ترکی کی مخالفت رد کرتے ہوئے امریکی صدر نے آرمینیائی 'نسل کشی' کو تسلیم کرلیا

اپ ڈیٹ 25 اپريل 2021
یوراگوئے، فرانس، جرمنی، کینیڈا اور روس نسل کشی کو تسلیم کرچکے تھے—فائل فوٹو: اے پی
یوراگوئے، فرانس، جرمنی، کینیڈا اور روس نسل کشی کو تسلیم کرچکے تھے—فائل فوٹو: اے پی

امریکی صدر جو بائیڈن نے سلطنت عثمانیہ کی افواج کے ہاتھوں آرمینیائی قوم کے ایک ہزار 915 افراد کے مبینہ طور پر منظم قتل عام کو نسل کشی قرار دے دیا۔

غیر ملکی خبررساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق جو بائیڈن وہ پہلے امریکی صدر ہیں جنہوں نے برسی کے موقع پر ایک روایتی بیان میں نسل کشی کا لفظ استعمال کیا۔

اس سے ایک روز قبل انہوں نے نیٹو اتحادی کی جانب سے متوقع غصے کو محدود کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ترک صدر رجب طیب اردوان کو یہ قدم اٹھانے کے بارے میں بتایا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:جو بائیڈن کا اردوان کو فون: 'آرمینیوں کے قتل عام کو نسل کشی تسلیم کرنے کا ارادہ ہے'

جوبائیڈن کا کہنا تھا کہ 'ہم ان تمام کی زندگیوں کو یاد رکھتے ہیں جو دورِ عثمانیہ میں آرمینیائی نسل کشی کے دوران ہلاک ہوئے اور اس طرح کے مظالم کو دوبارہ ہونے سے روکنے کے لیے اپنے آپ سے دوبارہ وعدہ کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اور ہم یاد رکھیں گے تاکہ اس کی تمام صورتوں میں نفرت کے مضر اثرات کے خلاف ہمیشہ چوکس رہیں۔

امریکی صدر کے اس بیان کو آرمینیا اور اس کے تارکین وطن کے لیے ایک بہت بڑی فتح کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

1965 میں یوراگوئے سے آغاز کے بعد فرانس، جرمنی، کینیڈا اور روس نسل کشی کو تسلیم کرچکے تھے لیکن امریکی بیان زیادہ اہمیت والا تھا۔

جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ اس بیان کا مقصد 'الزام عائد کرنا نہیں بلکہ اس بات کی یقین دہانی کرنا ہے کہ جو ہوگیا وہ دوبارہ کبھی نہیں دہرایا جائے گا'۔

ترکی کا امریکا پر تاریخ دوبارہ تحریر کرنے کا الزام

دوسری جانب ترکی نے امریکی صدر کی جانب سے آرمینیائی نسل کشی کو تسلیم کرنے کے فیصلے کو مسترد کردیا اور الزام عائد کیا کہ امریکا تاریخ کو دوبارہ تحریر کرنے کی کوشش کررہا ہے۔

ترک وزیر خارجہ مولود جاویش نے جوبائیڈن کے فیصلے کے چند لمحوں بعد ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ 'ہم کسی سے اپنی تاریخ کا سبق نہیں لیں گے'۔

علاوہ ازیں استنبول میں آرمینیائی آبا و اجداد کے لیے ایک پیغام میں رجب طیب اردوان نے 'تیسرے فریقین' پر ایک صدی پرانی بحث کو سیاست کا رنگ دینے کا الزام عائد کیا۔

ترک صد نے ایک پیغام میں لکھا کہ 'ان بحثوں سے کسی کو فائدہ نہیں ہوگا جو تاریخ دانوں کو کرنی چاہیے لیکن تیسرے فریقین اسے سیاسی رنگ دے کر ہمارے ملک میں مداخلت کا آلہ کار بن رہے ہیں'۔

پس منظر

سلطنت عثمانیہ کے آخری دنوں میں سال 1915 سے 1917 کے دوران تقریباً 15 لاکھ آرمینیائی افراد مارے گئے تھے جس میں عیسائی اقلیت پر پہلی جنگ عظیم میں روس کے ساتھ مل کر سازش کرنے کا شبہ تھا۔

مزید پڑھیں: روسی دفاعی نظام خریدنے پر امریکا نے ترکی پر پابندیاں عائد کردیں

غیر ملکی سفارتکاروں کے مطابق آرمینیائی آبادی کا گھیراؤ کر کے انہیں موت کے سفر پر شام کے صحرا میں جلاوطن کیا گیا جہاں متعدد افراد کو گولی مار دی گئی، کچھ کو زہر دیا گیا تو کچھ بیماری سے مر گئے۔

چنانچہ جب ترکی سلطنت عثمانیہ سے سیکولر ملک بن کر ابھرا تو تسلیم کیا کہ 3 لاکھ آرمینیائی باشندے مارے گئے لیکن اس بات کا سختی سے انکار کیا کہ یہ نسل کشی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں