او-اے لیول امتحانات ملتوی کرنے کی درخواستیں ہائی کورٹس سے مسترد

طلبہ نے امتحانات روکنے کی استدعا کی تھی—فائل/فوٹو: اے ایف پی
طلبہ نے امتحانات روکنے کی استدعا کی تھی—فائل/فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائیکورٹ، لاہور ہائیکورٹ، سندھ ہائیکورٹ اور پشاور ہائیکورٹ نے او اور اے لیول امتحانات روکنے کی الگ الگ درخواستیں مسترد کردیں۔

ملک بھر کی اعلیٰ عدالتوں میں طلبہ نے سی اے آئی ای کے فیصلے اور حکومت کی جانب سے پاکستان میں براہ راست امتحانات کی دی گئی منظوری کے خلاف درخواستیں دائر کی تھیں۔

مزید پڑھیں: او لیول امتحانات 15 مئی کے بجائے 10 مئی کو شروع ہوں گے، وزیرتعلیم

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے کورونا کی وجہ سے اے اور او لیول کے طلبہ کے فزیکل امتحانات کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے دلائل سننے کے بعد فیصلے میں درخواستیں مسترد کردیں اور کہا کہ کوئی ہدایت جاری نہیں کر سکتے تاہم درخواست این سی او سی کو بھیج دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عدالتوں کا کام نہیں کہ ملک کی پالیسی کے معاملات میں مداخلت کریں، آج تک کورونا سے متعلق جتنے معاملات آئے ہیں ہم نے این سی او سی کی پالیسی فیصلوں میں مداخلت نہیں کی۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ ویسے بھی حکومت پاکستان کیمبرج کو کوئی ہدایت جاری نہیں کر سکتی، حکومت صرف ان امتحانات سے متعلق یہاں سہولت فراہم کرتی ہے۔

عدالت نے درخواست گزار سے استفسار کیا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ حکومت ان کو امتحان لینے سے روک دیں، جس پر وکیل نے کہا کہ میں درخواست میں کوئی ایسی چیز نہیں مانگ رہا جو کیمبرج کی پالیسی نہ ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ میری درخواست کیمبرج کے خلاف نہیں، کیمبرج نے دو آپشنز دیے ہیں، سعودی عرب، تھائی لینڈ اور بھارت نے فزیکل کے بجائے آن لائن امتحان کے آپشن کو اپنایا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پہلی سے آٹھویں جماعت کے طلبہ کیلئے اسکولز بدستور بند رکھنے کا فیصلہ

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کی درخواست میں 9 درخواست گزار ہیں، ہو سکتا ہے دیگر ہزاروں فزیکل امتحان دینا چاہتے ہوں، 9 پٹشنر ہزاروں طلبہ کے نمائندے تو نہیں ہو سکتے۔

انہوں نے کہا کہ کیا بچے امتحانات نہیں دینا چاہتے، کیسے طلبہ ہیں جو امتحان نہیں دینا چاہتے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے اے لیول اور او لیول فزیکل امتحانات کے خلاف طلبہ کی درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کر دی۔

فیصلے میں کہا گیا کہ درخواست گزار این سی او سی کے سامنے پیش ہو سکتا ہے جہاں حالات کے مطابق مناسب فیصلہ دیا جاسکتا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جواد الحسن نے بھی اے اور او لیول کے طلبہ کی امتحانات روکنے کی استدعا مسترد کردی اور فیصلہ جاری کر دیا۔

جسٹس جواد الحسن نے کہا کہ این سی او سی کی جاری گائیڈ لائن کے مطابق وفاقی وزارت نے امتحانات ایس او پیز کے تحت لینے کا فیصلہ کیا ہے اور امتحانات کے دوران ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ عدالتیں بچوں کی نگہبان اور سرپرست ہیں اور بچوں کے حقوق کا تحفظ کریں گی۔

لاہور ہائی کورٹ میں برطانوی کونسل، کیمبرج کے پاکستان میں ڈائریکٹر اور وفاقی وزارت تعلیم نے اپنا جواب بھی جمع کروایا تھا۔

درخواست گزار طلبہ نے مؤقف اپنایا تھا کہ پاکستان میں خطرناک وبا کے باعث او لیول اور اے لیول کی کلاسیں پورا سال نہیں ہوئیں اور کورونا کے باعث نصاب بھی نامکمل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت چاہتی ہے کہ سی اے آئی ای کے طلبہ فزیکل امتحانات میں حصہ لیں، ایسے حالات میں وہ اپنے ساتھ ساتھ اپنے اہل خانہ کی زندگی کو بھی خطرے میں ڈال دیں گے جبکہ کیمبرج نے کورونا کے زیادہ کیسز والے ممالک کو دو آپشنز پیش کیے ہیں۔

مزید پڑھیں: کورونا کیسز میں اضافہ: 'جمعہ سے نئی بندشوں کا آغاز کریں گے،بڑے شہر بند کرنے پڑ سکتے ہیں'

انہوں نے کہا کہ کیمبرج کے آپشنز میں روایتی طور پر امتحانات منعقد کروانے یا امیدواروں کو ان کے اسکول کی کارکردگی کی بنیاد پرگریڈ دینے کا آپشن دیا ہے۔

