وفاقی حکومت کا انتخابی اصلاحات متعارف کروانے کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 03 مئ 2021
انہوں نے کہا کہ انتخابی دھاندلی کا قصہ ہمیشہ کے لیے ختم کرنےکے لیے کمیٹی بنائی گئی—فوٹو: ڈان نیوز
انہوں نے کہا کہ انتخابی دھاندلی کا قصہ ہمیشہ کے لیے ختم کرنےکے لیے کمیٹی بنائی گئی—فوٹو: ڈان نیوز

وزیراعظم کے مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان نے کہا کہ انتخابی اصلاحات کامعاملہ ایسا ہے کہ اس سے آئینی بحران پیدا نہیں ہوا لیکن آئینی اداروں پر عدم اعتماد کا بحران پیدا ہوگیا ہے اس لیے وفاقی حکومت کے انتخابی اصلاحات کے پیکج میں 49 سیکشن متعارف، حذف یا تبدیل کیے جارہے ہیں۔

اسلام آباد میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ ملک زمین یا بلڈنگ سے نہیں بنتے بلکہ عوام اور اس کے اداروں سے بنتے ہیں۔

بابر اعوان نے کہا کہ 'جدید دھاندلی کا سب سے بڑا طوفان اٹھا وہ ایک سیاسی جج صاحب تھے انہوں نے 2013 کے انتخابات میں تمام ریٹرننگ افسران سے خطاب کرلیا'۔

انہوں نے کہا کہ 'بعدازاں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے اسے آر اوز کا الیکشن قرار دیا۔

مزید پڑھیں: ڈسکہ سے کراچی، انتخابی نااہلی کی طویل داستان

وزیراعظم کے مشیر پارلیمانی امور نے کہا کہ 2013 کے انتخابات کے بعد حکومت کے پاس دو راستے تھے کہ کوئی انتخابی اصلاحات نہ کریں اور دوسرا موجودہ حالات کے تناظر میں اصلاحات کریں اور آگے بڑھیں۔

بابر اعوان نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے دوسرا راستہ اختیار کیا جس کا تعلق انتخابی اصلاحات ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ الیکشن ایکٹ 2017 اور حکومتی پیکج میں 49 سیکشن متعارف، حذف اور تبدیل کیے جارہے ہیں۔

مشیر پارلیمانی امور نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے کابینہ کے حالیہ اجلاس میں واضح کیا کہ انتخابی اصلاحات کا معاملہ سب سے پہلے سول سوسائٹی کے سامنے پیش کریں گے۔

بابر اعوان نے بتایا کہ اس کے بعد اے پی این ایس، سی پی این ای، پریس کلب کے عہدیداران، بار کونسلز اور بار ایسو سی ایشنز میں انتخابی اصلاحات کا ایجنڈا پیش کریں گے اور بریفنگ دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ملک کے پارلیمانی نظام کو فعال بنانے والے غیر سرکاری اداروں کو بھی بریفنگ دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عدالتی اور عوام کی سطح پر دھاندلی کی مہم چلائی لیکن الیکٹرونک ووٹنگ کی وجہ سے تمام الزامات رائیگاں گئے۔

وزیراعظم کے مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان نے کہا کہ پاکستان کے پاس دو آپشنز ہیں کہ پاکستان میں ووٹ پر اعتبار پیدا نہ ہونے دیں اور دوسرا آپشنز ہےکہ آئینی اور قانونی ترامیم کے ذریعے دروازے کھولیں۔

انہوں نے کہا کہ انتخابات میں الیکٹرونک ووٹنگ مشین کے استعمال کے لیے سیکشن 103 ترمیم کررہے ہیں، یہ پہلی بڑی ریفارم ہوگی۔

مزیدپڑھیں: وزیر اعظم کا انتخابی اصلاحات کمیٹی کی تشکیل کیلئے اسپیکر قومی اسمبلی کو خط

بابر اعوان نے کہا کہ اوورسیز پاکستانیوں کے لیے سیکشن 94 میں ترمیم لارہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کے لیے ہم نے دو اصلاحات تجویز کی ہیں جس کے تحت سیاسی جماعت 10ہزار کی نمائندگی پر رجسٹرڈ ہوگی۔

وزیراعظم کے مشیر پارلیمانی امور نے کہا کہ کہ ایک نئی شق شامل کررہے ہیں کہ 213 اے کے تحت سیاسی جماعت سالانہ کنونشن منعقد کرنے کی پابند ہوں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ پولنگ اسٹاف افسران پر اعتراض کی صورت میں تبدیل کیا جا سکے گا یعنی پولنگ اسٹاف افسران پر اگر کسی کو اعتراض ہوگا تو وہ اسے 15 دن میں چیلنج کرسکے گا۔

بابر اعوان نے کہا کہ نادرا کا آئی ڈی ڈیٹا کی بنیاد پر انتخابی فہرستیں تیار ہوں گی۔

انہوں نے کہا کہ حلقہ بندیوں کو درست کرنے کے لیے آبادی کی بنیادی پر ہونے والی تقیسم کو دور کریں گے اور رجسٹرڈ ووٹرز کی بنیاد پر حلقہ بندی کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ تمام ترامیم میں کوئی چیز ایسی نہیں جو کسی ایک جماعت کے مفاد میں ہو۔

بابر اعوان نے کہا کہ پچھلے سال اکتوبر سے لے کر آج تک کوئی ترمیم قومی اسمبلی میں ڈالی ہے۔

انتخابی دھاندلی کا قصہ ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے کمیٹی بنائی گئی، فواد چوہدری

اس سے قبل وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ عمران خان نے وزرات عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پارلیمنٹ میں پہلی تقریر کے دوران اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سے ملاقات میں انتخابی اصلاحات کے لیے کمیشن بنانے پر آمادگی کا اظہار کیا اور پہلے دن ہی پارلیمانی کمیٹی بنادی تھی۔

پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ انتخابی دھاندلی کا قصہ ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے کمیٹی بنائی گئی اور اسی کمیٹی کو سابقہ دور حکومت میں 4 برس لگے تھے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ اس کمیٹی کو تشکیل دینے کے لیے دھرنے دینے پڑے اور احتجاج کرنا پڑا لیکن ہم نے پہلے دن ہی کمیٹی بنادی۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم کی انتخابی اصلاحات کیلئے اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت

انہوں نے کراچی کے حلقہ این اے 249 کے انتخاب سے متعلق کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے پیپلز پارٹی پر انتخابی دھاندلی کا الزام لگایا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے حالیہ سینیٹ انتخاب اوپن بیلٹ کے ذریعے کروانے کے لیے بھرپور زور دیا لیکن مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے مخالفت کی۔

فواد چوہدری نے کہا کہ یہ دونوں وہ پارٹیاں ہیں جہنوں نے 2006 میں میثاق جمہوریت میں اتقاق رائے کیا تھا کہ سینیٹ کے انتخاب اوپن بیلٹ سے ہوں گے، مسلم لیگ (ن) 2015 میں قانون سازی لے کر آئی تھی کہ ووٹ اوپن ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ لیکن جب وزیر اعظم عمران خان نے اوپن بیلٹ کی بات کی تو انہوں نے مخالفت کردی۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے رہنما یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ کے انتخاب جتوایا گیا لیکن وہ سینیٹ چیئرمین کے لیے منتخب نہیں ہوسکے، وہ ہم سب کے سامنے ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’انتخابات 2018 پہلے ہی دھاندلی زدہ ہوچکے ہیں‘

انہوں نے کہا کہ انتخابات کے بعد دھاندلی کا الزام دور کرنے کے لیے اصلاحات کا عمل نہیں کیا تو سیاسی اور جمہوری ترقی رک جائے گی۔

فواد چوہدری نے کہا کہ ہم انتخابی اصلاحات تجویز کررہے ہیں جس میں ٹیکنالوجی شامل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انتخابی اصلاحات کے لیے اپوزیشن سے درخواست، وزیر اعظم، اسپیکر قومی اسمبلی اور وفاقی وزرا کررہے ہیں، آپ کہتے ہیں کہ بات چیت کے لیے بھی تیار نہیں اور الیکشن کمیشن انتخابی اصلاحات کا بیڑا اٹھائے۔

تبصرے (0) بند ہیں