اربوں روپے کی بے ضابطگیوں کے 116 آڈٹ اعتراضات 'پی اے سی' کی منظوری کے بغیر کلیئر

اپ ڈیٹ 27 اپريل 2021
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے اکاؤنٹس کے انٹرنل آڈٹ میں آڈیٹرز نے مالی امور میں اربوں روپے کی بے ضابطگیوں کے 129 آڈٹ اعتراضات اٹھائے تھے — فائل فوٹو
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے اکاؤنٹس کے انٹرنل آڈٹ میں آڈیٹرز نے مالی امور میں اربوں روپے کی بے ضابطگیوں کے 129 آڈٹ اعتراضات اٹھائے تھے — فائل فوٹو

اسلام آباد: اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے آڈٹ اور فنانس عہدیداروں کی حمایت سے ڈپارٹمنٹل آڈٹ کمیٹی (ڈی اے سی) کے اجلاسوں کے دوران 129 آڈٹ اعتراضات میں سے 116 کی منظوری دے دی جس کی وجہ سے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کی منظوری کے لیے صرف 13 پیرا باقی رہ گئے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ڈان کے پاس دستیاب دستاویزات کے مطابق سال 20-2019 کے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے اکاؤنٹس کے انٹرنل آڈٹ کے دوران آڈیٹرز نے ڈویژن کے مالی امور میں اربوں روپے کی بے ضابطگیوں کے 129 آڈٹ اعتراضات اٹھائے تھا۔

یہ آڈٹ پیرا غیر معقول ادائیگیوں اور ملازمت سے برطرف ملازمین کو دوبارہ بحال کرنے کے الاؤنس، مختلف محکموں میں ان کی پوسٹنگ، غیر مجاز اعزازی گرانٹ، تفریح پر غیر قانونی اخراجات، الاؤنس کی ادائیگی، 1800 سی سی کارز کا استعمال، اضافی معاوضے کی ادائیگی، دیر تک بیٹھے کے الاؤنس کی ادائیگی، ڈیپوٹیشن الاؤنس کی زائد ادائیگی، انکم ٹیکس کی کم کٹوتی، کرائے کی بے قاعدہ ادائیگی، غیر مستحق ملازمین کو رہائش کی الاٹمنٹ، غیر ضروری طور پر دفتر کے لیے نجی جائیداد حاصل کرنا، لائبریری کی کتابوں کی غیر ضروری خریداری، غیر قانونی سفری اخراجات وغیرہ پر مشتمل ہے۔

مزید پڑھیں: اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا سرکاری ملازمین کے اثاثے ظاہر کرنے سے انکار

اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے سیکریٹری ڈاکٹر اعجاز منیر، فیڈرل آڈٹ کے ڈائریکٹر جنرل طفخر علی اسدی اور فنانس ڈویژن کے ڈپٹی سیکریٹری (اخراجات) ریاض احمد پر مشتمل ڈی اے سی نے ان پیراز کو کلیئر کیا۔

مزید جانچ پڑتال کے لیے چھوڑے گئے 13 پیرا میں سے 7 اسٹیشنری اور اس سے متعلقہ اشیا کی خریداری سے متعلق ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے 2017 میں اسٹیشنری پر 2 کروڑ 3 لاکھ روپے اور 2018 میں 2 کروڑ 15 لاکھ روپے خرچ کیے تاہم 2019 میں اس کی خریداری پر 60 لاکھ روپے خرچ ہوئے تھے۔

رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ ’مالی سال 17-2016 سے 18-2017 کے دوران اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے اسٹیشنری، کمپیوٹر اسٹیشنری اور دیگر اشیا کی خریداری کے لیے 4 کروڑ 18 لاکھ روپے خرچ کیے‘۔

اس میں مشاہدہ کیا گیا کہ یہ خریداری مختلف سیکشنز سے مطالبے پر حقیقی تقاضوں کا تعین کیے بغیر غیر معاشی انداز میں کی گئی تھی۔

رپورٹ میں یہ بھی مشاہدہ کیا گیا ہے کہ ’مالی سال 19-2018 کے دوران اسٹیشنری کی خریداری کے اخراجات میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی تھی‘۔

یہ بھی پڑھیں: اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو سرکاری ملازمین کے اثاثوں کی تفصیلات عام کرنے کی ہدایت

آڈٹ میں اس کو عمومی مالیاتی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا گیا۔

دستاویزات کے مطابق چیف فنانس افسر (سی ایف او) محمد افضل نے اس پر روشنی ڈالی اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے سیکریٹری پر زور دیا کہ وہ انکوائری کرائیں اور ’انکوائری افسر کو انکوائری مکمل کرنے کی ہدایت کی جاسکتی ہے اور انکوائری رپورٹ کی روشنی میں مزید کارروائی بھی کی جاسکتی ہے’۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے سی ایف او کو اپنے اسائنمنٹ سے دستبردار کردیا اور پاکستان آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس سروس کے ایک اور افسر جہانگیر مشتاق ورک کو نیا سی ایف او مقرر کردیا۔

تاہم 19 گریڈ کے افسر جہانگیر مشتاق ورک شمولیت کے چند روز بعد ہی گزشتہ سال مئی میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے جوائنٹ سیکریٹری (ایڈمن) تعینات کردیے گئے تھے اور ان کی جگہ 21 گریڈ کے افسر مسعود چوہدری نے لی تھی۔

اندرونی ذرائع نے بتایا کہ جہانگیر مشتاق ورک کو آڈٹ پیرا کے سیٹلمنٹ کا چارج دیا گیا تھا۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سول بیوروکریسی کی ریڑھ کی ہڈی اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں جب سے سینئر جوائنٹ سیکریٹری مسعود چوہدری کو خصوصی سیکریٹری کی حیثیت سے کابینہ ڈویژن میں تعینات کیا گیا تب سے کوئی سرکاری ترجمان نہیں ہے۔

اسٹیبلشمنٹ سیکریٹری نے اب تک کسی بھی عہدیدار کو ترجمان کا قلمدان تفویض نہیں کیا ہے۔

اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے سیکریٹری نے نہ تو فون کالز کا جواب دیا اور نہ ہی ان کے عملے نے رپورٹر کو اپنے دفتر میں ان سے ملنے دیا۔

سیکریٹری ایڈیشنل اسٹیبلشمنٹ ندیم اسلم چوہدری بھی رائے کے لیے رابطہ کرنے پر دستیاب نہیں ہوسکے۔

تبصرے (0) بند ہیں