طلبہ کا کہنا تھا کہ تحریری امتحانات سے طلبہ کی زندگی اور مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے، او لیول کے امتحانات 4 مئی کو اور اے لیول کے امتحانات 26 اپریل کو شروع ہوں گے لہٰذا عدالت حکومت کو برطانوی کونسل اور کیمبرج سے اسکولوں کی تشخیص پر مبنی گریڈز میں شفٹ کرنے کا حکم دے۔

تاہم لاہور ہائی کورٹ نے طلبہ کی درخواست مسترد کر دی۔

سندھ ہائی کورٹ

سندھ ہائی کورٹ نے بھی اے اور او لیول کے طلبہ کی امتحانات کے حوالے سے اسی طرح کی درخواست مسترد کردی۔

جسٹس مظاہر علی مظہر کی سربراہی میں ڈویژنل بینچ نے طلبہ کی درخواست پر سماعت کی اور دلائل مکمل ہونے پر مختصر حکم نامہ جاری کردیا۔

بینچ نے کہا کہ امتحانات شیڈول کے مطابق ہوں گے اور ہدایت کی کہ امتحانات کے دوران ایس او پیز پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ ہم پاکستان میں فزیکل امتحانات کے جاری کردہ شیڈول کی این سی او سی کے فیصلے کی توثیق کرتے ہیں اور اسکول کی جانچ کی بنیاد پر گریڈز دینے کی درخواست مسترد کرتے ہیں۔

سماعت کے دوران ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسی طرح کی پٹیشن مسترد کردی ہے، یہ پالیسی کے معاملات ہیں اور این سی او سی نے تمام اسٹیک ہولڈر سے مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ امتحانات روکنے کی کوئی وجوہات یا وضاحت نہیں ہے تاہم ایس او پیز کے حوالے سے مسائل پر تبادلہ خیال کیا جائے گا اور جائزہ لیا جائے گا۔

سی اے آئی ای کے وکیل نے کہا کہ کراچی میں کووڈ-19 کی صورت حال لاہور کے مقابلے میں بہتر ہے اور ادارہ امتحانات کے حوالے سے جاری کی گئیں ایس او پیز کے حوالے سے مطمئن ہے۔

انہوں نے کہا کہ سی اے آئی ای اگر عدالت کی جانب سے نہیں روکا گیا تو شیڈول کے مطابق جائے گا اور کہا کہ جو طلبہ امتحانات کے سیشن میں بیٹھنے کے خواہاں نہیں ہیں وہ اکتوبر اور نومبر میں دوسرا موقع حاصل کرسکتے ہیں۔

خیال رہے کہ درخواست اے لیول کے چند طلبہ کی جانب سے ملک بھر میں فزیکل امتحانات کے خلاف دائر کی گئی تھی اور مؤقف اپنایا گیا تھا کہ وفاقی حکومت نے 26 اپریل اور 10 مئی بالترتیب اے اور او لیول کے امتحانات لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزارت تعلیم کے فیصلے سے خوف کی لہر پھیل گئی ہے اور طلبہ میں خدشات پیدا ہوگئے ہیں کہ حکومت طلبہ کو خطرات میں ڈال رہی ہے جبکہ ملک بھر میں کووڈ-19 کی تیسری لہر جاری ہے اور حکومت کو سی اے آئی ای کے ہزاروں طلبہ کے حوالے سے کوئی تشویش نہیں ہے۔

انہوں نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ حکومت کے اے اور او لیول کے فزیکل امتحان کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دے اور امتحانات لینے سے روکے۔

عدالت نے طلبہ کا مؤقف مسترد کرتے ہوئے امتحانات شیڈول کے مطابق ایس او پیز پر عمل درآمد یقینی بناتے ہوئے لینے کا حکم دیا۔

پشاور ہائی کورٹ

پشاور ہائی کورٹ میں بھی کورونا وبا کے دوران کیمبرج یونیورسٹی کے او اور اے لیول امتحانات لینے کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی اور عدالت نے امتحانات ملتوی کرنے کے لیے دائر درخواستیں خارج کر دیں۔

یہ بھی پڑھیں: صوبہ پنجاب، خیبر پختونخوا میں 19 اپریل سے نویں سے 12جماعت تک اسکول کھولنے کا اعلان

وکیل برٹش کونسل بیرسٹر یاسین رضا کا کہنا تھا کہ امتحانات کے لیے ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد کے لیے لاکھوں روپے خرچ کیے گئے ہیں، اکتوبر 2020 میں بھی امتحانات لیے گئے تھے اس میں بھی کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ان کے دفاتر بیرونی ملک میں قائم ہیں یہ ہائی کورٹ کے اختیار میں بھی نہیں آتا۔

درخواست گزار طلبہ کے وکیل نے کہا کہ کورونا کی وبا میں بنگلہ دیش, بھارت اور دیگر ممالک میں امتحانات ملتوی کر دیے گئے ہیں، کورونا کیس میں اضافے کی وجہ سے دیگر ممالک میں یہ امتحانات ملتوی کر دیے گئے ہیں لہٰذا یہاں پر بھی ملتوی کیے جائیں۔

پشاور ہائی کورٹ نے دلائل سننے کے بعد امتحانات ملتوی کرنے کے لیے دائر درخواستیں خارج کر دیں۔

تبصرے (0) بند ہیں