وزیراعظم عمران خان نے ملاقات میں جسٹس قاضی فائز کا نام نہیں لیا، بشیر میمن

اپ ڈیٹ 02 مئ 2021
بشیر میمن نے معاملے کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کی تجویز دی—فوٹو: ڈان نیوز
بشیر میمن نے معاملے کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کی تجویز دی—فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سابق ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) بشیر میمن نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے ان سے ملاقات کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا نام نہیں لیا۔

نجی ٹی وی 'ہم نیوز' کے پروگرام 'بریکنگ پوائنٹ ود مالک' میں گفتگو کرتے ہوئے بشیر میمن نے کہا کہ وزیراعظم سے ان کی ملاقات دو سے تین منٹ رہی، جس میں انہوں نے کسی مخصوص کیس کی بات نہیں کی۔

مزید پڑھیں: جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف منی لانڈرنگ کیس بنانے کیلئے دباؤ ڈالا گیا، سابق ڈی جی ایف آئی اے

میزبان محمد مالک نے سوال کیا کہ وزیراعظم نے ملاقات کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا نام لیا تھا؟ تو بشیر میمن نے نفی میں جواب دیا تاہم وہ دیگر حکومتی عہدیداروں کے نام پر قائم ہیں جنہوں نے سپریم کورٹ کے جج کے خلاف کیس بنانے کےلیے دباؤ ڈالا۔

قبل ازیں سابق ڈی جی ایف آئی بشیر میمن وزیر اعظم اور حکومت پر دباؤ ڈال کر مخالفین کے خلاف مقدمات بنوانے سمیت سنگین الزامات عائد کیے تھے۔

انہوں نے کہا تھا کہ وزیر قانون فروغ نسیم اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے داخلہ مرزا شہزاد اکبر نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیس شروع کرنے لیے دباؤ ڈالا جبکہ حکومتی عہدیداروں نے الزامات مسترد کردیے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم ہاؤس میں وزیر اعظم عمران خان، ان کے مشیر برائے احتساب و داخلہ شہزاد اکبر اور وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم سے ملاقات ہوئی جہاں انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مقدمہ بنانے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ میں نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف مقدمہ دائر کرنے سے انکار کردیا تھا اور کہا تھا کہ بطور ایک ادارہ اپنی ساکھ خراب نہیں کرسکتا۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے ٹوئٹر پر 'ہم نیوز' پر بشیر میمن کا انٹرویو جاری کرتے ہوئے کہا کہ 'وزیر اعظم کی ذات پر الزام لگائیں، ہیڈلائنز بنائیں اور بعد میں آرام سے یو ٹرن لے لیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'ٹی وی چینل سے کہو تو میڈیا کی آزادی میں خطرہ اور اگر مہمان سے پوچھو تو سیاسی انتقام کا نعرہ، یہ سلسلہ بند ہونا ہو گا'۔

بشیر میمن نے پروگرام میں کہا کہ وہ اس حق میں ہیں کہ عدالتی کمیشن تشکیل دینا چاہیے جو اس معاملے کو دیکھے اور 'اگر میں جھوٹا ہوں تو بھی ثابت ہوگا اور اگر میں سچا ہوں تو ثابت ہوجائے گا'۔

انہوں نے کہا کہ اجلاس ریکارڈ کا حصہ ہے، 'وزیراعظم کے دفتر، وزیراعظم ہاؤس یا کہیں اور کوئی بھی شخص ایسے نہیں جاسکتا، میرا اسٹاف بھی جانتا تھا کہ میں کہا جارہا ہوں، ریکارڈ کہیں پر موجود ہوگا اور یہ اتنی پریشانی کی بات نہیں ہے'۔

حکومت کی جانب سے الزامات کی تردید

بعد ازاں وزیراعظم عمران خان نے مخصوص صحافیوں سے ملاقات میں ان الزامات کو مسترد کیا تھا اور کہا تھا کہ انہوں نے بشیر میمن کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف تفتیش یا ریفرنس دائر کرنے کے لیے کبھی نہیں کہا۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم نے سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کے الزامات مسترد کردیے، سینئر صحافی

وزیراعظم نے بشیر میمن کے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کو میری یا حکومت کی جانب سے کبھی یہ ہدایات نہیں دی گئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کبھی بھی خاتون اول کی تصویر کے معاملے پر مریم نواز کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ بنانے کا نہیں کہا، خواجہ آصف کے سوا مسلم لیگ (ن) یا پیپلز پارٹی کے کسی اور رہنما کے خلاف تحقیقات کا نہیں کہا۔

وزیراعظم نے تسلیم کیا کہ خواجہ آصف کے حوالے سے بشیر میمن کو یہ بات کہی گئی تھی کہ وہ اس بات کی تحقیقات کریں کہ کیسے ایک شخص غیر ملکی اقامہ رکھتا ہے، تنخواہ لیتا ہے اور اس کے بعد بھی وزیر دفاع اور وزیر خارجہ کے عہدے پر رہتا ہے اور یہ مفادات کا ٹکراؤ ہے، اس لیے خواجہ آصف کے خلاف تحقیقات کا بشیر میمن کو کہا تھا۔

وزیراعظم نے کہا تھا کہ یہ بات صرف بشیر میمن کو نہیں کہی گئی تھی بلکہ اس پر باقاعدہ کابینہ میں بحث ہوئی تھی جس کے بعد سابق ڈی جی ایف آئی اے کو یہ بات کہی گئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ قاضی فائز عیسیٰ کے کیس میں بشیر میمن کو کسی قسم کی ہدایات نہ وزیر اعظم نے دیں اور نہ ہی حکومت نے دی ہیں جبکہ بشیر میمن کو پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کو گرفتار یا ان کے خلاف تحقیقات کرنے کا بھی نہیں کہا گیا تھا۔

دوسری جانب شہزاد اکبر کے وکیل نے بشیر میمن کو 50 کروڑ روپے کے ہرجانے کا نوٹس بھی بھجوادیا ہے اور کہا ہے کہ ان کے خلاف بے بنیاد الزامات لگائے گئے ہیں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیس بنانے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس

سپریم کورٹ نے 27 اپریل کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نظرثانی درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو تفتیش کے لیے دیے گئے فیصلے کو کالعدم قرار دیا تھا جبکہ صدارتی ریفرنس ایک سال قبل ہی مسترد کردیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس فائز عیسیٰ کی نظرثانی درخواستیں منظور، ایف بی آر کی تمام کارروائی کالعدم

عدالت عظمیٰ نے گزشتہ برس جون میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ریفرنس کو مسترد کرتے ہوئے غیرقانونی قرار دیا تھا۔

صدارتی ریفرنس میں مستقبل میں چیف جسٹس بننے والے سپریم کورٹ کے سینئر جج پر اہلیہ کے نام پر لندن میں جائیدادیں رکھنے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں