادی ویکسین سے باندھی ہوئی ہیں؟ یا ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ ایک وقت ایسا آئے کہ جب ہرڈ امیونیٹی پیدا ہوجائے گی اور یوں ہم بڑے پیمانے پر ویکسینیشن کے خرچے سے بچ جائیں گے؟ تو کیا یہ حساب کتاب کی گڑبڑ تھی یا پھر نااہلی؟ یا پھر منصوبہ ہی یہ تھا کہ خود ویکسین پر خرچہ کرنے کے بجائے عوام کو مجبور کیا جائے کہ تو وہ اپنی جیب سے ویکسین خریدیں؟

بہتر ہوگا کہ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر اس ضمن میں کوئی وضاحت جاری کرے اور کوئی آزاد ادارہ اس وضاحت کے بارے میں تحقیقات کرے۔ اگر ویکسینیشن کے عمل میں تاخیر کا سبب بننے والے عوامل کی نشاندہی ہوجائے تو تاخیر کی وضاحتیں دینے کے بجائے اس کو دُور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

حکومت نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اسے نجی شعبے کی جانب سے ویکسین کی درآمد پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اس ضمن میں مساوات اور حقوق کے کئی مسائل جنم لیتے ہیں لیکن حکومت نے یہ کہہ کر بات کو ختم کردیا کہ جس شخص کو بھی ویکسین کی ضرورت ہوگی حکومت اسے بلا معاوضہ ویکسین فراہم کرے گی۔

اگر عوام پھر بھی نجی کمپنیوں سے ویکسین خریدنا چاہیں تو یہ ان کی مرضی پر منحصر ہے۔ لیکن یہ ویکسن تقریباً ایک ماہ سے گوداموں میں رکھی ہوئی ہے۔ حکومت نے ابھی اس ویکسین کی کوئی ایسی قیمت مقرر نہیں کی ہے جس پر حکومت اور فراہم کنندہ دونوں متفق ہوں۔ نتیجے کے طور پر تقریباً 50 ہزار ویکسین گوداموں میں پڑی ہیں جبکہ یہاں لوگ روز زندگی کی بازی ہار رہے ہیں اور ہزاروں لوگ لاک ڈاؤن کا سامنا کررہے ہیں۔ انتظامی اور فیصلہ سازی کی صلاحیت رکھنے والی کوئی بھی حکومت اس طرح کام نہیں کرتی۔

تو آخر ہم کہاں جارہے ہیں؟ کیا ہمیں مزید لاک ڈاؤن برداشت کرنے ہوں گے؟ اگر ہم آج یہ فیصلہ کر بھی لیں کہ ہمیں ملک میں بڑے پیمانے پر ویکسینیشن شروع کرنی ہے تب بھی اس عمل میں بہت وقت لگ سکتا ہے کیونکہ اب جلد ویکسین حاصل کرنا بہت مشکل ہوچکا ہے۔ لیکن اگر ہم نے ویکسینیشن کے حوالے سے اپنی انتظامی صلاحیتوں کو بہتر نہیں بنایا تو لاک ڈاؤن کا سلسلہ طویل ہوتا چلا جائے گا۔ اس کے نتیجے میں ہمیں جتنا نقصان ہوگا اس کی نسبت بہت کم خرچ میں ہم عوام کو ویکسین لگواسکتے ہیں۔ تو کیا حکومت اس بارے میں کچھ سوچے گی؟


یہ مضمون 2 اپریل 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں