کورونا وائرس کے کیسز اور مثبت شرح میں کمی کا رجحان شروع

اپ ڈیٹ 04 مئ 2021
17 اپریل کو 6 ہزار 127 کیسز جبکہ مثبت شرح 11 فیصد تک پہنچ گئی تھی—فائل فوٹو: رائٹرز
17 اپریل کو 6 ہزار 127 کیسز جبکہ مثبت شرح 11 فیصد تک پہنچ گئی تھی—فائل فوٹو: رائٹرز

اسلام آباد: مسلسل تقریباً 3 ماہ کووِڈ 19 کیسز میں اضافے کے بعد آخر کار کمی کا رجحان دیکھنے میں آیا اور مثبت کیسز کی شرح اور کیسز کی تعداد، دونوں میں کمی دیکھی گئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو گزشتہ برس رمضان جیسی صورتحال کا سامنا ہے اور اگر عوام نے کورونا وائرس سے متعلق اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پیز) کی اسی طرح خلاف ورزی کی جیسی گزشتہ برس عیدالفطر کے دوران کی تھی تو کیسز میں دوبارہ اضافہ ہوسکتا ہے۔

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے اعداد و شمار کے مطابق پیر کے روز 4 ہزار 213 کیسز اور 79 اموات رپورٹ ہوئیں، 670 وینٹی لیٹرز زیر استعمال تھے اور فعال کیسز جن کی تعداد 90 ہزار سے بلند ہوچکی تھی وہ 87 ہزار 953 پر آگئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: وزارت داخلہ کا 10 مئی سے 15 مئی تک عید کی چھٹیوں کا اعلان

کووِڈ 19 کی تیسری لہر کے دوران فروری میں یومیہ کیسز کی تعداد ایک ہزار اور مثبت کیسز کی شرح 3 فیصد تھی جس کے بعد اس میں اضافے کا رجحان شروع ہوا اور 17 اپریل کو 6 ہزار 127 کیسز جبکہ مثبت شرح 11 فیصد تک پہنچ گئی تاہم گزشتہ ہفتے سے یومیہ کیسز اور مثبت شرح دونوں میں کمی کا سلسلہ جاری ہے۔

مائیکروبائیولوجسٹس ڈاکٹر جاوید عثمان نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات پر اتفاق کیا کہ ملک میں کیسز میں کمی کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے، لیکن عید کی تعطیلات کے دوران چیزیں بگڑ سکتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ رمضان میں بھی ہم اسی طرح آگے بڑھ رہے تھے کیونکہ کیسز کم ہو رہے تھے لیکن عید کی تعطیلات کے دوران لوگ اپنے آبائی علاقوں، پارکس میں گھومنے گئے، دعوتیں کیں جس کی وجہ سے کیسز میں اچانک اضافہ ہونا شروع ہوا اور صورتحال بے قابو ہوگئی اور جون 2020 تک یہ اضافہ جاری رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'تاہم رواں برس اچھی بات یہ ہے کہ حکومت نے پہلے شہروں کے درمیان ٹرانسپورٹ، پارکس کو بند کردیا ہے اور لوگوں کو گھروں میں رہنے کا کہا گیا ہے'۔

مزید پڑھیں: 'ویکسینیشن کے بعد سامنے آنے والے بیشتر اثرات، اضطراب کی وجہ سے ہیں'

انہوں نے مزید کہا کہ اگر یہ اقدامات بھرپور طریقے سے نافذ کیے جائیں تو کیسز میں کمی کا رجحان برقرار رہے گا ورنہ معاملات خراب ہوسکتے ہیں۔

ڈاکٹر جاوید عثمان کا کہنا تھا کہ وائرس کی ہیئت میں تبدیلی کو روکنا اسی وقت ممکن ہے جب وائرس کی گردش روکی جاسکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ وائرس تیزی سے بڑھ رہا ہے اس لیے اس بات کا خدشہ ہے کہ تبدیل ہوتے ہوئے اس سطح تک جاپہنچے جہاں ویکسین غیر مؤثر ہوجائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں 70 فیصد سے زائد آبادی کو ویکسینیٹ کر کے جلد از جلد اجتماعی مدافعت حاصل کرنی ہے، برطانیہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ نومبر 2021 تک اجتماعی مدافعت حاصل کرلے گا۔

یہ بھی پڑھیں: وبا کے دنوں میں کس طرح پاکستانی غریبوں کی مدد کر رہے ہیں؟

دوسری جانب یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز (یو ایچ ایس) کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ کیسز کی تعداد میں کمی ہونا شروع ہوئی ہے لیکن یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ پاکستان میں (تیسری لہر کا) عروج آچکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں تجویز دوں گا کہ حکومت کو وائرس کو مزید کنٹرول کرنا چاہیے، کووڈ 19 ایک بڑا وائرس ہے جس میں تبدیلی کی 39 ہزار ممکنہ صورتیں ہیں، گزشتہ ایک سال کے عرصے میں وائرس کی پھیپھڑوں سے چپکنے کی صلاحیت 3 گنا بڑھ چکی ہے اس لیے میرا خیال ہے کہ ہمیں احتیاطی تدابیر بھی 3 گنا بڑھا دینی چاہیے۔

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر جاوید اکرم نے اس بات پر اتفاق کیا کہ عوام نے گزشتہ چند ہفتوں سے ایس او پیز پر عمل کرنا شروع کردیا ہے اور ایسا بھارت کی صورتحال کی وجہ سے ہو رہا ہے، لوگ دیکھ رہے ہیں کہ بھارت میں روزانہ ہزاروں افراد وائرس کے باعث انتقال کر رہے ہیں اس لیے انہوں نے ہدایات پر عمل کرنا شروع کردیا ہے اور یہ ان کے لیے اچھا ہے کہ اسی صورتحال کا سامنا کرنے کے بجائے دوسروں سے سبق سیکھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں