سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس سے متعلق فیصلے کے خلاف زیر سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے نظر ثانی کیس میں دلائل مختصر رکھنے کے معاملے پر عدالت عظمیٰ کے سینئر ججز کے درمیان تلخ جملوں ‏کا تبادلہ ہوا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 ‏رکنی فل کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے نظر ثانی کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت وفاقی حکومت کے وکیل عامر الرحمٰن نے دلائل میں ‏کہا کہ ایک جج پر حرف آنا پوری عدلیہ پر حرف آنے کے برابر ہے۔

انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ سرینا عیسیٰ ‏کو سماعت کا پورا موقع دیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: جسٹس عیسیٰ نظرِ ثانی کیس، بینچ میں اختلاف کرنے والے ججز کی عدم شمولیت پر سوالات

ان کا کہنا تھا کہ سرینا عیسٰی کے لیے متعلقہ فورم ایف بی آر ہی ‏تھا اور ایف بی آر کو ڈیڈ لائن دینے کی وجہ کیس کا جلد فیصلہ کرنا تھا۔

جس پر جسٹس قاضی ‏فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ وفاقی حکومت نے کوئی نظرثانی درخواست دائر نہیں کی جبکہ حکومت ‏صرف کیس لٹکانے کی کوشش کررہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں نہیں کہا گیا کہ سرینا ‏عیسیٰ کا کیس ارٹیکل 187 کے تحت ایف بی آر کو بھیجا گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ معلوم نہیں ایف بی آر عدالتی حکم کے بغیر کارروائی ‏کرتا ہے یا نہیں۔

انہوں نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ایف بی آر نے تعین کرکے سرینا عیسیٰ کے خلاف رپورٹ دے دی اور کوئی ‏ایسا قانون بتائیں کہ خاوند کے خلاف انکوائری بند ہو کر بیوی کے خلاف شروع ہوجائے۔

وکیل ‏عامر رحمٰن نے کہا کہ ایف بی آر میں جو کارروائی ہوئی وہ عدالتی فیصلے کا نتیجہ ‏تھا اور ایف بی آر کارروائی نہ کرتا تو توہین عدالت ہوتی۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دے کہ ‏فیصلہ تبدیل کرنے اور نظرثانی میں فرق ہوتا ہے۔ ‏

مزید پڑھیں: نظرثانی کیس: چیف جسٹس کے عہدے کو مفادات کے ٹکراؤ کیلئے استعمال نہیں ہونا چاہیے، جسٹس عیسیٰ

دوران سماعت جسٹس منیب اختر اور جسٹس سجاد علی شاہ کا بینج کے ایک اور جج جسٹس مقبول باقر سے تلخ ‏جملوں کا تبادلہ ہوا۔

جسٹس مقبول باقر نے وکیل عامر الرحمٰن کو دلائل کو مختصر رکھنے ‏کا کہا تو جسٹس منیب اختر بولے آپ دلائل جاری رکھیں۔

جس پر جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ ‏میری بات میں مداخلت نہ کریں، تو جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہاں کوئی ریس تو نہیں ‏لگی ہوئی۔

اس پر جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ کوئی کسی خاص وجہ سے تاخیر چاہتا ہے تو الگ ‏بات ہے، اس موقع پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ بار بار وکیل کو ٹوکتے رہے تو اٹھ کر چلا جاؤں ‏گا۔

عدالت عظمیٰ کے سینئر جج کی مذکورہ بات پر جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ اٹھ کر تو میں بھی جاسکتا ہوں۔

بعدازاں سینئر ججز کے درمیان تلخی پر سماعت میں 10 ‏منٹ کا وقفہ کردیا گیا۔

وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جب آپ ‏پانی نہ پی سکیں تو تازہ ہوا میں سانس کافی ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کیس: 'سابق چیف جسٹس نے میرا مؤقف سنے بغیر میری پیٹھ میں چھرا گھونپا'

انہوں نے ریمارکس دیے کہ روزے کی وجہ سے ہم بھی تازہ ‏ہوا میں سانس لے کر آئے ہیں، وقت محدود ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ کسی کو مؤقف ‏دینے سے روکیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کے لیے یہ حساس ترین کیس ہے۔

عامرالرحمٰن نے کہا ‏کہ کوشش کروں گا کل اپنے دلائل مکمل کرلوں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دے کہ ٹیکس ‏کمشنر ذوالفقاراحمد کا حکم بھی کل جمع کرائیں۔

جسٹس مظہر عالم نے ریمارکس دیے کہ یہ بھی بتائیں کہ کیا نظرثانی میں ہم ٹیکس کمشنر کا حکم دیکھ سکتے ہیں۔

بعدازاں کیس کی سماعت کل ‏تک ملتوی کردی گئی۔

کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ 19 جون 2020 کو سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ نے 7 ججز کے اپنے اکثریتی مختصر حکم میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا۔

عدالت عظمیٰ کے 10 رکنی بینچ میں سے انہیں 7 اراکین نے مختصر حکم نامے میں پیرا گراف 3 سے 11 کے ذریعے سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کے سامنے دائر ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو ان کے اہل خانہ سے ان کی جائیدادوں سے متعلق وضاحت طلب کرنے کا حکم دیتے ہوئے معاملے پر رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل میں جمع کرانے کا کہا تھا۔

عدالتی بینچ میں شامل جسٹس مقبول باقر، جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا لیکن انہوں نے اکثریتی فیصلے کے خلاف اختلافی نوٹ لکھا تھا۔

بعد ازاں عدالت عظمیٰ کے اس مختصر فیصلے کے پیراگرافس 3 سے 11 کو دوبارہ دیکھنے کے لیے 8 نظرثانی درخواستیں دائر کی گئی تھی۔

یہ درخواستیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن، کوئٹہ بار ایسوسی ایشن کے صدر، پنجاب بار کونسل کے وائس چیئرمین، ایڈووکیٹ عابد حسن منٹو اور پاکستان بار کونسل نے دائر کی تھیں۔

اپنی نظرثانی درخواستوں میں درخواست گزاروں نے اعتراض اٹھایا تھا کہ 19 جون کے مختصر فیصلے میں پیراگرافس 3 سے 11 کی ہدایات/ آبزرویشنز یا مواد غیر ضروری، ضرورت سے زیادہ، متضاد اور غیرقانونی ہے اور یہ حذف کرنے کے قابل ہے چونکہ اس سے ریکارڈ میں ’غلطی‘ اور ’ایرر‘ ہوا ہے لہٰذا اس پر نظرثانی کی جائے اور اسے حذف کیا جائے۔

بعد ازاں اس کیس کا 23 اکتوبر کو تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا تھا جو 174 صفحات پر مشتمل تھا، جس میں سپرم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 209 (5) کے تحت صدر مملکت عارف علوی غور شدہ رائے نہیں بنا پائے لہٰذا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس میں ’مختلف نقائص‘ موجود تھے۔

تفصیلی فیصلے کے بعد اکتوبر میں سپریم کورٹ کو 4 ترمیم شدہ درخواستیں موصول ہوئی تھی جن میں جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق اکثریتی فیصلے پر سوال اٹھائے گئے تھے۔

اس معاملے پر عدالت کی جانب سے نظرثانی کے لیے پہلے ایک 6 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا تاہم درخواست گزروں نے 6 رکنی نظرثانی بینچ کی تشکیل کو چیلنج کردیا تھا اور یہ مؤقف اپنایا گیا تھا کہ جسٹس عیسیٰ کے خلاف کیس میں اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرنے والے تینوں ججز کو نظرثانی بینچ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔

مزید پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کون ہیں؟

5 دسمبر کو جسٹس قاضی فائز عیسی نے صدارتی ریفرنس کے خلاف آئینی درخواست پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کی اضافی درخواست داخل کی تھی اور کہا تھا کہ سپریم کورٹ نے سپریم جوڈیشل کونسل کے تعصب سے متعلق میری درخواست پر سماعت ہی نہیں کی۔

ساتھ ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نظر ثانی درخواست میں استدعا کی تھی کہ سماعت ٹی وی پر براہ راست نشر کرنے کا حکم دیا جائے۔

جس کے بعد بینچ تشکیل کے معاملے پر سماعت ہوئی تھیں اور عدالت نے 10 دسمبر 2020 کو اپنا فیصلہ محفوظ کیا تھا کہ آیا یہی بینچ یا ایک لارجر بینچ جسٹس عیسیٰ کیس میں نظرثانی درخواستوں کا تعین کرے گا۔

بالآخر 22 فروری 2021 کو جاری کردہ 28 صفحات پر مشتمل فیصلے میں مذکورہ معاملہ چیف جسٹس کو بھیج دیا گیا تھا کہ وہ بینچ کی تشکیل سے متعلق فیصلہ کریں اور وہ نظرثانی درخواستوں کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دے سکتے ہیں۔

بعد ازاں 23 فروری 2021 کو چیف جسٹس پاکستان نے جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ایک 10 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا جس میں ان تینوں ججز کو بھی شامل کرلیا گیا تھا جنہوں نے مرکزی فیصلے پر اختلافی نوٹ لکھا تھا۔

مذکورہ بینچ نے نظرِ ثانی کیس کی سماعت براہِ راست نشر کرنے کی اپیل کی بھی سماعت کی جس کے دلائل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خود دیے تھے۔

مذکورہ درخواست پر 18 مارچ کو فیصلہ محفوظ کیا گیا جسے 13 اپریل کو سناتے ہوئے درخواست مسترد کردی گئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں