’اچھی صحت خدا کا تحفہ ہوتی ہے۔ اللہ نے مجھ پر اپنا کرم کیا ہے اور میں بھی 60 سال کی عمر میں تندرست رہنے کی کوشش کررہا ہوں۔ ایسا ہی رہا تو پھر میں 100 سال کی عمر میں بھی باڈی بلڈنگ کے مقابلے جیت سکتا ہوں‘، استاد عبدالوحید نے مسکراتے ہوئے یہ الفاظ ہم سے کہے۔ 60 سال کی عمر میں بھی ان کے جسم کی تراش ایسی ہے جو ہر نوجوان باڈی بلڈر کا خواب ہوتا ہے۔

رمضان سے کچھ ہی دن پہلے استاد عبدالوحید نے مسٹر پاکستان کا ٹائٹل جیتا تھا۔ اس سے کچھ مہینے قبل انہوں نے مسٹر پنجاب کا ٹائٹل اپنے نام کیا تھا۔ وہ مسٹر لاہور کا ٹائٹل بھی جیت چکے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے دیگر بے شمار تمغے بھی حاصل کیے ہیں جن میں اکثریت سونے اور چاندی کے تمغوں کی ہے۔ اب ان کی نظریں مسٹر ایشیا کے ٹائٹل پر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگر میری معلومات درست ہیں تو یہ مقابلہ موسمِ سرما میں بنگلور، بھارت میں ہونا ہے۔ میں وہاں پاکستان کا نام روشن کرنا چاہتا ہوں‘۔

عبدالوحید بمبا والی راوی بیدیاں (بی آر بی) کنال کے ساتھ واقع باٹا پور میں رہتے ہیں، ان کا بچپن بھی یہیں گزرا ہے۔ انہوں نے باڈی بلڈنگ شوق کے تحت شروع کی تھی۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ ’میں نے 16 سال کی عمر میں باڈی بلڈنگ شروع کی تھی لیکن اس وقت مجھے مقابلوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ میں جم میں صرف ویٹ لفٹنگ کے لیے ہی جاتا تھا۔ لیکن 20 سال قبل میرے شاگردوں نے زور دیا کہ مجھے مقابلوں میں بھی شرکت کرنی چاہیے‘۔

شاگردوں سے ان کی مراد وہ نوجوان ہیں جن کی انہوں نے تربیت کی ہے۔ کئی برسوں تک مختلف نجی باڈی بلڈنگ کلبوں میں تربیت دینے کے بعد استاد عبدالوحید نے ایک دوست کے ساتھ مل کر نیو باڈی گریس جم کے نام سے اپنا جم کھول لیا اور وہ خود بھی یہیں ٹریننگ کرتے ہیں۔

ان دنوں استاد وحید منہ اندھیرے ہی اپنے گھر والوں کے ساتھ سحری کرلیتے ہیں اور پھر فجر کی نماز ادا کرکے جی ٹی روڈ پر واقع اپنے جم اور ٹریننگ سینٹر چلے جاتے ہیں۔

میں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ سحری یا ناشتے میں سالم بکرے کھاتے ہیں یا کئی لیٹر دودھ پی جاتے ہیں تو انہوں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ ’میں کوئی پہلوان یا ریسلر نہیں ہوں۔ ہم دکھاوے سے زیادہ تن سازی پر توجہ دیتے ہیں۔ ہماری خوراک میں زیادہ تر قیمہ، دالیں، دلیہ، دودھ، دہی، انڈے، سلاد اور پھل یا خشک میوے شامل ہوتے ہیں۔ ان چیزوں کو بھی ہم دن بھر میں 6 یا 7 حصوں میں تقسیم کرکے کھاتے ہیں اور درمیان میں آرام اور ورزش بھی کرتے ہیں‘۔

جم میں انہیں ’استاد‘ یا پھر ان کی سفید داڑھی کی وجہ سے ’بابا‘ کہا جاتا ہے۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ نوجوان اس صحت مند سرگرمی کو اختیار کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ خوراک سستی نہیں ہے، نہ ہی ٹریننگ اور مشینیں سستی ہیں۔ ایک عام کلب کی ماہانہ فیس بھی تقریباً 40 ہزار روپے کے آس پاس ہوتی ہے۔ لیکن میرے جم میں جو شخص جتنا دے سکتا ہے میں وہی لے لیتا ہوں‘۔

استاد عبدالوحید اپنے جم میں ورزش کرتے ہوئے
استاد عبدالوحید اپنے جم میں ورزش کرتے ہوئے

’میری شروع سے ہی یہ کوشش رہی ہے کہ نوجوانوں کو نشے اور شراب جیسی بُری عادات سے بچایا جائے۔ بہتر یہی ہے کہ وہ کسی مثبت چیز پر پیسے خرچ کریں۔ اسی وجہ سے وہ جو کچھ دیتے ہیں میں قبول کرلیتا ہوں‘۔

’وہ میری نگرانی میں جم، آلات اور مشینیں استعمال کرسکتے ہیں لیکن میں انہیں کہتا ہوں کہ خوراک کا خرچ انہیں خود اٹھانا ہوگا۔ میں کوئی امیر آدمی نہیں ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر میں امیر ہوتا تو میں اپنے شاگردوں کی خوراک کا انتظام بھی کرتا لیکن فی الحال یہ ممکن نہیں ہے۔ میری خواہش ہے کہ مجھے کچھ اچھے اسپانسر مل جائیں‘۔

ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا باڈی بلڈنگ کے مقابلوں میں عمر کی بھی کوئی حد ہوتی ہے؟ اس پر استاد وحید نے کہا کہ ’کچھ ایسے مقابلے بھی ہوتے ہیں جن میں عمر کی کوئی حد نہیں ہوتی، میں اکثر انہی مقابلوں میں حصہ لیتا ہوں۔ اگر کہیں عمر کی حدود کا تعین ہو تو میں 50 سال اور اس سے زیادہ عمر کی کیٹیگری میں حصہ لیتا ہوں‘۔

’مجھے رمضان سے کچھ پہلے ہی کراچی میں ہونے والے ایک بڑے مقابلے میں مسٹر پاکستان کا ٹائٹل ملا ہے۔ اس مقابلے میں عمر کی کوئی حد نہیں تھی۔ جب میں اسٹیج پر آیا تو میں نے کچھ لوگوں کو یہ کہتے سنا کہ پوز کرنے سے پہلے ہی میرے سکس پیک ایبز نظر آرہے تھے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 20 برس میں وہ باڈی بلڈنگ کے حلقے میں خوب عزت کما چکے ہیں۔

’لیکن مجھے ابھی بھی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ لوگوں کو میرے کسی مقابلے میں حصہ لینے پر تحفظات ہوتے۔ کچھ ماہ قبل میں نے مسٹر پنجاب کا ٹائٹل جیتا تھا۔ تمام ججوں نے میرے حق میں فیصلہ کیا لیکن پھر کسی نے کہہ دیا کہ مجھے مقابلے میں حصہ ہی نہیں لینا چاہیے تھا۔ میں اسی وقت اسٹیج سے اترا اور گھر چلا گیا۔ میں نے وہ اعزاز بھی واپس کردیا‘۔

’اس کے کچھ عرصے بعد تک میں نے کسی دوسرے مقابلے میں شرکت نہیں کی۔ میں بہت مایوس ہوگیا تھا۔ لیکن پھر کچھ ایسا ہوا جس نے میرے خیالات بدل دیے‘۔

وہ ایک بدقسمت حادثہ تھا۔

’میرا گھرانہ بہت بڑا ہے، میرا ایک بیٹا اور 2 بیٹیاں ہیں، میرے بیٹے کی بھی 3 بیٹیاں ہیں۔ میرا 35 سالہ بیٹا حبیب، چنگچی رکشے کے حادثے میں زخمی ہوگیا۔ حادثے کے باعث اس کی پسلیاں ٹوٹ گئیں اور وہ کئی مہینوں سے بستر پر ہے۔ اس وجہ سے گھر والوں کا پیٹ پالنے کی تمام ذمہ داری مجھ پر آپڑی۔ ڈاکٹر پُرامید ہیں کہ میرا بیٹا مکمل طور پر صحتیاب ہوجائے گا لیکن اس میں وقت لگے گا‘۔

’اس حادثے سے قبل میرا بیٹا سلائی مشینوں کا کاروبار کرتا تھا۔ اب ایک والد اور دادا ہونے کی حیثیت سے میری ذمہ داری ہے کہ میں اپنے گھر والوں کا خیال رکھوں اور یقیناً میں ایسا کروں گا بھی۔ تو جس دوران میرا بیٹا صحتیاب ہورہا ہے، میں نے جم چلانے کے ساتھ ساتھ دوبارہ مقابلوں میں شرکت شروع کردی ہے‘۔

کبھی کبھی زندگی کی عائد کردہ ذمہ داریاں ادا کرنے میں باڈی بلڈنگ سے زیادہ محنت لگتی ہے۔ لیکن استاد عبدالوحید یہ کام بخوبی کررہے ہیں۔


یہ مضمون ڈان اخبار کے ای و ایس میگزین میں 25 اپریل 2021ء کو شائع ہوا۔

تبصرے (5) بند ہیں

Khalid H. Khan Apr 29, 2021 07:14pm
Great man and our hero.
Khurram Apr 30, 2021 11:04am
Kia baat hai Baba G!
HonorBright Apr 30, 2021 03:25pm
And here i am: a man with a wafer body...
Rizwan Ali Soomro Apr 30, 2021 04:53pm
Good baba
Mumtaz Ahmed shah May 02, 2021 11:25am
A marvelous article written by Shazia Hassan. (USA )